جشن بہار دہلی: ایک سفر کی روداد

ایک روزن لکھاری
نسیم سید، صاحبہ تحریر

 

(نسیم سید)

پندرہ گھنٹے کا سفر، وہ بھی بغیر کسی بریک کے سوچ سوچ کے وحشت ہورہی تھی کہ کیا ہوگا۔ سفر کی دو وحشتیں ہمیشہ میرے لمبے سفر میں میرے ساتھ ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ نیند آجائے جو کہ ہزار ترکیبیں میڈ یٹیشن meditation کی استعمال کر ڈالنے کے باوجو نہیں آتی۔ جتنی کوشش کرو اتنا ہی برانتیجہ نکلتا ہے۔ دوسری یہ کہ میرے برابر والی سیٹ پر کون بیٹھے گا۔ کون بیٹھے گا کا خوف میرے لاشعورتک میں شا ید اتر گیا ہے۔ جس کا سبب میرے اب تک کے تجربات رہے ہیں۔

اپنے گیٹ نمبر پر ہینچ کے ادھر ادھر نظر دوڑائی تقریبا سب ہی اپنے اپنے خوشحال گھرانوں کے ساتھ نظر آئے۔ میں نے ریکویسٹ کرکے ونڈو کی وہ والی سیٹ لی تھی جس میں صرف تین سیٹس ہوتی ہیں۔ دو کینڈین خواتیں تھیں لہذا ان سے قورمہ اور بریانی کی خوشبو کے جھونکے آنے کا کوئی خطرہ نہین تھا۔ مگر ابھی تو لوگ چلے چلے آرہے تھے اگر کہیں کوئی قورمہ، سموسہ، چکن تکہ میرے برابر میں بیٹھ گیا تو کیا ہوگا یہ وحشت یوں تھی کہ میرے ساتھ ادبدا کے ایساہی ہوتا ہے بہت کھانستا ہوا آدمی، بہت رونے اور مسلسل رونے والے بچے کی ماں، بالوں کی جٹیں بنائے ٹاٹوز میں غلطاں پھٹی جینز اور ادھڑی شرٹ میں ملبوس وحشت۔ بس کوئی تکلیف دہ قسم کی چیز ہی خوش آتی ہے میرے سفر کو سو وہی ہوا۔

پگڑی کا رنگ گہرا پیلا تھا۔ ڈاڑھی کا طول وہ تھا کہ لگتا تھا کہ ان کی پیدائش کے ساتھ ہی اگنی شروع ہو گئی ہوگی۔ قمیض لانڈری کے بجائے شاید سرسوں کے پانی میں دھوئی اور سوکھی گئی تھی: نہ سفید نہ پیلی مگر اس کے درمیان کی کوئی چیز۔ کچھ سو ئے سے کچھ جاگے سے ایسا لگ رہا تھا کہ سوتے سے اٹھ کے بھاگے ہیں فلا ئٹ پکڑنے۔ ابھی چیک ان شروع نہیں ہوئی تھی۔ چاچا جی حالانکہ دور بیٹھے تھے۔ مگر رخ سامنے تھا مجھے معلوم نہیں کیوں یقین تھا کہ قدرت کا لکھا نہیں ٹلے گا اور یہی میرے ہمسفر ہونگے۔ اب مجھے یہ فکر تھی کہ آج ان کے گھر میں کیا پکا ہوگا اور مجھے کن کن مسالوں کی لپٹیں پندرہ گھنٹے خود میں لپیٹیں گیں۔ میری نظریں گھوم پھر کے ان پر ٹک جاتیں۔ اب ظاہر ہے کہ کسی کو بار بار دیکھا جائے تو وہ چوکنا تو ہوجائے گا۔
مجھے لگا کہ چاچا جی کو پتہ چل گیا کہ میں ان کو دیکھے جا رہی ہوں انہوں نے چشمہ اتارا دامن اٹھا کر آنکھوں کو دامن سے رگڑا، چشمہ صاف کیا، زور سے کھانسے مجھے غور سے دیکھا اور تھوڑا سا شرمائے سے مسکرائے۔ لیجئے ایک نہ شد دو شد۔

چھٹی حس کوئی چیز ہے، مقدر کوئی چیز ہے۔ اس پر تو بہت بار یقین کرنا پڑا تھا۔ پہلے بھی مگر آج بھی یہ دونوں خود کومنوا کے چھوڑیں گے یہ نہیں معلوم تھا ہونی ہو کے رہی۔ میرے برابر کی سیٹ پر “وہ” اپنے گٹھڑی نما بڑے سے بیگ کے ساتھ جلوہ افروز ہونے کی تیاری میں مشغول تھے۔ اور ہم اللہ اللہ کے ورد میں۔ دروازہ بند کیا جانے والا تھا اور بہت سی سیٹیں ابھی خالی تھیں۔ اس منظر نے دل کو تسلی دی۔ اور بعد میں ایک کے بجائے تیں خالی سیٹیں مل گئیں۔ اب رات تھی اور امیر ابوالحسن خسرو دہلوی کے پائینتی دھمالـ

سپیت من کے ورائے راکھوں جو جانے پاؤں پیا کی کھتیاں
نہ نیند نینان، نہ انگ چینا،نہ نیند نیناں نہ نیند نینا

نجام پیا کے کوچے میں رقصان دل۔۔۔شوق کا عالم۔۔ ہائے کیسی ہوگی غالب کے گھر کی دہلیزـ کیسا سونا، کہاں کی نیند کی گولی۔۔۔ دہلی کوچئہ یاراں کوچئہ جاناں جس کے چپے چپے میں تاریخ دھانی چادر اوڑھے محو آرام ہے۔ یہ وہاں کاسفر تھا ناقابل بیان احساسات کا سفر، حرف و قلم کی بہاروں کے جشن میں شرکت کا سفر پندرہ گھنٹے ایک عالم شوق میں محو رقص و محو دھمال رہے پلکوں تلے۔۔۔ صبح صبح جب سورج کی کرنیں دلی کے رخ کا مراقبہ کرنے میں مصروف تھیں تب ہی ہم نے بھی اس سر زمین کو جھک کے سلام کیا اور اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کے گلے لگایا-

مشاعرے کے پروقار اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے مجھے دلی کا وہ مشاعرہ یاد آیا جس کی نظامت کاقرعہ فال میرے نام نکلا تھا اور میری ساتھی فلم ایکٹرس بے بی ناز (کسی زمانے کی بے بی ناز) تھیں۔ صدارت پاکستان کی فلم ایکٹرس زیبا کی تھی اور ڈھیروں فلم اسٹار مشاعرے اور کانفرنس کی زینت تھے۔ پازیب بجاتی شاعرات جب اسٹیج پر آتیں اور اپنی تان لگاتیں تو کئی ہزار کامجمع سربازار می رقصم کی تصویر بن جاتا۔ میرے تو حواس اڑے ہوئے تھے اور آواز حلق میں سوکھی کھٹائی کی پھانک جیسی اٹکی ہوئی تھی۔

میرے ٹورنٹو کے دوست گواہ ہیں کہ ٹھیک ٹھاک نظامت کرلیتی ہوں مگر وہ پٹرا کیا اس نظامت کا کہ بعد میں شاہدہ اور زاہدہ دو ہتھٹر کھائے.. پروین نے پرچہ بھیجا ” خداکے لئے مجھے جلدی پڑھوادیں” مجھے وہ سب یاد آیا تو بے اختیار ہنس دی۔ انور مسعود نے کچھ حیرانی سے مجھے دیکھا۔ جی وہ آپ کی نظم بنیان یاد آگئی تھی، میں نے جھک کے انہیں بتایا اور وہ بھی خوشی سے مسکرا دیئے۔ میرا دھیان مصر سے آئے ہوئے شاعر پروفیسر احمدالقادری کی پر اثر آواز سے ٹوٹا تھا۔ وہ مصرکے کسی شاعر کی عربی نظم “مصر کی طرف لوٹ آؤ” کااردو ترجمہ سنا رہے تھے۔ دل جھوم رہا تھا کس بلا کی خوبصورت نظم تھی، کیا انداز تھا۔ سعودی عرب کے شاعر نے اپنی عربی غزل کو اردو میں ڈھالا تھا۔ انہوں نے بعد میں بتایا کہ سعودی عرب میں ہر ہفتہ مشاعرہ  ہوتا ہے اور چالیس پچاس سے کم شاعر شرکت نہیں کرتے۔

مشاعرے کا وقار لائق صد ستائش تھا. مشاعرے میں صرف چودہ شعراء مدعو تھے نہ کہ چالیس پچاس جیسا کہ اکثر مشاعروں میں ہوتاہے کہ آخر میں پڑھنے والے تھک کے چور ہوچکے ہوتے ہیں اور مجمع بھی جاچکا ہوتا ہے۔ تعجب کی بات تھی کہ سامعین بھی کمال کے با ذوق تھے اور نظم تھی یا غزل، اچھی شاعری پر بھر پور دادمل رہی تھی شعرا کو- مشاعرہ اپنے وقت کے مطابق 8:30 پر شروع ہوا اور 12:30 تک ختم ہوگیا۔

ڈنر کے دوران کامنا نے بتایا کہ اس بیحد خوبصورت اسکول کے مالک اردو کے پرستاروں میں ہیں اور ان کےاسکولوں میں اردو باقاعدگی سے پڑھائی جاتی ہے۔ ڈنر کے دوراں شعراء کے فوٹو شوٹ کا سلسہ بھی چل رہا تھا۔ ایک کونے میں باقاعدہ اسٹوڈیوبنا لیا گیا تھا۔ قنات لگا کے اور پورے اہتمام سے باری باری درخواست کرکے شعرا و شاعرات کو بلایا جارہا تھا۔ اردو کے لئے جو جذبہ جو جوش جو اپنائیت دیکھنے اور سننے کو ملی وہ بھی بہت متائثر کن تھی۔ کامنا کو میں نے انشااللہ اور ماشااللہ خداحافظ عادتاً کہتے سنا۔ مجھے اپنے اطراف کے تعصبات یاد آئے- زبان سے مذاہب سے فرقوں سے ایک دوسرے سے۔ بدلنا چاہے انسان تو چھوٹے سے واقعہ سے بھی خود کو بدل لے ورنہ تو مٹ جائے برباد ہوجائے مگر ٹس سے مس نہ ہو۔ اپنے نہ بدلنے والے حالات تبھی تو ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

اس مشاعرے کی اہم بات اس کا وقار تھا۔ ہر محفل کی ایک اپنی تہذیب ہوتی ہے ایک وقار ہوتا ہے، ایک رویہ ہوتا ہے۔ مشاعرے کی بھی اپنی ایک قدیم تہذیب ہے روایت ہےایک وقار ہے لیکن مشاعرے کو روزی روٹی کا ذریعہ بنا کے کچھ لوگوں نے اسے گانے بجانے کی محفل میں بدل دیا ہے۔ ایک مشاعرے کا شمالی امریکہ کے احوال سناتی چلوں تا کہ یہ دل جلے جملے کیوں لکھے۔ اس کی وجہ سمجھ میں آسکے۔اس مشاعرے میں پانچ مترنم شاعرات مہمان تھیں
اور صاحب محفل کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ خود نہیں لکھتیں بلکہ ان کولکھ کے دیا جاتا ہے۔ منظر میں درد بھر نے کے لئے ایک نابینا خاتوں بھی تھیں ان خواتین کے ساتھ جن کے ساتھ ایک لمبی سی لال ٹوپی لگائے ملگجا کرتا پاجامہ چڑھائے، پان کھائے ڈاڑھی بڑھائے صاحب بھی تھے۔ مشاعرہ شروع ہوا۔ ان خواتین نے ایک کے بعد ایک آکے جو گانا شروع کیا تو مجمع تو وجد میں آگیا اور باقاعدہ ( یہ تمام تفصیل اس لئے لکھ رہی ہوں کہ جس مشاعرے کاتذکرہ ہے ان کو پتا ہوجائے کہ ہاں ان کے ادبی کاروبار کی بات کررہی ہوں) پیسے پھینکے جانے لگے لوگ اپنی جگہ سے اٹھتے اور ان گانے والی خاتون کا صدقہ اتارتے اور نوٹ
ڈال دیتے۔

سامنے (اللہ اکبر) وہ جو نابینا خاتوں تھیں، ان کے بالکل پیچھے کرسی ڈال کے ٹوپی اور ڈاڑھی اور پان والے صاحب بیٹھے تھے۔ جب ان کی باری آئی تو وہ تو بتایا گیا کہ پی ایچ ڈی کرچکی ہیں گانے بجانے میں
اور ان کے سر تال کا کیا بیاں ہو کہ درودیوار کو ہلائے دے رہے تھے۔ لہٰذا جب نوٹ واری صدقے کیا جاتا تو وہ ملگجے سے صاحب جو پیچھے بیٹھے تھے بیتابی سے کھڑے ہوتے اور جھپٹک کے نوٹ اٹھا لیتے۔ میرا تو بس دماغ ہی گھوم گیا۔ برداشت کی بھی تو ایک حد ہوتی ہے نا میں چپ چاپ اٹھ آئی۔ وہاں سے جن کا مشاعرہ تھا وہ آئے بھاگے بھاکے
بہت کہا گیا کہ واپس آجائیں “ہم ان کا والیم کم کراتے ابھی جاکے۔” مگر ان کو جاکے ڈانٹا بھی گیا “آپ سے کہا تھا کہ اپنا والیم کم رکھئے گا۔” مگر ہم دوشاعرات نے پڑھنے سے انکار کردیا اور نہیں پڑھا

مشاعروں کویہ شکل کیوں دے دی گئی پوچھیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ “لوگوں کو یہی پسند ہے” بہت خوب اس میں مجرا بھی شامل کردیں اور زیادہ پبلک آئے گی اور زیادہ ٹکٹوں کی بکری ہوگی اور چمکے گا مشاعرہ بزنس۔

پاکستان، ہندوستان، شمالی امریکہ ہر جگہ اس قسم کے تجارتی مشاعرے برپا ہو رہے ہیں اس مشاعرے میں بھی ٹکٹ لگایا جاسکتا تھا ہزاروں لوگ تھے خوب منافع ہو سکتا تھا۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ مترنم مشاعرہ برپا کرنے والے کہتے ہیں سنجیدہ شاعری چلتی نہیں۔ ہم نے دیکھا کہ مصر کا شاعر عربی شاعری کا ترجمہ سنا رہا ہے “مصر کی طرف لوٹ آؤ” اور پبلک سر دھن رہی ہے۔

لیجئے کہاں سے بات شروع ہوئی اور کدھر چل دی۔ مشاعروں کی بات ہو تو بات سے بات تو نکلتی ہے۔ پاکستان ہو یا ہندوستان مشاعروں کو اس کے پورے وقار کے ساتھ کچھ منتظمین نے ابھی تک اپنی کوششوں سے قائم و دائم رکھا ہوا ہے۔ ورنہ جو حال احوال ہے سب ہی واقف ہیں۔ خیر… شام غزل، بزم سخن، جشن بہاراں خاطر دارئی حرف و قلم اور رونق خاطر داراں سب کا اختتام ہوا اور اب شوق کی بارگاہ میں قدم بو سی کی بے تابیاں حضرت نظام الدین محمد اولیا سلطان المشائخ کے دربار میں حاضری تھی۔ “خمار منزلی اللہ اکبر” (اختر عثمان)کیا کچھ یاد نہیں آرہا تھا کبھی کا پڑھا ہوا۔

حضرت نظام الدین تقی الدین نوح کے مزار سے واپس آکے ملول و اداس جلا الدین کی دہلیز کے بڑے گنبد میں تشریف فرما ہیں۔ امیر خسرو ملاقات کو تشریف لائے ہیں حضرت نے اپنے عزیز امیر خسرو کو نظر اٹھاکے دیکھتے ہیں
“چیست!” امیر خسرو نے آگے بڑھ کے سرسوں کے پھول قدموں میں رکھ دیئے۔ “عرب یار توری بسنت منائی” آج ہندو اپنے بت پر بسنت کے پھول چڑھانے جارہے ہیں، میں بھی اپنے بت پر سرسوں کے پھول چڑھانے آیا ہوں: خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند/ آرے آرے می کنم با خلق و عالم کار نیست۔۔۔۔ امیر خسرو گا رہے ہیں اشک ریز آمد ند ابروبہار/ساقیا بریزد و بادہ بیار۔۔۔ نظام الدین اولیا بیتاب ہو کے کھڑے ہوجاتے ہیں اور محو رقص ہیں “اشک ریز آمد ندا برد بہار” کی تکرار ہے۔ امیر خسرو فی البدیہہ اشعار کہتے چلے جاتے ہیں اور دو روحیں محو دھمال ہیں۔

حضرت نظام الدیں اولیا امیر خسرو کے لائے ہوئے سرسوں کے پھول خواجہ تقی الدین نوح کے مزار پر ڈال رہے ہیں
(یہ رواج آج بھی باقی ہے اس واقعے سے پہلے مسلمانوں میں بسنت کا رواج نہیں تھا۔ اب بسنت کے دن شام کے چار بجے درگاہ حضرت سلطان المشائخ کے پیرزادے اور دہلی کے نظامی جلال الدین خلجی کے کوشک کے سامنے آتے ہیں اور اس پتھر پر سرسوں کے پھول چڑھاتے ہیں جس پر حضرت سلطاں المشائخ بیٹھے تھے اس روز قوال “عرب یار توری بسنت منائی اور ساقیا گل بریزد بادہ بیار گاتے ہیں جلوس خواجہ تقی الدیں نوح کی مزار سے حضرت نظام الدیں اولیا کے مزار اور پھر امیر خسرو کے مزار پر آتا ہے۔) “خسرو اب گھر جاؤ اور آرام کرو” حضرت نے کہا اور خسرو نے سر جھکا کے فرمایا، “نہ خفت خسرو مسکیں ازیں ہوس شبہا/کہ دیدہ بر کف پایت نہد بخواب شود (غریب خسرو بہت راتوں سے اس آرزو کے سبب نہیں سویا کہ حضور کے قدموں پر سر رکھ کے سوجائے)

نظام الدین نے فرمایا: گر برائے ترک ترکم ارّہ بر تارک نہند/ترک تارک گیرم و ہرگز نہ گیرم ترک تُرک (اگر میرے ترک (امیر خسرو) کو مجھ سے جدا کرنے
کے لئے میری پیشانی پر آرہ بھی رکھ دیا جائے تب بھی میں اپنے تُرک کو ترک نہین کرونگا۔
من تو شدی تومن شدی من تن شدم تو جان شدی کی تال پر روح دھمال کررہی ہے۔ کیسے کیسے محبتوں کی کرامات کے، روحانی و علمی مباحث کے شعر و فن کے مناظر دیکھے ہونگے اس جگہ نے اس زمین نے کیسی خوش بختی ہے۔ ان معطر جگہوں کی زیارت وہاں کی قدم بوسی ذہن ان ملفوظات کے اوراق مین گم تھا وہ مناظر دکھا رہا تھا جو ان عظیم ہستیوں نے قلم بند کئے اور دل۔

نظام الدین اولیا،امیرخسرو اور غالب کے نام کے دھمال میں مست اس سفر میں دوست محمد خان صاحب جیسے دوست کا ذکر بھلا کیسے نہیں آئے گا کہ وہ نام کے ہی نہیں اپنی صفات میں بھی دوست ہیں بیتے ہوئے زمانے کی تہذیب کی یادگار،خلیق، پر خلوص با کمال شاعر ہوتے ہوئے بھی اور دلی کے بیچ و بیچ رہتے ہوئے بھی گوشہ نشیں اور بے غرض دوست ان کی عنایات کاشکریہ ادا کرنا ممکن نہیں۔ اگر وہ اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کے مجھے ان مقدس مقامات کی زیارت نہ کراتے تو شاید ممکن نہ ہوتا میرا وہاں تک پہنچنا۔

کچھ تنگ سی گلیوں سے گزرتے ہوئے ہم غالب اکیڈمی کے قریب پہنچ کے ابھی کار سے اترے ہی تھے کہ عالب اکیڈمی کی سیڑھیوں سے ایک بزرگ پیلی ٹوپی، سفید کرتے پاجامے میں ملبوس گلے میں پیلا پٹکا ڈالے سیڑھیوں سے اتر تے نظر آئے۔ خان محمد صاحب نے بتا یا، ” یہ حسن نظامی ثانی ہیں” حسن نظامی کے بھتیجے، شان الحق حقی کے داماد وصی نظامی ٹورنٹو میں رہتے ہیں۔ ان کی مرحومہ بیگم زیبا جو کہ شان الحق حقی کی صاحب ذادی تھیں، ہماری ان سے دلی وابستگی تھی ہماری اور اس حوالے سے وصی بھائی سے بھی دلی رابطہ ہے، حسن نظامی کی کتاب ” تاریخ اولیا، نظامی بنسی “ان کی وساطت سے پڑھی اس سفر کا آغاز ہی بڑا روح پرور ہوا۔ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کے سلام کیا اور وہ مجھے اپنے سا تھ آنے کی تاکید کرتے ہوئے ان ہی تنگ گلیوں میں آگے بڑھنے لگے۔

میں ان کے ساتھ چل رہی تھی گلی کا ایک موڑ کاٹتے ہوئے دائیں جانب بہت سی اینٹوں کا انبار تھا۔ جناب حسن نظامی ثانی ذرا سی دیر کو اس جگہ ٹھٹکے شاید اس کھنڈر سے ان کی کوئی یاد وابستہ تھی۔ میری طرف دیکھ کے بولے “یہ دیکھ رہی ہیں نا آپ؟ بس اب تو ایسے ہی کھنڈر ہیں ہمارے اطراف” اس ایک جملے میں کیا کچھ نہیں کہہ دیا انہوں نے۔
ہم کچھ تنگ گلیوں سے گزر رہے تھے چھوٹی چھوٹی دکانیں بے خبر تھیں کہ انہی راستوں نے کبھی کیسے کیسے قدموں کو چوما ہوگا۔ انہیں کیا معلوم کہ حسن نظامی ثانی جو زیر لب کچھ کہتے چلے جارہے ہیں تو وہ کن آوازوں اور کن یادوں سے مخاطب ہونگے۔ حضرت زیر لب شاید مجھ سے یا شاید خود سے محو گفتگو تھے۔ مجھے کوشش کے باوجود سب کچھ سنائی نہیں دیا بہت دھیان سے آواز پر کان لگائے تھی مگر صرف چند جملے ہی سن پائی وہ بھی مشکل سے
” یہ گلیاں جانتی ہیں” میں نے کہتے سنا پھر خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر یوں چلتے رہے جیسے ہماری موجودگی سے بھی بے خبر ہوں۔ پھر دھیرے سے بو لے، “بہت کوڑا ہے مٹی ہے” ہاتھ اٹھایا ایک بار ذرا سا ٹھٹکے اور مجھے دیکھا، ” نہ جنوں رہا نہ پری رہی” پھر بہت آہستہ شاید اسی کو دوبارہ دہرایا شاید پھر دہرایا، ” نہ پری رہی”

گھر کے قریب دائیں سمت میں ایک احاطہ میں سبز گنبد نظر آرہا تھا۔ حضرت نے ادھر اشارہ کیا، “اپنے والد کا مقبرہ میں نے بنوایا تھا۔” میں نے حضرت حسن نظامی کو دل ہی دل میں عقیدتیں پیش کیں۔ ہم گھر کے اندر داخل ہوئے کتنا پرانا ہوگا حضرت یہ گھر؟ وہ مسکرائے، “یہ سوسال سے بھی زیادہ پرانا ہے آئیے آئیے میں آپ کو تفصیل بتاتا ہوں۔ نور بھئی مہمان آئے ہیں اندر خبر کرو چائے بنواؤ۔ میں آپ کو خربوزہ کھلاؤں گا۔ خربوزے سے وابستہ ایک تاریخی واقعہ ہے، وہ بھی سناؤں گا۔

میری نگاہیں اس بہت وسیع احاطہ میں موجود ہر شے کو خود میں محفوظ کر رہی تھیں۔ احاطہ کے بائیں جانب کچھ قبریں تھیں جن پر سو کھے ہوئے پھول پڑے تھے اس سے کچھ فاصلے پر سبز رنگ کے کئی دروازے تھے جو شاید مختلف کمروں کے ہونگے مگر سب خود پر خود کو بھیڑے ہوئے بہت خاموش اور بہت اداس سے کسی گہری سوچ میں گم سم تھے۔ ایک تنہا ساچبوترہ ایک اکیلی سی پیڑھی۔ کچھ بے دلی سے اگے ہوئے پودے سب کچھ سارا کچھ بہت خاموش بھی تھا اور بہت باتیں بھی کئے جارہا تھا۔ میں تو شاید ان کی قربت میں ہی آدھا دن گزار دیتی مگر مجھے محسوس ہوا کہ دوست محمد خان صاحب کواکتاہٹ ہورہی ہے۔

میری اس بے وقوفانہ دلچسپی سے اور ان کی خوش اخلاقی نے مجھے ٹو کنے سے باز رکھا ہوا ہے۔ میں ایک قبر کے سامنے کھڑی اس کا کتبہ پڑھنے میں محو تھی۔ تب مجبوراً بولے چلیں اندر چلتے ہیں تب ہی میں نے دیکھا کہ حضرت حسن نظامی بھی سیڑھیوں کے قریب رکے ہوئے ہیں
چند سیڑھیاں چڑھ کے ہم ایک کمرے میں داخل ہوئے میں نے سوچا شاید کبھی یہ دالان کی شکل میں ہوگا کیونکہ وہ دبلا سا کمرہ تھا مگر اپنی لمبائی میں دالان کی طرح دور دور تک بل کھاتا کہیں نکل گیا تھا۔

کد ھر نکل گیا اس بات کو شاید سب کو پتہ نہ چلنے دینے کی غرض سے درمیان میں ایک پردہ ڈال دیا گیا تھا ایک تخت بچھا ہوا اندر داخل ہوتے ہی دکھائی دیا۔ “میری عمر سو سال سے بھی زیادہ ہے” گھر کی فضاؤں میں ایک با وقار سی آواز کی گونج تھی یہی سوسال سے زیادہ پرانی تہذیب گھر میں دبے پاؤں ادھر ادھر گھومتی دکھائی دی۔ تخت پر گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے عجب تمکنت اور شانِ بے نیا زی سے جمے رسم و رواج دکھائی دیئے۔ اس تخت کے نیچے اس گھر میں بیتے ہوئے ایام کو ایک بڑے سے پلاسٹک کے ڈبے میں ڈال کے محفوظ کردیا گیا تھا۔

میں شاید لاشعوری طور پر، حضرت نے جس کرسی پر تشریف رکھی، اس کے بہت قریب ہی رکھے صوفے کے کونے پر جم گئی جاکے۔ حضرت حسن نظامی ثانی سے میں سوال پر سوال کئے جارہی تھی۔ اس گھر میں کون کون آچکا ہے سر؟ کون نہیں آیا یہ پوچھئے۔ وہ تفصیلات بتاتے رہے کون کون سے اہم تاریخی فیصلے اس گھر میں ہوئے ہیں اکبر الہ آبادی کا ذکر نکلا۔ میں نے بتایا کہ وہ میرے جد اعلٰی ہیں۔ ( میرے والد ایک شجرہ نامی چھوٹی سی کتاب کو سینے سے لگائے پھرتے تھے۔ ہم بہن بھائیوں کو اس کتاب سے کوئی دلچسپ نہیں تھی۔ وہ ہمیں پکڑ دھکڑ کے سرخ سفید منی پھوپھو اور عائشہ پھوپھو کے گھر لے جاتے تھے۔ وہ کہتی تھی ارے بیٹا ہم ایک چنے کی دو دال ہیں وہ اکبر الہ آبادی کی بھتیجی بھانجی کچھ تھیں۔ ہمیں اس بات سے بھی کچھ دلچسپی نہیں تھی والد کا انتقال ہوگیا وہ شجرہ ایک دن ہم بہین بھائیوں نے مل کے پڑھا تب پتہ چلا کے میرے والد کے دادا کے سگے چچا تھے۔

حضرت نظامی ثانی نے بتایا کہ انہوں نے نوسال اکبر الہ آبادی کی سرپرستی میں گزارے ہیں۔ سر، کیا اس گھر کا کوئی حصہ اپنی اصل شکل میں موجود ہے؟ میں نے پوچھا تو انہوں نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کیا اسے کھولیں۔ اس کے اندر جائیں یہ کمرہ قدیم ہے اور ابھی تک موجود ہے۔ اس کی چھت کو دیکھئے گا یہ قدیم چھت ہے۔ میں نے سبز دروازے سے احترام کے ساتھ اجازت مانگی اندر جانے کی تو وہ شفقت سے مسکرادیا۔ تخت، گاؤ تکیے، تخت پوش، تصویروں کے فریم، جدھر نظر ڈالی تاریخ آویزاں نظر آئی۔

اس تخت پر بیٹھ کے مجھے لگا وہ تخت اڑائے لئے جارہا ہے،مجھے گزشتہ زمانوں میں… میں دیکھ رہی ہوں …کس کس کو دیکھ رہی ہوں اللہ اللہ سرسید ہیں، مولانا محمد حسین آزاد ہیں، اقبال ہیں، اکبر الہ آبادی ہیں …کون نہیں ہے … وہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں، وہ آ رہے ہیں، وہ جارہے ہیں۔

نور چائے لاچکے تھے۔ تخت کے نیچے سے پلاسٹک کے بڑے سے ڈبے کوگھسیٹ کے نور نے حضرت نظامی ثانی کے حکم کے مطابق بیتے ہوئے تمام ایام کو نکال لائے: یہ تصویر دیکھئے… دیکھا آپ نے یہ سب اس گھر میں آچکے ہیں ایک کے بعد ایک نور بڑی بڑی سائز کی تصویریں نکالتے اور میں اس گھر کی خوش قسمتی پر رشک کرتی رہی۔ ممکن ہے دوست محمد خان صاحب میرے اس شوق کے نظارے سے الجھ رہے ہوں، مگر بیچارے شریف انسان چپ چاپ بیٹھے رہے۔

سر اس ٹوپی کی کیا کوئی تاریخی اہمیت ہے یہ اس شکل میں کیوں ہے اس کا رنگ پیلا کیوں ہے۔ حضرت نے ٹوپی سر سے اتاری اور مجھے دکھائی، “یہ دیکھ رہی ہیں نا اس میں چار تکونے ٹکڑے جڑے ہوئے ہیں اس ٹوپی کو کلاہ چہار ترکی کہتے ہیں اور یہ ٹوپی اوڑھنے والا دیناوی چار چیزوں کو چھو ڑ دیتا ہے،” انہوں نے اپنے خدمت گار نور کو آواز دی، “بھئی اصل ٹوپی لے کے آؤ۔”

حضرت نے دکھایا دیکھئے یہ جو گہرا زرد رنگ ہے اصل رنگ یہ ہے ٹو پی کا… رنگ کے سوال پر وہ توجہ نہیں دے سکے اپنی باتوں کی دھن میں اور میں نے دوبارہ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ پوچھوں کہ آپ نے کون سی چار چیزیں ترک کیں مگر ہمت نہیں ہوئی۔ پھر بھی ایک سوال کے لئے تو سوچا کہ دیکھا جائے گا اگر حضرت کو خفگی ہوئی تو معافی مانگ لونگی مگر پوچھ لینا چاہئے کہ بھلا پھر یہ موقع کہاں ملے گا سو میں نے اپنے لہجے کے تمام تر ادب کو اکٹھا کیا اور ہمت کرکے پوچھا… سر بے ادبی تو ہے مگر اجازت ہو تو ایک سوال پوچھوں… وہ مسکرائے ضرور پوچھئے… سر آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟

ہمارے والد نے بس کہہ دیا تھا کہ ہمیں کسی اور کام کے لئے چن لیا گیا ہے اور والدہ کو بھی ایک خاتوں سے بات کرتے سنا تھا کہ “حسن ثانی کو تو قدرت نے کسی اور کام کے لئے چن لیا ہے اس کی شادی نہیں ہو سکتی” بس پھر ہمارا دھیان اس طرف نہیں گیا… تھوڑا توقف کیا اور پھر بولے وہ صاحب ہمیں اپنی بیٹی دینا چاہتے تھے ( نام بتایا تھا ان صاحب کامگر مجھے یا د نہیں رہا) یہ جملہ کچھ اچانک آیا تھا جیسے کسی یاد کا دفتر کھل گیا ہو ان کی سوچو ں میں پھر تصویریں دکھاتے ہوئے جس میں کئی بچیاں اور بچے تھے ایک تصویر پر ایک بچی کی انگلی رکھی…ان کے والد ہمیں اپنی بیٹی دینا چاہتے تھے۔

میں ںے تصویر کو غور سے دیکھا۔ نا جانے وہ واقعی مجھے کچھ بتانا چاہ رہے تھے میرے سوال کے جواب میں کہ “سر آپ نے شادی کیوں نہیں کی” یا یہ میری اپنی سوچ کی اڑان تھی … مجھے اس تصویر کے ساتھ ہی یاد آیا گلی سے گزر تے ہوئے ان کا اپنے آپ میں گم خود سے مخاطب رہ کے زیر لب بار بار دہرانا… نہ جنوں رہا نہ پری رہی!
ان کے چہرے کی مقدس شکنوں میں سے کوئی شکن تھی تو جو خبر تحیر عشق کانقش خود میں سمیٹے اپنے وجدان میں گم تھی، نہ جنوں رہا نہ پری رہی!

حسن نظامی ثانی میرے ساتھ پرانی اور خراب حال گلیوں سے گزر رہے ہیں اور زیر لب کہہ رہے ہیں، نہ جنوں رہا نہ پری رہی، نہ پری رہی… میں ان کے برابر بیٹھی تصویریں دیکھ رہی ہوں اور بہت.. کچھ نہ جانے کیا کیا کچھ دیکھ رہی ہوں۔ ایک صدی سے زیادہ پرانی شال لپیٹے میں اس گھر سے نکلی تو دور تک وہ دہلیز مجھے رخصت کرنے آئے۔