ہم زاد

ہم زاد
بہ وساطت Pinterest

ہم زاد

کہانی از، اعظم کمال

پہلا حصہ، لا مکانیت

مدھو کئی برسوں سے لا مکانیت کا شکار تھا۔ وہ ایک ریوڑ بان کا بیٹا تھا۔ شروع شروع میں وہ بھیڑوں کے ریوڑ کی دیکھ بھال کرتا رہا، لیکن یہ کام اس کے مزاج کا نہیں تھا۔ اس کے مَن میں تو عشق کا سودا تھا؛ اک مسافت کا… (مسافت بھی وہ جس کی منزل بھی مسافت ہو)۔

وہ پہاڑوں کا رہنے والا تھا اور پہاڑ تو مسافت کی نفی ہوتے ہیں! وہ تو گرد ہوتی مسافتوں کا شیدائی تھا، سو اس نے ہجرت کی ٹھانی۔

ہجرت… ہجرت ایک المیہ ہے۔ ایک ایسا المیہ جو غیر مکانیت اور غیر تاریخیت میں تشکیل پاتا ہے؛ اور فردی ہجرت اس سے بھی بڑا المیہ… کہ ایک خاص وقت کے بعد فرد اپنی شناخت کو ہی کھو بیٹھتا ہے۔ شناخت جو شخصیت کا اظہار بھی ہے اور شخصیت کا پسِ منظر بھی۔

مگر مدھو کی کون سی شناخت تھی۔ بھلا ریوڑ بان کی بھی کوئی شناخت ہوتی ہے۔ ریوڑ بانی تو بس بھیڑوں کی رکھوالی تک محدود ہوتی ہے۔ ریوڑ بانی ایک غیر سَمتی سفر ہے؛ بَل کہ ایک دائروی سفر جس کی نہ کوئی ابتدا نہ انتہا: اور دائروی سفر… ایک لا متناہی سفر ہے تصدیق ذات کا اور نفی ذات کا … اور مدھو اس توَہَّم پرستی کا منکر اور جسے عشق کا سودا ہو وہ کہاں دائروی کیفیت میں رہ سکتا ہے۔

یوں ایک دن مدھو نے فردی ہجرت کا سامان کیا اور اپنے گاؤں سے شمال کی طرف سفر پر روانہ ہوا۔

دوسرا حصہ، بے چہرگی

مدھو کی آبادی سے شمال مغرب میں ایک گاؤں آباد تھا۔ گاؤں ایک صحرا کے وسط میں کسی بے معنی نقطے کی طرح آباد تھا۔ ایک ایسا نقطہ جو اپنے ہی مرکز سے گریزاں۔

اس گاؤں میں ایک ہزار تین سو تریسٹھ دو شیزائیں آباد تھیں اور کئی برسوں سے کسی مرد ذات کا اس گاؤں سے گزر نہ ہوا تھا؛ لیکن یہ دو شیزائیں ایک افسانوی بے چہرگی میں پِرو دی گئی تھیں۔

یہ سب دوشیزائیں ہم شکل اور ہم نام تھیں۔ ایک ہی طرح کے خد و خال اور ایک ہی طرح کی شناخت۔ اس خد و خالی اور شناختی ایکتا نے ایک اجتماعی بے چہرگی کو جنم دیا۔ جس نے انفرادیت کو زائل کر دیا تھا۔ ان عورتوں کی نہ کوئی شناخت تھی نہ کوئی پہچان۔ یہ عورتیں بھی اپنے گاؤں کی طرح ایک ایسے نقطے کی طرح تھیں جو اپنے مرکز سے ہمیشہ گریزاں رہتا ہے اور بھلا نقطے کا مرکز ہو بھی کیا سکتا ہے۔ ان تمام عورتوں کا ایک ہی نام تھا۔ سارہ!

یہ عورتیں ازل سے نامی خد و خالی اور مقامی یکتائی کے جبر کا شکار تھیں۔ (یہ گاؤں ایک ایسی اجتماعیت تھی جس کی بنیاد ایک خلاء تھا فردی خلاء)

انفرادیت اور شخصیت کیسے تشکیل پاتی ہے؟ کیا خد و خال اور شناخت انفرادیت کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں؟ اگر ہیں تو کیا ان عورتوں کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں تھی اور اگر ان کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں تھی تو اجتماعیت کے علاوہ ان کا وجود کیسے ممکن تھا۔ مزید بَرآں کسی بیرونی شخص کے لیے ان کی وجودی حیثیت کیا ہو گی؟ یہ وہ تمام سوالات تھے جن کو سوچ سوچ کر وہ عورتیں ہلکان ہوتی جا تیں تھیں۔

ہم زادگی، تیسرا حصہ

کئی سو کوسوں کی مسافت کے بعد مدھو اُس گاؤں میں پہنچا جہاں پر 1063 ہم شکل عو رتیں آباد تھیں۔ وہ پیاس سے نڈھال ہو کر گر پڑتا ہے۔ کافی لمحوں کے بعد اپنے چہرے پر چھینٹے پڑنے کے بعد وہ ہر بڑا کر اُٹھتا ہے اُس کے کانوں میں آواز گونجتی ہے:

اے اجنبی، اس پانی سے اپنی پیاس بجھا۔ غالباً تو بھٹک گیا ہے یا پھر تو درویش ہے کہ آج تک کسی مرد نے اس بستی میں قدم نہیں رکھا۔

مدھو جو کہ مسافت سے نڈھال ہو چکا تھا اُس نے کہا:

اے آدم زادی! مجھے نہیں معلوم کہ تیرا نام کیا ہے؟ یہ بستی کون سی ہے؟ مگر اے آدم زادی میری پیاس تو تم تک پہنچنے کا ذریعہ تھی، اے آدم زادی میں تمھیں کس نام سے پکاروں؟

میرا نام سارہ ہے لیکن یہ صرف میرانام نہیں ہے میری ایک ہزار باسٹھ بہنیں بھی ہیں؛ ان کابھی یہی نام ہے۔

مدھو نے کہا: اے آدم زادی! یہ تم مجھے کس پریشانی میں ڈال رہی ہو، اگر تمھاری ساری بہنوں کا نام بھی سارہ ہے تو میں تمھاری پہچان کیسے کروں گا؟

 سارہ نے کہا: اے اجنبی تیری پریشانی کچھ اس سے بڑھ کر ہے۔ ہم تمام بہنیں صرف ہم نام ہی نہیں ہم شکل بھی ہیں اس لیے تو مجھے پہچان نہیں سکے گا۔ ہاں! مگر اگر آج رات تو نے مجھے تلاش کر لیا تو میں تیری محبت کو مان جاؤں گی اور اگر تم مجھے نہ پا سکے تو سور ج نکلنے سے پہلے یہاں سے کوچ ہی کر جان۔

مدھو نے کہا: اے آدم زادی اگر میرا عشق سچا ہوا تو پھر میں تمھیں ضرور تلاش کر لوں گا اور جب رات آدھی ڈھل چکی ہو گی تو تم میرا انتظار کرنا۔


اعظم کمال کی ایک روزن پر دیگر تحریروں کا لنک


جب رات آدھی ڈھل چکی تھی تو مدھو ایک گھر میں داخل ہوتا ہے اور ہلکی سی سرگوشی میں یوں آواز دیتا ہے۔ اے آدم زادی! جسے میں نے نہ دیکھا ہے نہ چھوا ہے جو میری مسافتوں کا انعام ہے۔ جس نے، جب کہ میں پیاس سے نڈھال ہو کر گراہواتھا، مجھے پانی پلایا تھا اور ایک وعدے پر مامُور کیا، میں اُسی وعدے کی لاج بن کر آیا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ سب دَر کھلے ہیں اور ہر در پر دیا روشن ہے۔ یہ کون سا انتظار ہے جس میں تم سب جکڑے ہو ئے ہو؟

اے آدم زادے! ہمارے ہاتھ بے لکیرے ہیں اور ہمارے ماتھے بے مقدر۔ ہم کسی کی ہاتھ کی لکیروں میں قید ہیں۔ ہمیں مسلسل انتظار کی صلیب پر لٹکا کر صحرا کی وسعتوں میں پھینک دیا گیا ہے۔ ہم سب اپنے اپنے راہی کی انتظار میں ہیں مگر ہمارے راہی اپنی خواہشوں کے سراب میں گم ہو جاتے ہیں۔

خیر چھوڑو! کیا ذکر ہمارے درد کا۔ ہمارا درد بھی اب بانجھ ہو چکا ہے۔ اے آدم زادے جب درد بانجھ ہو جاتے ہیں تو سود و زیاں سب زائل ہو جاتے ہیں۔“

 اے آدم زادے کوئی اپنی دنیا کی بات بتا، سنا ہے کہ تمھاری دنیا میں ہزار داستانیں ہیں کوئی داستان سنا کہ کہیں تو کوئی درد کی کُوک جاگے۔”

اے حسین لڑکی! ہماری دنیا بے رنگ ہو چکی ہے۔

سنو!

اس صدی کی سب باتیں مر چکی ہیں۔ لفظوں کے لاشے بے ترتیبی میں

کتابوں کے قبرستان میں جَڑ دیے گئے ہیں۔

کتابوں میں کچھ دیے جو مرحوم لفظوں کی یاد میں جلائے گئے تھے، بجھ گئے ہیں۔

یہ بے زبانی جو اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی، تو اس صدی کی سب باتیں بہت بے معنی سی باتیں ہیں۔ تم ان پر دھیان مت دو۔ دھیان کا مرکز تو معنی ہیں اور مردہ لفظوں کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔

یہ جو ہم ہیں وہ بھی بے معنی ہیں اور معنویت یہ دھیان مت دینا، بس اس صدی سے گزر جانا۔’

اے کائنات کی حسین ترین عورت!

‘ہماری زبانیں گگیا گئی ہیں۔ ہمارے حافظے کو مادیت کھا گئی ہے۔ ہماری عمارتیں ہمارے قدوں سے ہزاروں گنا اُونچی ہیں

ہمارے جسموں کو سطحیت کھا گئی ہے۔

ہمارا جنون اب کوئی کہانی نہیں بُنتا؛

بس دو چار جالے ہیں (تاریخیت)کے جو لٹکے رہ گئے ہیں۔

انھی کے سہارے میں تم تک پہنچا ہوں

تو معلوم ہوا کہ درد بانجھ ہو چکا ہے۔

اے سارہ ہمارے درد کس قدر مشترک ہیں۔ آؤ مجھے بوسہ دو کہ ہمارے وجود بھی ایک ہو سکیں۔

فراق، چوتھا حصہ

اے آدم زادے! اگر تمھاری سانسیں ٹھہر گئی ہیں تو ایک بات پوچھوں؟ سارہ نے اپنے جسم کو ریشم کی چادر سے ڈھانپتے ہوئے کہا۔

بولو، میری جان!

ہمیں ملے کئی گھنٹے گزر چکے، تم نے مگر میرے حسُن کی تعریف نہیں کی۔

اے سارہ! تم خود تو کہہ چکی کہ تم سب بہنیں ایک جیسی ہو تو پھر میں تمھارے حُسن کی تعریف کیسے کروں۔ تمھارا حُسن تمھاری انفرادیت تھوڑی ہے۔

سارہ نے جواب دیا: مدھو تم صحیح کہہ رہے رہو، لیکن ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ طالب اس کی تعریف کرے۔ میں جانتی ہوں کہ میرے وجود کی تعریف ممکن نہیں کیوں کہ میرے وجود میں ایک ہزار باسٹھ عورتیں شریک ہیں۔ لیکن پھر بھی میں چاہتی ہوں کہ تم میری تعریف کرو۔

مدھو نے کچھ دیر بعد کہا:

اے خوب صورت عورت! اگر میں چاہوں بھی تو میں تمھاری تعریف نہیں کر سکتا کیوں کہ میں اندھا ہوں، میں تو صرف تمھارے اندرون کا ادراک رکھتا ہوں!

… ایک طویل تر خاموشی…

مدھونے اس خاموشی کو توڑے ہوئے سارہ کو آواز دی۔

سارہ!

پھر دوسری آواز دی، سارہ!

پھر بے ہنگم آواز میں سارہ، سارہ، سارہ، سارہ، سارہ، سارہ، سارہ، سارہ، سارہ پکارا۔

اور مدھو اپنی ہی آوازوں کے شور سے بہرہ ہو گیا۔

ختم شد