انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط سیز از دہم)

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت

انسانی فطرت، انصاف بہ مقابل طاقت (قسط سیز از دہم)

میری رائے میں جھوٹا دعویٰ کہ ایسا کرنا ایک منصف معاشرے کی طرف لے جائے گا جس میں ریاست تحلیل ہو جائے گی، جس میں پرولتاریہ کائناتی طبقہ ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ اگر بھوش میں یہ بہانہ نہ ہو تو پرولتاریہ کی خونی اور متشدد آمریت یقینی طور پر بے انصاف ٹھہرتی ہے۔ اب یہ دوسرا معاملہ ہے مگر میں پرولتاریہ کی ایک خونی اور متشدد آمریت کے بارے میں بہت زیادہ متشکک ہوں۔ خصوصی طور پر جب  اس کا اظہار ایک خود متعین کردہ ہراولی جھنڈ کے نمائندوں کے ذریعے کیا جاتا ہے (یہ بات جاننے کا ہمیں کافی تاریخی تجربہ ہے اور ہم اس بات کی پیش گوئی بھی کر سکتے تھے۔)

 

ترجمہ، نصیر احمد 

(… گزشتہ سے پیوستہ…)

چومسکی: میں نجی طور پر اس سے متفق نہیں ہوں۔

مثلاً، اگر میں خود کو  قائل کر لیتا ہوں کہ پرولتاریہ کا طاقت کا حصول ایک دہشت گرد پولیس سٹیٹ کی طرف لے جائے گا جس میں آزادی، وقار اور مہذب انسانی رشتے برباد کر دیے جائیں گے تو پھر میں نہیں چاہوں گا کہ پرولتاریہ طاقت حاصل کرے۔ درحقیقت، میں مانتا ہوں کہ ایسی کسی چیز کی آرزو کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ کوئی سوچتا ہے، درست یا غلط کہ طاقت کی اس منتقلی سے کوئی بنیادی انسانی قدر حاصل ہو گی۔

فوکو: جب پرولتاری طاقت حاصل کرتے ہیں تو اس بات کے بہت امکانات ہوتے ہیں کہ پرولتاری ان طبقوں کے خلاف ایک متشدد، آمرانہ اور خونی طاقت کا اظہار کریں گے  جنھیں حال ہی میں انھوں نے مفتوح کیا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں کسی کے پاس اس بات پر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

لیکن اگر آپ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ اگر پرولتاریہ نے اپنے ہی خلاف ایک متشدد اور جابرانہ طاقت کا اظہار کیا ہے تو پھر کیا ہو گا تو میں کہوں گا کہ یہ صرف اسی صورت میں رُو نما ہو سکتا ہے، جب پرولتاریہ نے طاقت حاصل ہی نہیں کی بل کہ پرولتاریہ کے بیرون ایک طبقے نے، پرولتاریہ کے درون ایک گروہ نے، ایک بیوروکریسی نے یا معمولی بورژوا عناصر نے طاقت پر قبضہ کر لیا ہے۔

چومسکی: خوب، میں انقلاب کے اس نظریے سے بہت ساری  تاریخی یا دیگر وجوہات کی بناء پر مطمئن نہیں ہوں۔ لیکن اگر بَہ راہِ دلیل اسے کوئی مان بھی لیتا ہے تو بھی اس نظریے کے مطابق پرولتاریہ کے لیے یہ بالکل صیحیح ہے کہ وہ طاقت کو حاصل کرے اور اسے ایک متشدد، خونی اور بے منصف طرز پر آزمائے کیوں کہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے، میری رائے میں جھوٹا دعویٰ کہ ایسا کرنا ایک منصف معاشرے کی طرف لے جائے گا جس میں ریاست تحلیل ہو جائے گی، جس میں پرولتاریہ کائناتی طبقہ ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ اگر بھوش میں یہ بہانہ نہ ہو تو پرولتاریہ کی خونی اور متشدد آمریت یقینی طور پر بے انصاف ٹھہرتی ہے۔ اب یہ دوسرا معاملہ ہے مگر میں پرولتاریہ کی ایک خونی اور متشدد آمریت کے بارے میں بہت زیادہ متشکک ہوں۔ خصوصی طور پر جب  اس کا اظہار ایک خود متعین کردہ ہراولی جھنڈ کے نمائندوں کے ذریعے کیا جاتا ہے (یہ بات جاننے کا ہمیں کافی تاریخی تجربہ ہے اور ہم اس بات کی پیش گوئی بھی کر سکتے تھے۔)

سادہ لفظوں میں اس معاشرے پر نئے حکم ران ہوں گے۔

فوکو: جی ہاں، لیکن میں پرولتاریہ کی طاقت کی بات نہیں کر رہا جو بَہ ذاتِ خود ایک بے منصف طاقت ہے۔ آپ یہ کہنے میں بَہ جا ہیں کہ یہ تو واضح طور بہت سہل ہو گا۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک خاص زمانے میں پرولتاریہ کی طاقت سے ایک خاص سماجی طبقے کے خلاف ایک پُر تشدد اور طویل جنگ جس کی فتح یا جیت ابھی تک مکمل طور پر یقینی نہیں ہے اس کے معانی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

چومسکی: اچھا، دیکھیں، میں مطلق کی بات نہیں کر رہا…، مثال کے طور پر میں کٹر امن پسند نہیں ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر قسم کے قابلِ تصور حالات میں تشدد کا استعمال غلط ہے اگر چِہ تشدد کا استعمال ایک معنیٰ میں نا انصافی تو ہے۔ میں مانتا ہوں کی کسی کو انصاف کے متعلقہ ہونے کا تخمینہ کرنا پڑتا ہے۔

لیکن تشدد کا استعمال اور کسی قدر بے انصافی کا جواز تو صرف دعوے اور تخمینے پر مبنی ہو سکتا ہے جن پر کام بڑی ہی سنجیدگی اور بہت زیادہ تشکیک کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کرنا چاہیے کہ یہ تشدد صرف اس لیے آزمایا جا رہا ہے کہ اس سے ایک زیادہ منصفانہ نتیجہ حاصل ہو گا۔ اگر اس تشدد کی یہ بنیادیں نہیں ہیں تو میری رائے میں یہ مکمل طور پر بے اخلاق ہے۔

فوکو: میں نہیں سمجھتا کہ جہاں تک ان مقاصد کا تعلق ہے جو ایک پرولتاریہ ایک طبقاتی جدوجہد میں اپنے لیے تجویز کرتی ہے یہ کہنا کافی ہو گا کہ یہ مقاصد بَہ ذاتِ خود عظیم تر ہیں۔ جو کچھ پرولتاریہ ایک طاقت میں موجود طبقے کو طاقت سے دھکیلنے اور خود طاقت چھین لینے میں حاصل کرے گی وہ عمومی طور پر اس طاقت میں موجود طبقے کی طاقت کی پسپائی ہی ہو گی۔

چومسکی: او کے، لیکن یہ مزید بہانہ سازی ہی تو ہے…

فوکو: بہانہ سازی ہی ہے لیکن کوئی انصاف کی اصطلاحوں میں نہیں طاقت کی اصطلاحوں میں بات کر رہا ہے۔

چومسکی: لیکن یہ سب تو انصاف کی اصطلاحوں میں ہے کیوں کہ جس انجام کا حصول ہو گا اس کے تو منصفانہ ہونے کا ہی دعویٰ کیا جائے گا۔ کوئی لینن کا پجاری یا جو بھی کہہ لیں یہ کہنے کی جرات تو نہیں کرے گا، ‘ہم پرولتاری طاقت چھیننے کا حق رکھتے ہیں اور طاقت چھیننے کے بعد ہر کسی کو جلتے الاؤ میں پھینک دیں گے۔’ اگر پرولتاریہ کے طاقت لینے کے یہ نتائج ہیں تو یہ کوئی مناسب نتائج نہیں ہیں۔

تصور یہ ہے… اور  اس بارے میں ان وجوہات کے کارن الجھن میں ہوں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں… کہ ایک متشدد آمریت کا ایک عرصہ، شاید ایک متشدد اور خونی آمریت کا ایک عرصہ تبھی جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے جب اس کے معانی طبقاتی جبر کی غرقابی اور خاتمے کے ہوں گے جو کہ انسانی زندگی کا اہم لائقِ حصول مقصد ہے۔ اس حتمی صفت کی ہی وجہ سے یہ پوری enterprise جائز ٹھہرائی جا سکتی ہے۔ جائز ہے یا نہیں، یہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔

فوکو: اگر آپ چاہیں تو اس معاملے میں میں تھوڑا نیٹشائی بن جاتا ہوں۔ دوسرے لفظوں میں مجھے لگتا ہے انصاف کا تصور بَہ ذاتِ خود ایک ایسا تصور ہے جو نتائج کے اعتبار سے مختلف قسم کے معاشروں میں سیاسی اور معاشی طاقت کے ایک خاص اوزار یا اس طاقت کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر کام میں لانے کے لیے ایجاد کیا گیا ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ بہ ہر حال انصاف کا عقیدہ ایک طبقاتی معاشرے میں پسے ہوئی طبقے کے دعوے اور اس کے جواز کے طور پر کردار ادا کرتا ہے۔

چومسکی: میں اس سے اتفاق نہیں کرتا…

فوکو: اور ایک بے طبقہ معاشرے میں، میں اتنا پُر یقین نہیں ہوں ہم انصاف کا عقیدہ استعمال بھی کریں گے۔

چومسکی: خوب، یہاں تو میں واقعی متفق نہیں ہوں۔ میرے خیال میں بنیادی انسانی اوصاف میں بسیرا کیے کوئی مطلق اساس ہے جس کی اصطلاحوں میں انصاف کا ایک حقیقی تصور قائم ہے… آپ اگر مجھ پر اس بارے میں زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں، تو میں مشکل میں پڑ جاؤں گا کہ میں اس کی خاکہ کشی نہیں کر سکتا…

میرے خیال میں ہمارے انصاف کے موجودہ نظاموں کی محض بَہ طور ایک طبقاتی جبر کے نظام کی طور پر صفت سازی بہت زیادہ عجلت کا مظاہرہ ہو گا۔ میرے خیال میں یہ نظام ایسے نہیں ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ نظام طبقاتی جبر کے نظاموں کی اور جبر کی دوسری قسموں کی تجسیم تو کرتے ہیں مگر یہ نظام  سچے انسان دوست، قابلِ قدر ہم دردی، مہربانی، محبت، تہذیب  اور انصاف کے تصوارت کی طرف جستجو کی تجسیم بھی تو کرتے ہیں اور میں سوچتا ہوں یہ بھی  حقیقی ہیں۔

اور میں سوچتا ہوں مستقبل کے کسی بھی معاشرے میں جو بے شک ایک مکمل معاشرہ نہیں ہو گا، ہمارے سامنے یہ تصورات آئیں گے اور ہم امید کرتے ہیں انسانی ضروریات کا یہ دفاع ہم دردی اور یک جہتی کی ضروریات سمیت اس معاشرے میں شامل کرنے  کے کافی قریب ہو جائیں گے  لیکن پھر بھی یہ معاشرہ کسی نہ کسی طرز پر موجودہ نا برابریوں اور جبر کے کچھ عناصرکی عکاسی کرے گا۔

تاہم میرے خیال میں جو آپ بیان کر رہے ہیں وہ کسی دوسری صورتِ حال کے لیے  درست ہے۔

مثلاً ایک قومی کش مکش کا کیس لے لیتے ہیں۔ یہاں دو معاشرے ہیں اور ہر ایک معاشرہ دوسرا معاشرہ برباد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں تو انصاف کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ کس کے طرف دار ہیں۔ کیا آپ اپنے معاشرے کا دفاع کریں گے اور دوسرا معاشرہ برباد کریں گے؟

میرا مطلب ہے، ایک خاص معنیٰ میں، بہت سارے تاریخی مسائل سے دامن بچا کر خلاصہ کرتے ہوئے میں یہ کہوں گا، اس سوال کا سامنا پہلی عالمی جنگ کی خندقوں میں ایک دوسرے کی ہَتیا کرتے ہوئے سپاہیوں نے کیا تھا۔ وہ نیستی کے لیے لڑ رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لیے برسرِ پیکار تھے۔ اور اس طرح کے حالات میں نیائے کے سوالات نہیں اٹھتے۔

اور اس زمانے میں بھی خِرد مند تھے، زیادہ تر جیلوں میں، کارل لیب کنیشٹ کی طرح، مثال کی طور پر جنھوں نے یہ سوال فاش کیا تھا اور اس کی پاداش میں جیل میں تھے، یا برٹرینڈ رسل کی طرح، دوسری طرف سے بھی ایک مثال لے لیتا ہوں۔ اس زمانے میں بھی لوگ تھے جو یہ بات سمجھتے تھے کہ کسی قسم کے انصاف کی اصطلاحوں میں باہمی خون ریزی میں کوئی دانائی نہیں تھی اس لیے اربابِ اقتدار کو اس خون ریزی کو بند کر دینا چاہیے تھا۔

اب ان لوگوں کو دیوانے، پاگل اور مجرم سمجھا گیا تھا لیکن اس زمانے میں یہی لوگ تو ہوش میں تھے۔

ایسے حالات میں جیسے آپ بیان کرتے ہیں جن میں انصاف کا سوال ہی نہیں اٹھتا، یہی سوال اٹھتا ہے کہ موت کی یہ کش مکش کون جیتے گا، ایسے میں، مَیں یہ سوچتا ہوں کہ مناسب انسانی رد عمل یہی بنتا ہے کہ یہ جنگ بند کردو، کوئی بھی نہ جیتے، اسے بند کرنے کی کوشش کرو اور یقیناً آپ اگر یہ کہتے ہو تو آپ فی الفور جیل میں بند کر دیے جاؤ گے، مار دیے جاؤ گے، یا کچھ ایسا آپ کے ساتھ کیا جائے گا، بہت سارے خِرد مندوں کی قسمت۔

لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انسانی معاملات میں یہ ایک عمومی صورتِ حال ہے۔ اور میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ طبقاتی کش مکش اور  سماجی انقلاب کے سلسلے میں یہ صورتِ حال درپیش آتی ہے۔ وہاں میری سوچ کے مطابق آپ دلیل دے سکتے ہیں اور ضرور دیں اور اگر آپ دلیل نہیں دے سکتے تو آپ کو اس کش مکش سے خود کو نکال لینا چاہیے۔ دلیل دیں کہ جو سماجی انقلاب آپ لانا چاہ رہے ہیں انصاف پر مبنی نتائج کے لیے ہے، بنیادی انسانی ضرورتوں کے حصول پر مبنی نتائج کے لیے ہے۔ یہ انقلاب محض اس لیے نہیں ہے کہ آپ کسی دوسرے گروہ کو طاقت دلانا چاہ رہے ہیں کہ یہ اس گروہ کی آرزو ہے۔