کیا اسلام عورتوں کو برابری کے حقوق دینے میں رکاوٹ ہے؟

mahrukh rana
ماہ رخ رانا

کیا اسلام عورتوں کو برابری کے حقوق دینے میں رکاوٹ ہے؟

از، ماہ رخ رانا

جب بھی پاکستان میں عورتیں صنفی نا ہمواری کی شکایت کرتی ہیں یا پھر برابری کے حقوق کا تقاضا کرتی ہیں تو ایک جملہ ہمیشہ سننے کو ملتا ہے: اسلام نے پہلے ہی عورتوں کو تمام حقوق دے رکھے ہیں۔

آج ہم دیکھتے ہیں یہ بات کہاں تک درست ہے۔ ویسے تو زندگی کے بہت سے پہلووں پر اس موضوع سے متعلق بحث کی جا سکتی ہے، مگر اپنی اس تحریر میں ازدواجی زندگی اور طلاق سے متعلق بات کروں گی۔

ہمارا ملک اسلامی جمہوریۂِ پاکستان ہے اس لیے یہاں بھی طلاق سے متعلق قوانین بناتے ہوئے اسلامی ضوابط اور قوانین کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔

شادی دو لوگوں کے درمیان ایک قانونی کانٹریکٹ ہے جس کے تحت مرد اور عورت  برابر کی پارٹیاں ہیں اور میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے ہیں۔

کسی بھی قانونی کانٹریکٹ کو جب ختم کرنا ہو تو دونوں پارٹیوں کو مساوی حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ کیا اسلام نےعورت کو طلاق کا حق دیا ہے؟ اس سوال کا سیدھا سیدھا جواب ہے ‘نہیں’۔

اسلام نے طلاق کا حق شوہر کو دیا ہے۔ جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ جب چاہے اپنی بیوی کو چھوڑ سکتا ہے۔ اس پر کوئی قید نہیں ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتی ہے تو وہ یک طرفہ طلاق نہیں دے سکتی بل کہ اسے خلع کا راستہ اختیار کرنا ہو گا؛ یعنی اسے عدالت میں جا کر ثابت کرنا ہو گا کہ وہ کن ٹھوس وجوہات کی بناہ پر اپنے شوہر سے علیحدگی چاہتی ہے۔

وہ وجوہات جو  Dissolution of Muslim Marriage Act 1939 کے مطابق قابلِ قبول سمجھی جاتیں ہیں۔ ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ شوہر لا پتا ہو، شوہر پاگل ہو، جنسی تعلقات استوار نہ کر سکتا ہو، بیوی کا نان و نَفقہ پورا نہ کر رہا ہو، بیوی سے بد سلوکی کرتا ہو، یا پھر کہ Muslim Family Law Ordinance 1961 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کر لے۔ (حالاں کہ مذہبی علماء کی اکثریت کے نزدیک یہ وجہ قابلِ قبول نہیں ہے؛ کیوں کہ اسلام مرد کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے جس میں پہلے سے موجود بیویوں کی رضا مندی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔) بَہ ہر حال عورت کو عدالت میں جا کر اپنا مقدمہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ طلاق کیوں لینا چاہتی ہے، اور عدالت دوسری پارٹی یعنی اس کے شوہر کو بلا کر اس پر لگے الزامات سے متعلق اس سے استفسار کرے گی۔

چُوں کہ بیوی کے پاس یک طرفہ طلاق کا حق موجود نہیں ہے۔ اور اب خُلَع کی صورت میں بھی اسے اپنا مالی فائدہ یعنی alimony یا monetary compensation چھوڑنا ہو گا۔

اگر آپ قرآن کی آیات میں دیکھیں تو اس میں تو آپ کو خلَع کا کوئی با قاعدہ ضابطہ نہیں ملتا۔ اس کی دلیل حدیث سے ملتی ہے جہاں ثابت ابنِ قیس کو ان کی بیوی کی خواہش پر نبیﷺ نےطلاق دینے کا کہا اور بدلے میں ان کی بیوی سے کہا کہ وہ باغ جو ان کے شوہر نے اسے دیے تھے وہ اپنے شوہر کو واپس کر دیں۔


اک عجب گہما گہمی ہے


طلاق کے بعد مالی لین دین کے معاملات کو تحریر کے آخر میں تھوڑا سا بیان کروں گی کیوں کہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ پاکستان کے قانون Family Ordinance 1961 کے تحت عورت کو اس صورت میں یک طرفہ طلاق کا حق دیتا ہے جب نکاح نامے میں یہ بات درج ہو کہ آیا شوہر نے اپنے بیوی کو طلاق کا حق تجویز کیا ہے یا نہیں۔ بَہ ہر حال، پھر بھی یہ عورت کا ذاتی حق نہیں ہے بل کہ شوہر کی مرضی ہے کہ وہ عورت کو یہ حق دیتا ہے یا نہیں۔

پھر یہ کیوں کہ اسے اسلام کے مطابق نہیں سمجھا جاتا اس لیے عام طور پر نکاح نامے میں اس شق پر عورت سے پوچھے بغیر ہی لائن پھیر دی جاتی ہے۔

کچھ علماء کے نزدیک تو یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اگر خُلع کے مقدمے میں مرد کسی صورت عورت کو طلاق دینے پر رضا مند نہ ہو اور عدالت ‘خُلع’ دے کر نکاح ختم کر دے۔

میرے شوہر نے مجھے طلاق دی تو اس نے divorce deed میں چند وجوہات کے ساتھ یہ وجہ لکھی کہ میری بیوی نا فرمان اور بد تمیز ہے۔ اب یہ divorce deed  عدالت میں مجسٹریٹ سے منظور کروا کے بھیجی گئی۔

کسی عدالت نے اس بات کو ضروری نہیں سمجھا کہ وہ مجھے بلا کر پوچھے کہ آپ پر آپ کے شوہر نے یہ الزامات لگائے ہیں کیا یہ درست ہیں؟ یا میری ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟ لکھا گیا ہے کہ حقِّ مہر جو مبلغ 20000 روپے تھا پہلے سے ادا کر دیا گیا ہے۔ یہاں بھی عدالت نے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ وہ میرے شوہر سے استفسار کرے کہ طلاق کے بعد وہ مجھے کیا alimony دینے والا ہے یا وہ اس کا پابند ہے بھی کہ نہیں۔ وہ تین طلاق مجھے دے سکتا ہے بالکل یک طرفہ اور عدالت مجھے جو کہ دوسری اہم پارٹی ہے اسے بلا کر اس کا نظریہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ کیوں کہ یہ حق اسے مذہب اور قانون دیتا ہے۔ دوسرا سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عورت بھی اس بات پر کہ ‘میرا شوہر میرا نا فرمان ہے’ وجہ بتا کر طلاق لینے کا حق رکھتی ہے؟ نہیں۔ کیوں کہ اسلام کی رُو سے بیوی پر شوہر کی فرماں برداری لازم ہے نہ کہ شوہر پر بیوی کی فرماں برداری۔ حوالے کے لیے آپ سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 دیکھ سکتے ہیں۔

اسی آیت میں بتایا گیا ہے کہ اگر شوہر کو اپنی بیوی سے سر کشی (نشوز)  کا اندیشہ ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے۔ پہلے مرحلے میں اسے سمجھانا چاہیے، نہ  مانے تو بستر الگ کر لینا چاہیے اور پھر بھی نہ مانے تو اسے تھوڑا بہت مار بھی سکتا ہے۔ سورۃ النساء کی ہی آیت نمبر 128 میں بتایا گیا ہے کہ اگر بیوی کو  اندیشہ ہو اپنے شوہر سے سر کشی (نشوز) کا تو آپس میں مل بیٹھ کے کوئی صلاح کی یا کسی قسم کے settlement کی کوئی صورتِ حال نکال لیں۔

ان دونوں صورتِ حالات میں کسی قسم کی کوئی مساوات یا برابری نطر نہیں آتی۔ اب اس کے حق میں جو لوگ توجیہات پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ آیت 34 میں ہی مرد کو اس فضیلت دینے کی وجہ بتا دی گئی ہے کہ وہ پیسہ کماتا ہے اور وہ پیسہ عورت پر خرچ کرتا ہے۔ تو مذہبی لوگوں کا کہنا ہے کہ چُوں کہ اسلام عورت پر پیسہ کمانے کا بوجھ نہیں ڈالتا تو ایک طرح سے یہ عورت کو relaxation دی گئی ہے۔

اب اگر کھلے ذہن اور دماغ کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ عورتوں پر آج تک سب سے بڑا ظلم یہی کیا گیا ہے کہ انھیں معاشی طور پر اپاہج کر کے کسی کا دستِ نگر بنا دیا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر یہ پدر شاہی نظام قائم ہے۔ جس میں سارے resources اور معاشی طاقت مرد کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے اور اب عورت چُوں کہ معاشی لحاظ سے مرد پر انحصار کر رہی ہے تو اسے اس کی فرماں بردار بھی رہنا ہے اور اسے خود سے برتر بھی ماننا ہے نہیں تو اس سے معاشی سہارا چھین لیا جائے گا۔

عورت میں بھی وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جن کی بناء پر وہ پیسہ کما سکتی ہے اور اسی بات کا تقاضا عورتوں کے لیے برابر حقوق مانگنے والے لوگ کرتے ہیں کہ عورت کو بھی آگے بڑھنے اور معاشی طور پر خود کو استحکام کرنے کے برابر مواقِع فراہم کیے جائیں۔ جہاں تک راقم کا مشاہدہ ہے تو ہمارے ہاں بہت سی شادیاں اسی بات پر ٹکی ہیں کہ عورت معاشی طور پر خود مختار نہیں ہے، اسے خوف ہے کہ طلاق کے بعد اسے معاشی استحکام حاصل نہیں ہو گا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں عورتوں کی پرورش اس نظریہ سے  نہیں کی جاتی کہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہوں۔ چناں چِہ وہ ہر قسم کی نا پسندیدہ بات یا ظلم سہنے پر مجبور ہیں۔

اب تھوڑی سی بات کر لیتے ہیں طلاق کے بعد monetary compensation کی۔ اسلامی جمہوریۂِ پاکستان کے قانون میں واضع طور پر طلاق کے بعد معاشی طور پر عورت کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اگر اولاد نہیں ہے تو عدت کے وقت تک تو اسے کچھ maintenance مل سکتی ہے لیکن اس کے بعد نہیں اور ایسے معاشرے میں جہاں عورت کے روزگار اور career بنانے پر کوئی خاصی توجہ نہیں دی جاتی بَل کہ اس کے شوہر کے لیے فرماں بردار ہونے پر توجہ دی جاتی ہے، وہاں طلاق کے بعد عورت کو ایسے بے یار و مددگار چھوڑد ینا کہاں کا انصاف ہے؟ اور نہ ہی اسلامی جمہوریۂِ پاکستان کے قانون میںmatrimonial property (یعنی وہ اثاثے اور جائیداد جو شادی کے عرصہ میں بنائے گئے) اس کی تقسیم کے حوالے سے کوئی ضابطہ موجود ہے۔ بہت سے مغربی ترقی یافتہ ممالک میں طلاق کے وقت وہ اثاثے اور جائیداد جو شادی کے دوران بنائے گئے ہوں چاہے مرد کے ہوں یا عورت کے ان کی برابر تقسیم کی جاتی ہے۔

اس میں اس بات کی کوئی قید نہیں کہ بیوی یا شوہر اس دوران گھر میں رہ کر بچوں کی پرورش کر رہا/رہی تھی یا گھریلو نظام چلا رہا/ رہی تھی۔ بَہ ہر حال اس نے اپنی زندگی کے وہ سال بچوں کی پرورش یا گھر کا نظام چلانے میں گزارے جس کی وجہ سے اس کا career متأثر ہوا اور دوسرے فریق کو موقع ملا کہ وہ اپنے روزگار کے مواقع بہتر کر سکے۔

اس صورت میں matrimonial property پر دونوں برابر کا حق رکھتے ہیں۔ اس میں کسی ایک فریق کا اپنی صنف کی وجہ سے برتر یا کم تر ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

یوں تو کہنے کو درد اور بھی ہیں

مگر ابھی کے لیے دل بھر آیا ہے