رواجوں اور روایتوں میں لچک ہونا چاہیے

Ammar Ghazanfar aik Rozan writer
عمار غضنفر، صاحبِ مضمون

رواجوں اور روایتوں میں لچک ہونا چاہیے

(عمار غضنفر)

معاشی تبدیلیاں بہت حد تک معاشی حالات کےجبر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں عموماً مذہبی پیشوا، روایت پرست دانشور، گزشتہ نسل کے نمائندہ بزرگ اور تبدیلی مخالف سوچ رکھنے والا طبقہ، پرانی اقدار کی تعریف و توصیف اور ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی مخالفت میں کمر بستہ رہتا ہے اور اس ضمن میں لوگوں کی ذہن سازی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔

عموماً یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سماج کی موجودہ ساخت سے کسی نہ کسی طور مستفید ہو رہے ہوتے ہیں اور تبدیلی کی صورت میں اپنے موجودہ اسٹیٹس کے چِھن جانے کا ڈر انہیں کسی ایسی تبدیلی کی بھی مخالفت پر اکساتا ہے جس کے نتائج چاہے فرد کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی دشواریوں میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو سکنے کا امکان ہی کیوں نہ ہو۔

عوام النّاس کا طبقہ اندھی عقیدت اور مرعوبیّت کے سبب بلا چون و چراں ان کی اس سوچ کی پیروی کرتا ہے۔ مگر وقت کی سِتم ظریفی یہ ہے کہ نہ صرف بنیادی ضروریاتِ زندگی کا حصول بلکہ اپنے میعارِ زندگی کو مزید بلند کرنے کی خواہش انسان کو ان تمام بندشوں کو خیر باد کہتے ہوئے خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

اس کی ایک مثال ہمارے معاشرے میں خواتین کا مردوں کے شانہ معاشی میدان میں سرگرم ہونا ہے۔ نچلہ طبقہ جس کی زندگی کا بنیادی محور روٹی، کپڑے اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات ہوتی ہیں، وہ تو خیر کبھی گھر کے کسی ایک فرد کی کمائی پر اپنی بقا کا دارومدار رکھنے کا متحمّل ہو ہی نہیں سکتا۔

یہی سبب ہے کہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افرادِ خانہ بشمول مردوزن اور بچّے، ہمیشہ ہی معاشی میدان میں سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں اور اس طبقے میں پردے اور عزّت کے روایتّی تصوّر کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

دوسری جانب راویت پرستی اور اخلاقی قدروں کی زنجیروں میں قابلِ رحم حد تک جکڑا ہمارا درمیانی طبقہ یعنی مڈل کلاس ہے۔ مگر آج ہمیں نظر آتا ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے مابین خواتین کے پردے اور ملازمت کرنے کے ضِمن میں ترجیہات میں یکسانیت کا فقدان ہے۔

اس کلاس کا ایک حصّہ ایسے خاندانوں پر مشتمل ہے جس کے بزرگوں کی قیامِ پاکستان کے دور سے تعلق رکھنے والی پیڑھی کے نزدیک خواتین کے گھر کی چاردیواری سے باہر نکلنے اور نامحرم مردوں سے اختلاط کا تصوّر بھی کسی جرم سے کم نہ تھا اور ایسی سوچ رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

مگر یہ بھرم زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔ ایسے خاندان جو قیامِ پاکستان کے بعد کے حالات میں اپنا معاشی اسٹیٹس برقرار رکھنے میں ناکام رہے، ان کی اگلی نسل کے پاس اپنی خواتین کو گھر سے نکلنے اور دفاتر میں کام کرنے کی اجازت دینے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔

ایسے میں جو خاندان ابھی تک مالی طور پر اتنے مستحکم تھے کہ اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے ذرائع آمدن ان کی دسترس میں تھے، وہ اب تک خواتین کے ملازمت کرنے کو باعث عار سمجھتے تھے اور یہ نئی روش ان کی نظر میں بگاڑ اور بے حیائی کے پھیلاؤ کا سبب تھی۔

مگر آج ہم دیکھتے ہیں کے ان کی نئی نسل معاشی مسائل کا شکار ہونے کے باعث اپنے بزرگوں کی اقدار کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنی بچیوں کے اعلیٰ تعلیم کے حصول اور ملازمت کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اپنے لڑکوں کے لیے رشتہ تلاش کرنے والی مڈل کلاس فیملیز بھی برسرِروزگار بہو کی متلاشی ہیں۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد روایات کی جس قدر بلند دیواریں ہی کیوں نہ اٹھا لیں، وقت اور حالات کے تقاضے انسان کو تبدیل ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں اور جو لوگ زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے اور ان کے مطابق ڈھلنے میں ناکام رہتے ہیں وہ اور جلد یا بدیر اپنا سماجی رتبہ اور معاشی استحکام کھو دیتے ہیں۔

اگر ہم دوسرے رخ سے جائزہ لیں تو اس طرح آنے والی تبدیلی کیوں کہ سست رو ہوتی ہے اور لوگوں کے ذہن اس کے نتیجے میں انسانی رویّوں اور اقدار میں پیدا ہونے والی شکست و ریخت کے فلسفے کو سمجھنے اور اس کے مطابق ڈھلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

نتیجتاً وہی حالت پیدا ہوتے ہیں جو آج ہماری سوسائٹی میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ لوگ باامرِ مجبوری اپنی بیٹیوں کو تعلیم تو دلواتے ہیں مگر اس سے منسلک لڑکیوں میں پیدا ہونے والی فکری آزادی اور اور اپنی انفرادی شخصیت کے ادراک کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہو پاتے۔

یہ زمانے کے تقاضوں سے مجبور اپنی لڑکیوں کے حصولِ تعلیم کے خواہاں تو ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ امورِخانہ داری داری میں بھی اسی طرح دلچسپی لیں جیسے کوئی عام گھریلو لڑکی، گھر والے انہیں جس کھونٹے باندھیں وہ چِیں نہ کریں اور ان کے ہر فیصلے پر سرِ تسلیم خم کر دیں۔

دوسری جانب اپنے لیے ملازمت پیشہ بہو تلاش کرنے والے والدین بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ معاش کے حصول میں ان کے برخوردار کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے تگ ودو تو کریں مگر ساتھ ہی ساتھ گھر گرہستی، بچوں کی پرورش اور ساس سسر کی خدمت میں بھی کوئی کمی نہ آنے پائے۔

یہ غیر حقیقت پسندانہ سوچ خاندانوں کے ٹوٹنے اور دیگر کئی معاشرتی المیوں کا سبب بنتی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ دفتر میں شریکِ کار مرد حضرات کی سوچ اور رویّہ بھی مثبت نہیں ہوتا۔ انہیں اپنے جیسا ورکر سمجھنے کی بجائے کوئی الگ ہی چیز سمجھا جاتا ہے، مرد کولیگ اکثر ان پر رالیں ٹپکاتے پائے جاتے ہیں اور وہ لاشعوری طور پر کیریئر میں ترقّی کے لیے کارکردگی سے زیادہ حسن و آرائش اور دل لبھانے والا شوپیس بننےکی جانب راغب ہو جاتی ہیں۔ اپنی انفرادی شخصیّت کا ادراک، خود مختاری، اپنے حقوق کاشعور اور آزاد سوچ، تعلیم یافتہ ذہن کا لازمی حصّہ ہیں۔

اس لیے ہم سبھی کے لیے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ جب ایک عورت یا لڑکی معاشی طور پر خودمختار ہو گی اور اس کا ایک اپنا کیریئر ہو گا تو شریکِ سفر کے انتخاب، گھریلو امور کی انجام دہی، خاندانی معاملات اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات میں اس کی اپروچ بالکل مختلف ہو گی جو کہ شائد روایتی ذہنوں کے میعار پر پوری نہ اتر سکے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ بوسیدہ ہو جانے والی روایات اور اقدار کا ازسرِ نو جائزہ لیتے ہوئے ان میں حالات کے مطابق ترمیم ہی دانشمندی ہے۔ معاشرے ایسے ہی تجربے کرتے، گر کر سنبھلتے اور غلطیوں سے سیکھتے بلوغت کی منازل طے کرتے ہیں۔

مسلسل تبدیلی ہی زندگی کا حسن ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس تبدیلی کے نتائج کواپنے لیے سودمند بنانے میں کس حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔ وقت کے مخالف چل کر کوئی معاشرہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ ایک جگہ ٹھہرے پانی میں ہمیشہ سرانڈ پیدا ہوجاتی ہے۔