کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ ہشتم)

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر
Base illustration courtesy thePlayer.org

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ ہشتم)

ترجمہ، نصیر احمد

ہیل: اچھا ہے (فرحت محسوس کرتا ہے) مسٹر پیرس کی کتاب میں ریکارڈ درج ہے اور اس ریکارڈ کے مطابق تم شاذ و نادر ایّامِ سبت میں چرچ آتے ہو۔

پراکٹر: ایسا نہیں ہے، جناب۔ آپ سے یہاں غلطی سر زد ہو گئی ہے۔

ہیل: سترہ مہینوں میں چھبیس دفعہ۔ میں تو اسے شاذ ہی کہوں گا۔ تم مجھے بتاؤ گے کہ تم کیوں غائب رہتے ہو؟

پراکٹر: مسٹر ہیل، مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ میں اس آدمی کو چرچ جانے اور گھر پر رہنے کے بارے میں جواب دِہ تھا۔ اس جاڑے میں میری بیوی بیمار تھی …

ہیل: مجھے یہ بات بتائی گئی ہے۔ لیکن مسٹر تم اکیلے بھی تو جا سکتے تھے؟

پراکٹر: میں گیا، جب جا سکتا تھا اور میں نے گھر پہ عبادت کی، جب نہیں جا سکتا تھا۔

ہیل: تمھارا گھر چرچ نہیں ہے، مسٹر۔ تمھارا دین تمھیں یہ نہیں بتاتا؟

پراکٹر: بتاتا ہے، جناب، بتاتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ پادری ایلٹر پر سونے کی موم بتیاں دھرے بَہ غیر بھی خدا کی عبادت کر سکتا ہے۔

ہیل: کون سی سونے کی موم بتیاں؟

پراکٹر: جب سےچرچ تعمیر ہوا ہے تب سے ایلٹر پر جِست کی موم بتیاں رکھی جاتی رہیں۔ فرانسس نرس نے انھیں تیار کیا تھا اور دھات کے لیے اس کے ہاتھوں سے سُبُک ہاتھ یہاں کسی کے نہیں ہیں۔ اور پھر پیرس آیا اور بیس ہفتے سونے کی موم بتیوں کی تبلیغ کرتا رہا جب تک اس نے یہ موم بتیاں حاصل نہ کر لیں۔ میں زمین پر سویرا ہونے سے لے کر سانجھ ڈھلنے تک کام کرتا ہوں۔ میں سچ کہہ رہا ہوں اور جب میں فَلَک کی طرف سر اٹھا کر دیکھتا ہوں اور دیکھتا ہوں میری مشقت کا پیسہ پیرس کی کہنیوں پر دمک رہا ہے تو میری مناجات شکستہ ہو جاتی ہیں، زخمی ہو جاتی ہیں، تڑپنے لگتی ہیں۔ کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ تختوں کے بنے مجلس خانوں کی بَہ جائے، وہ آدمی، کیتھیڈرل کے سپنے دیکھتا ہے۔

ہیل: (سوچتا ہے) پھر بھی ،مسٹر، سبت کو ایک مسیحی کو چرچ میں ہی ہونا چاہیے۔ (توقف کرتا ہے) تمھارے تین بچے ہیں؟

پراکٹر: جی ہاں، لڑکے۔

ہیل: تو پھر ایسا کیوں ہے کہ صرف دو کو اصطباغ دیا گیا ہے؟

پراکٹر: (کچھ کہنے لگتا ہے، چپ ہو جاتا ہے لیکن پھر خود کو روک نہیں پاتا) میں نہیں چاہتا کہ مسٹر پیرس میرے بچے کو چھوئے بھی۔ مجھے اس آدمی میں خدا کا نور نظر نہیں آتا۔ اور یہ بات میں نہیں چھپاؤں گا۔

ہیل: میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس بات کا فیصلہ تم نے نہیں کرنا۔ چرچ نے اس کا تقرر کیا ہے۔ اس لیے خدا کا نور اس میں ہے۔

پراکٹر: (مزاحمت سے پُر ہے مگر مسکرانے کی کوشش کرتا ہے) آپ کو کس بات کا شُبہ ہے، مسٹر ہیل؟

ہیل: نہیں، مجھے کوئی شبہ نہیں …

پراکٹر: چرچ کی چھت میں نے ٹھوکی تھی اور دروازہ بھی میں نے نصب کیا تھا۔

ہیل: اچھا، یہ تو اچھی علامات ہیں پھر۔

پراکٹر: ہو سکتا ہے میں نے اس آدمی کے بارے میں سچ بول کر کچھ عُجلت کر دی ہو۔ مگر آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم مذہب کی بربادی کے خواہاں ہیں۔ آپ یہی سوچ رہے ہیں؟ ایسا ہی ہے ناں؟

ہیل: جناب، تمھارا ریکارڈ کچھ ڈھیلا ہے، ڈھیلا ہے۔

ایلزبیتھ: میرے خیال میں مسٹر پیرس کے معاملے میں شاید ہم نے سختی کی ہے۔ لیکن اس گھر میں ہم شیطان کے عُشّاق بھی نہیں ہیں۔

ہیل: (اس بات پر غور کرتے ہوئے اور پھر ایسے بات کر تا ہے جیسے ان کا خفیہ امتحان لے رہا ہو) تمھیں احکامِ عشرہ یاد ہیں ایلزبیتھ؟

ایلزبیتھ: (کسی تامل کے بہ غیر، آمادگی سے) مجھے یاد ہیں۔ میری زندگی پر کوئی داغ نہیں لگنا چاہیے، مسٹر ہیل۔ میں مقدس عہد کی پا بند مسیحی خاتون ہوں۔

ہیل: اور مسٹر تمھیں …

پراکٹر: مجھے … مجھے بھی یاد ہیں۔

ہیل: (ایلزبیتھ کے فراخ چہرے کی طرف دیکھتا ہے اور پھر جان کی طرف دیکھ کر کہتا ہے) تو پھر انھیں دُہرا دو۔

پراکٹر: احکام؟

ہیل: ہاں۔

پراکٹر: (پرے دیکھتے ہوئے، اسے پسینے آنے لگتے ہیں) تم قتل نہیں کرو گے۔

ہیل: ہاں۔

پراکٹر: (انگلیوں پر گنتا ہے) تم چوری نہیں کرو گے۔ تم اپنے پڑوسی کی چیزوں کا لالچ نہیں کرو گے۔ اور تم کوئی کندہ شبیہ (صنم) اپنے پاس نہیں رکھو گے۔ تم بے کار اپنے خداوند کا نام نہیں لو گے۔ تم خداوند کے ہوتے کسی دیوتا کو نہیں پوجو گے۔ (ہچکچاتا ہے) اور تم سَبت کو یاد رکھو گے اور اس دن کو پاکیزہ مانو گے۔ (توقف کرتا ہے۔ پھر کہتا ہے) تم اپنی ماں اور اپنے باپ کا احترام کرو گے۔ تم جھوٹی گواہی نہیں دو گے۔ (وہ تھم گیا ہے اور انگلیوں پر الٹی گنتی کرنے لگتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے وہ ایک حکم بھول رہا ہے۔) تم اپنے پاس کندہ شبیہ نہیں رکھو گے۔

ہیل: تم یہ دو دفعہ کہہ چکے ہو۔

پراکٹر: (بھول گیا ہے) ہاں (اسے یاد نہیں آ رہا۔)

ایلزبیتھ: (شائستگی سے کہتی ہے) زنا، جان

پراکٹر: (جیسے کسے چھپے تیر نے اس کا دل چیر دیا ہو) ارے ہاں (ہنس کر دکھ بھگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہیل سے کہتا ہے) آپ نے دیکھا جناب، ہم دونوں آپس میں سارے احکام جانتے ہیں (ہیل پراکٹر کی طرف دیکھتا رہتا ہے، اس آدمی کو سمجھنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے، پراکٹر گھبرا جاتا ہے) میرے خیال میں میں نے ایک چھوٹی سی غلطی ہی تو کی ہے۔

ہیل: دین، جناب ایک قَلعَہ ہوتا ہے اور اس قَلعَہ میں کوئی بھی دراڑ چھوٹی نہیں سمجھی جاتی۔ (وہ اٹھتا ہے، تھوڑا پریشان، تھوڑی دیر چلتا ہے، گہری سوچوں میں گم۔)

پراکٹر: اس گھر میں عزازیل سے محبت نہیں کی جاتی، مسٹر۔

ہیل: ہاں، میں دعا گو ہوں، پورے خلوص سے دعا گو۔ (وہ دونوں کی طرف دیکھتا ہے، مسکرانے کی کوشش کرتا ہے، مگر اس کی تشکیک عیاں ہے۔) اچھا، میں اب تم لوگوں کو شَب بَہ خیر کہنا چاہوں گا۔

ایلزبیتھ: (خود کو تھام نہیں پاتی) مسٹر ہیل (وہ پلٹتا ہے) میرے خیال میں آپ مجھے پر شک کر رہے ہیں۔ کر رہے ہیں ناں؟

ہیل: (صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ مُضطر ہے اور گریزاں بھی) بیگم پراکٹر میں تمھیں پرکھ نہیں رہا۔ میرا کام تو صرف عدالت کی الٰہیاتی دانائی میں اضافہ کرنا ہے۔ خدا تمھیں اچھی صحت اور اچھی قسمت سے نوازے۔ (جان سے) شب بَہ خیر جناب۔ (باہر جانے لگتا ہے)۔

ایلزبیتھ: (گھبراہٹ کی انتہاؤں پر پہنچ کر کہتی ہے) جان، میرے خیال میں تم انھیں ضرور بتاؤ۔

ہیل: کون سی بات؟

ایلزبیتھ: (پکار تھامتی ہے) کیا تم بتاؤ گے، جان؟

پراکٹر: (مشکل سے) اپنے … اپنے لفظوں کے سِوا میرے پاس گواہ نہیں ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں، بچیوں کی بیماری کا جادو ٹونے سے کوئی ناتا نہیں ہے۔

ہیل: (تھم گیا ہے) کوئی ناتا نہیں …

پراکٹر: مسٹر پیرس کو وہ پیڑوں میں کھیلتے ہوئے ملی تھیں۔ اس کی اچانک آمد سے ڈر گئی تھیں اور بیمار پڑ گئی تھیں۔

وقفہ

ہیل: تمھیں یہ کس نے بتایا؟

پراکٹر: (ہچکچاتا ہے، پھر کہہ دیتا ہے) ایبی گیل ولیمز نے۔

ہیل: ایبی گیل نے۔

پراکٹر: ہاں۔

ہیل: (دِیدے پھٹے ہوئے ہیں) ایبی گیل ولیمز نے تمھیں بتایا کہ اس سب کا جادو ٹونے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

پراکٹر: جس دن آپ یہاں آئے تھے، اسی دن اس نے مجھے بتایا تھا۔

ہیل: (مشکوک ہوتے ہوئے) پھر تم نے یہ بات چھپائے کیوں رکھی۔

پراکٹر: آج رات تک مجھے علم ہی نہیں تھا کہ دنیا بے عقلی کی ان باتوں کے اثر میں بے وُقُوف بن چکی ہے۔

ہیل: بے عقلی کی باتیں؟ مسٹر، تیتیوبا، سارا گڈ، کئی دوسرے جنھوں نے شیطان سے سودے کرنے کے اقرار کیے ہیں، میں نے ان سب کی تفتیش خود کی ہے۔ وہ اپنا جرم قبول کر چکے ہیں۔

پراکٹر: قبول نہ کریں تو کیا کریں؟ اگر وہ اپنے جرم سے انکار کرتے ہیں تو انھیں پھانسی ہو جائے گی۔ پھانسی سے بچنے کے لیے لوگ جھوٹے اقبال کر لیتے ہیں۔ آپ نے اس بارے کچھ سوچا تھا؟

ہیل: سوچا تھا، کیوں نہیں سوچا تھا (اسے خود بھی شک ہے مگر وہ اس شک کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ وہ اک نگاہ ایلزبیتھ پر ڈالتا ہے، پھر پراکٹر پر) اور تم عدالت میں اس بات کی شہادت دو گے؟

پراکٹر: عدالت کا تو ابھی میں نے نہیں سوچا تھا۔ لیکن دینی پڑی تو ضرور دوں گا۔

ہیل: تم ڈگمگا رہے ہو؟

پراکٹر: ڈگمگا نہیں رہا لیکن سوچ ضرور رہا ہوں کہ کیا یہ عدالت میری بات سن لے گی؟ سوچنا پڑتا ہے، جب آپ جیسے پادری ایک اُستُوار دماغ والی خاتون پر شک کر سکتے ہیں، جس نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں۔ نہ بول سکتی ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ جھوٹ نہیں بول سکتی۔ ان حالات میں ڈگمگانا کچھ بنتا بھی ہے۔ مسٹر میں دھوندو تو نہیں ہوں۔

ہیل: (پراکٹر کی باتوں سے متاثر ہو جاتا ہے) پراکٹر یہ بات ہے ہے تو میرے ساتھ کھل کر بات کرو۔ تمھارے بارے میں ایک افواہ مجھے پریشان کرتی ہے۔ میں نے سنا ہے اس دنیا میں تم ڈائنوں (کاہناؤں) کے وجد کو ہی نہیں مانتے۔ کیا یہ سچ ہے؟

پراکٹر: (وہ جانتا ہے کہ یہ سوال فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے اور ہیل کے لیے اور اپنے لیے پراگندگی چھپانے کی پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ دل میں اس سوال کو جواب کے لائق ہی نہیں سمجھتا۔) مجھے اپنی ہر کہی بات تو یاد نہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا کچھ میں نے کہہ دیا ہو۔ میں سوچتا رہتا ہوں کہ کیا واقعی ڈائنیں دنیا میں ہوتی ہیں۔ لیکن اس بات کا مجھے یقین نہیں ہے کہ آج کل وہ ہمارے درمیان ہیں۔

ہیل: اس کا مطلب ہے کہ تمھیں یقین نہیں ہے …

پراکٹر: مجھے نہیں معلوم۔ انجیل میں ڈائنوں (کاہنہ بہتر ترجمہ ہے مگر ہمارے خیال میں ان سے وابستہ جذباتی شدت کا اظہار ڈائن بہتر کرتی ہے) کا ذکر ہے، اس لیے میں ان کے وُجُود کا انکار نہیں کروں گا۔

ہیل: اور خاتون تم؟

ایلزبیتھ: میں یقین نہیں کر سکتی۔

ہیل: (متحَیّر ہو کر) نہیں کر سکتی؟

پراکٹر: ایلزبیتھ، تم انھیں بد حواس کر رہی ہو۔

ایلیزبیتھ: (ہیل سے) مجھے یقین نہیں کہ شیطان ایک خاتون کی روح پر قابض ہو سکتا ہے، جب وہ سیدھے راستے سے ایسے وابستہ ہے، مسٹر ہیل، جیسےمیں صراطِ مستقیم پر قائم ہوں۔ میں ایک پاک باز خاتون ہوں، میں جانتی ہوں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ اس دنیا میں میں اچھے کام کرتی ہوں پھر بھی اگر آپ یہ سمجھیں کہ خفیہ طور پر شیطان سے بندھی ہوں، تو آپ کو بتائے دیتی ہوں کہ میں ڈائنوں کے وُجُود پر یقین نہیں کروں گی۔

ہیل: لیکن خاتون کیا تم مانتی ہو کہ دنیا میں ڈائنوں کا وجود ہے؟

ایلزبیتھ: اگر آپ مانتے ہیں کہ میں ڈائن ہیں تو پھر میں نہیں مانتی

ہیل: لیکن یقینا تم انجیل کے مخالف تو نہیں چلتیں …

پراکٹر: یہ انجیل کو مانتی ہے، لفظ بَہ لفظ۔

ایلزبیتھ: انجیل کے بارے میں، ایبی گیل ولیمز سے پوچھیں، مجھ سے نہیں۔

ہیل اسے گھورنے لگتا ہے۔

پراکٹر: جناب آپ غلط مطلب نہ لیں۔ یہ انجیل پر شک نہیں کر رہی۔ ہمارا کُنبہ ایک مسیحی کنبہ ہے۔ واقعی ایک مسیحی کنبہ۔

ہیل: خدا تم دونوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ تیسرے بچے کو جلد از جلد بپتسمہ دلواؤ۔ اور ہر اِتوار کو سَبت کی مناجات میں ضرور شامل ہوا کرو۔ اور ایک خاموشی سنجیدگی کے سنگ جینے کو کاوش بھی کرو۔ یہ میری تم دونوں کو نصیحت ہے۔

جائلز کوری دروازے پر نمو دار ہوتا ہے۔

جائلز: جان۔

پراکٹر: جائلز، کیا مسئلہ ہے؟

جائلز: وہ میری بیوی کو لے گئے ہیں۔

فرانسس نرس اندر آتا ہے۔

جائلز: اس کی ریبیکا کو بھی۔

پراکٹر: (فرانسس سے) ریبیکا جیل میں ہے۔ میں …

فرانسس: ہاں، چیور اسے اپنے چھکڑے میں لے گیا۔ ہم ابھی جیل سے آ رہے ہیں، وہ ان سے ملنے بھی نہیں دیتے۔

ایلزبیتھ: اب وہ واقعی پاگل ہو گئے ہیں ،مسٹر ہیل۔

فرانسس: (ہیل کی طرف جاتا ہے) کیا آپ ڈپٹی گورنر سے بات کریں گے؟ مجھے یقین ہے ان لوگوں کے بارے اس سے کچھ غلطی ہوئی ہے؟

ہیل: مہر بانی فرما کر اپنے اوسان قائم رکھیں، مسٹر نرس۔

فرانسس: میری بیوی تو چرچ کی روح و رواں ہے۔ (جائلز کی طرف اشارہ کرتا ہے) اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی مارتھا کوری سے زیادہ خدا کے قریب ہو۔

ایلزبیتھ: ریبیکا پر کیا الزام لگا ہے، مسٹر نرس؟

فرانسس: (تمسخر سے آدھی ادھوری سی ہنستا ہے) قتل کا، اس پر قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ (گرفتاری کے وارنٹ کی تضحیک آمیز نقل اتارتے ہوئے) بیگم پٹنم کی بچیوں کے حیرت انگیز اور بالائے فطرت قتل کا الزام۔ اب میں کیا کروں مسٹر ہیل۔

ہیل: (فرانسس سے پرے ہٹتاہے اور بہت زیادہ فکر مند ہے۔) یقین جانو، مسٹر فرانسس، اگر ریبیکا نرس آلودہ ہے تو اس سر سبز دنیا کو راکھ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ عدالت کے انصاف پر بھروسا رکھو۔ عدالت اسے ضرور گھر بھیج دے گی۔ مجھے یقین ہے۔

فرانسس: یعنی اس کا مقدمہ سنا جائے گا؟

ہیل: (عرض کرتے ہوئے) نرس، اگر چِہ تمھارا دل شکستہ ہے، مگر ہم کم زوری نہیں دکھا سکتے۔ نیا دور آ گیا ہے، جناب۔ بڑی دھندلی اور سُبُک سازشیں ہو رہی ہیں اور اس لمحے اگر ہم پرانی محبتوں اور قدیم دوستیوں سے لپٹتے ہیں ہم جرم دار ہوں گے۔ عدالت میں میں نے بڑے بھیانک ثبوت دیکھے ہیں۔ شیطان سیلیم میں جیتا جاگتا ہے۔ اور ہمیں الزام کے لیے اٹھی انگلی کے ہر اشارے پر کُوک پکار نہیں کرنی چاہیے۔

پراکٹر: (غصے سے) اس خاتون نے کتنے بچے خون میں نہلائے ہیں؟

ہیل: (شدید دکھ میں ہے) جوان، یاد رہے، شیطان کے زوال سے ایک گھنٹہ پہلے خدا بھی سوچتا تھا کہ شیطان حَسِین تھا۔

جائلز: مسٹر ہیل، میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ میری بیوی ڈائن ہے۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ وہ کتابیں پڑھتی ہے۔

ہیل: مسٹر کوری، تمھاری بیوی کے خلاف کیا شکایت ہوئی ہے؟

جائلز: اس کتورے وولکاٹ نے اس کے خلاف شکایت کی۔ جناب، چار پانچ سال پہلے اس نے میری بیوی سے ایک خنزیر خریدا تھا لیکن وہ خنزیر خریداری کے بعد جلد ہی مر گیا۔ اور وولکاٹ کودتا ہوا، اپنے پیسے واپس لینے آ دھمکا۔ میری مارتھا نے اس یہ کہا، “وولکاٹ، اگر تم ایک خنزیر کو ٹھیک طرح سے کِھلا پِلا نہیں سکتے تو تم زندگی میں زیادہ خنزیروں کے مالک بھی نہیں بن پاؤ گے۔ اب وہ عدالت میں چلا گیا ہے اور مُدَّعی ہے کہ اس واقعے کے بعد اس کا کوئی خنزیر چار ہفتوں سے زیادہ نہیں جیا کیوں کہ مارتھا نے اس کے خنزیروں پر اپنی کتابوں کے ذریعے جادو کر دیا تھا۔

ایزکائیل چیور اندر آتا ہے اور ایک جھنجھوڑ دینے والی خاموشی چھا جاتی ہے۔

چیور: شب بَہ خیر، پراکٹر۔

پراکٹر: ارے، شب بَہ خیر، چیور۔

چیور: سب کو شب بَہ خیر، شب بَہ خیر، مسٹر ہیل۔

پراکٹر: امید کرتا ہوں کہ عدالت کے کام سے نہیں آئے۔

چیور: مگر میں عدالت کے کام سے ہی آیا ہوں۔ اب میں عدالت کا کلرک ہوں۔ دیکھ لو …

تیس بتیس سال کا مارشل ہیرک بھی اندر آتا ہے۔ اس لمحے کچھ شرمندہ سا لگتا ہے۔

جائلز: کتنے دکھ کی بات ہے، ایزکائیل کہ ایک ایمان دار درزی جسے جنت میں جانا چاہیے تھا، جہنم میں جلے گا۔ تم جو کر رہے ہو، اس کے لیے تم سڑو گے۔

چیور: تم جانتے ہو میں محض حکم کی تعمیل کر رہا ہوں۔ تم اچھی طرح جانتے ہو جائلز، اس لیے اچھا ہو گا کہ تم مجھے جہنم میں نہ ہی بھیجو۔ مجھے یہ لفظ ہی نہیں بھاتا۔ پھر تمھیں کہہ رہا ہوں مجھے یہ لفظ نہیں اچھا لگتا۔ (پراکٹر سے وہ ڈرتا ہے مگر کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے، کچھ نکالنے کے لیے۔) میرا یقین کرو، پراکٹر کہ آج میں قانون کا بھاری بوجھ، ٹنوں بھاری بوجھ، اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوں۔ (ایک کاغذ نکالتا ہے) یہ تمھاری بیوی کا وارنٹ گرفتاری ہے۔

پراکٹر: (ہیل سے) آپ نے تو کہا تھا، اس پر کوئی الزام نہیں عائد کیا گیا۔

ہیل: مجھے اس بارے میں کچھ علم نہیں (چیور سے) ایلزبیتھ پر کب فرد جرم عائد ہوئی؟

چیور: آج مجھے سولہ وارنٹ دیے گئے ہیں اور ان میں ایک ایلزبیتھ کا بھی ہے۔

پراکٹر: الیزبیتھ پر الزام کس نے لگایا؟

چیور: ایبی گیل ولیمز نے۔

پراکٹر: ثبوت کیا ہے؟ ثبوت کیا ہے؟

چیور: (کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے) مسٹر پراکٹر، میرے پاس وقت کم ہے۔ عدالت نے مجھے تمھارے گھر کی تلاشی کا حکم دیا ہے۔ لیکن میں یہ کرنا نہیں چاہتا مگر ایلزبیتھ کے پاس جو بھی گڑیائیں ہیں تم میرے حوالے کر دو۔

پراکٹر: لعبتیں؟

ایلزبیتھ: کیسی گڑیا؟ اب میں بچی نہیں رہی۔

چیور: (کھسیا جاتا ہے مگر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے مینٹل پر میری وارن کی گڑیا دیکھ لیتا ہے) گڑیا تو میں نے دیکھ لی، بیگم پراکٹر۔

ایلزبیتھ: (گڑیا لینے کے لیے لپکتی ہے) اوہ، یہ تو میری کی ہے۔

چیور: (ہچکچاتے ہوئے) تم یہ گڑیا میرے حوالے کر دو۔

ایلزبیتھ: (گڑیا اسے دے دیتی ہے اور ہیل سے کہتی ہے) اب کیا انھوں نے گڑیا میں کوئی سازش دریافت کر لی ہے؟

چیور: (احتیاط سے گڑیا پکڑے ہوئے) تمھارے گھر میں کیا کچھ اور لعبتیں بھی ہیں؟

پراکٹر: نہیں، یہ بھی آج رات کو ہی آئی ہے؟ مگر گڑیا میں ایسی کیا خاص بات ہے؟

چیور: خاص بات (وہ گڑیا احتیاط سے پلٹتا ہے) گڑیا میں خاص بات یہ ہے … خاتون، پلیز تم میرے ساتھ چلو۔

پراکٹر: یہ نہیں جائے گی۔ (ایلزبیتھ سے) میری کو یہاں لے آؤ۔

چیور: (بے ڈھنگے پن سے ایلزبیتھ کی طرف بڑھتا ہے) مجھے حکم دیا گیا تھا کہ اسے میں اپنی نظروں سے دور نہ ہونے دوں۔

پراکٹر: (اس کا ہاتھ جھٹک دیتا ہے۔) نہ صرف یہ تمھاری نظروں سے دور رہے گی، بَل کہ، دماغ سے بھی، مسٹر۔ میری کو یہاں لے آؤ ایلزبیتھ۔ (ایلزبیتھ اوپری منزل پہ چلی جاتی ہے۔)

ہیل: گڑیا کا کیا مطلب ہے مسٹر چیور؟

چیور: (گڑیا کو اپنے ہاتھ میں الٹتا پلٹتا ہے) گڑیا کا یہ مطلب ہو سکتا ہے۔ (گڑیا کی قمیص اٹھاتا ہے اور اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل جاتی ہے) یہ کیا؟ یہ کیا؟

 پراکٹر: (گڑیا کی طرف بڑھتا ہے) اس میں کیا ہے؟