غزل کی زمینوں پر بنتی ہاؤسنگ سوسائٹی

naseer ahmed
naseer ahmed

کیا غزل کی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بن سکتی ہے

از، نصیر احمد 

ملک صاحب، سنگلاخ زمین ہے، آپ سے نہیں نِبھے گی۔

یار، دیکھی ہیں بڑی سنگلاخ زمینیں، سب کی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بن جاتی ہیں۔

اس پہ نہیں بنے گی، غزل کی زمین ہے۔

چھوڑو یار، غزل ہو یا غزن، ہاؤسنگ سوسائٹی بن جاتی ہے۔

آدمی نہیں ہے، صنف ہے

وہ تو نام سے پتا چل جاتا ہے،

میرا مطلب…

مطلب وطلب چھوڑو، زمین بتاؤ کہاں ہے؟

غزل…اور غزل… داغ کے دیوان میں

یہ کون دیوان صاحب ہیں، دیوان ہو کہ نواب ابھی لٹھا منگواتے ہیں، سب خسرے، کھیوٹیں، موروثی ملکیتی، جمع بندیاں، حد بندیاں سب اپنی ہو جائیں گی۔

آپ کو اتنے تردّد کی کیا ضرورت ہے؟ مگر بات سن تو لیں۔

کہو!

میں غزل کی نہیں، شاعری کی صنف کی بات کر رہا ہوں۔

اتنی خوب صورت ہے کہ چلتی پھرتی شاعری ہے۔ کیا کہتے ہو، بھیجوں خطوات النکاح؟

ہاہا، نہیں ہو گا سر۔

کیوں نہیں ہو گا، ہم ایسی آفر کریں گے، ٹھکرائی نہیں جائے گی۔

کسی چیتھڑے میں کالم نہیں لکھتی، داغ کی غزل ہے۔

ارے چھوڑو، داغ ہو کہ چراغ، اتنے رقیب ڈھائے ہیں کہ اب تو نظر ہی اٹھتی ہے، چھ سات تو ویسے ہی گر جاتے ہیں۔ پیسے میں بڑی طاقت ہے۔

وہ تو ہو، لیکن کچھ باتیں نا ممکن ہوتی ہیں، جنھیں پیسہ بھی نہیں خرید سکتا۔

ابھی تو رستے میں کوئی نہیں آیا جسے پیسہ نہ خرید سکا ہو۔ اور اگر بِکتا نہیں، تو رستے سے ہٹ جاتا ہے۔

وہ بات نہیں ہے۔

تم نے دوسری پارٹی سے پیسے تو نہیں لیے۔ اب ریٹ بڑھا رہے ہو۔ اپنے آدمی ہو، خیال رکھیں گے۔

ایسا کچھ نہیں ہے، بس نہیں ہو سکتا۔

میں تمھیں سلطان محمود کا واقعہ سناؤں جس میں ان سے کسی نے کہا تھا کہ تمھارے ہاتھ میں بادشاہی کی لکیر نہیں ہے اور انھوں نے چاقو سے ہاتھ پر لکیر کھینچ دی۔

میں یہ قصہ سٹالن کے حوالے سے سن چکا ہوں۔

سٹالن ہو یا محمود، نا ممکن کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے، جیسے سلطان سلیمان عثمانی نے کہا تھا۔

میرے خیال میں یہ نپولین نے کہا تھا۔

تم ملک دشمن تو نہیں؟

نہیں سر، نہ ملک دشمن، نہ عوام دشمن، یہ چیتھڑوں میں لکھنے والے جن کی فہرست آپ چھاپتے ہیں، وہ آپ کو خوش کرتے رہتے ہیں۔ جتنی باتیں، راک فیلر، بل گیٹ، وارن بفٹ، بلوم برگ وغیرہ نے کہی ہیں، آپ کے نام سے ہمارے اخباروں میں چل رہی ہیں۔

اپنے تو اچھے نہیں لگتے، وہی سیانے رہ گئے ہیں، تم خوا مخواہ اپنے سچے صحافیوں پر الزام لگا رہے ہو۔ لیکن بتاؤ غزل کی زمین مجھے کیوں نہیں مل سکتی۔

غزل لڑکی نہیں، شاعری کی ایک قسم ہے

یعنی بہت سندر ہے؟ ہاں یا نہ میں جواب دو

حافظ کی تو واقعی ہے، اپنے ذال سعدی کی بھی ہے

اب یہ کم بخت کون ہیں؟

شاعر ہیں غزل…

شاعر تو میری جیب میں پڑے رہتے ہیں،

یہ والے نہیں ہیں ناں، ورنہ آپ جانتے ہوتے۔

وہ تو ہے، مگر اس جیب میں سب آ جاتے ہیں۔

لیکن سر ایک مر گیا ہے، دوسرا آپ کے قابو نہیں آئے گا۔ لیکن یہ مسئلہ نہیں ہے، اب سن لیں، ٹوکیں ناں

تمھاری بات میں نہ ٹوکوں؟

ٹوکیں گے تو سمجھ نہیں آئے گی اور غزل کی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا سپنا ادھورا رہ جائے گا، پلیز۔

اچھا بکو

ہر غزل سے نکاح نہیں کیا جا سکتا، کچھ غزلیں لکھتے ہیں اور کچھ غزلیں پڑھتے ہیں اور غزل کی زمین…

بس بس، اچھا وہ والی غزل، کم بخت، ہمیشہ کی طرح میرا وقت ہی ضائع کیا ہے۔ جانتے بھی ہو کہ جیسے سلطان العارفین نے کہا ہے وقت پیسہ ہے۔

یہ بات میں نے کسی فلم میں سنی ہے۔ شاید اس فلم میں جس میں ساحل پر سلطان العارفین امیتابھ بچن کے روپ میں حاجیوں کو الوداع کر رہے تھے۔

ہاہاہا…