کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ پنجم)

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر
Base illustration courtesy thePlayer.org

کٹھنائی The Crucible، از، آرتھر ملر (قسطِ پنجم)

ترجمہ، نصیر احمد

چلیں اب سیلیم لوٹتے ہیں جہاں محترم ہیل اپنے آپ کو ایک نیا نیا ڈاکٹر سمجھ رہے ہیں جسے پہلی بار درماں کرنے کے لیے بلوایا گیا ہے۔ اور اس کا محنت سے سیکھی ہوئی علامات کا اسلحہ خانہ، پیشہ ورانہ الفاظ، اور تشخیص کے مراحل کام میں لانے کا سمے آ گیا ہے۔

بیورلی کی سڑک تو آج بہت مصروف تھی۔ اور وہ ہزار افواہیں گزار آئے تھے۔  افواہیں جنھیں سن کر وہ گنواروں کی اپنی دقیق سائنس کے بارے میں لا علمی پر مسکراتے رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ یورپ کے بہترین دماغوں، بادشاہوں، فلسفیوں، سائنس دانوں اور سب چرچوں کے پیشواؤں سے  فطانت کے رشتے میں منسلک ہیں۔

ان کا مقصد سہل تھا، اچھائی اور اس کا تحفظ۔ وہ با برکت لوگوں کی رفعتوں سے آگاہ تھے جن کی ذہانت بڑے بڑے مقالوں کے باریک بین معائنے سے بڑھتی ہے اور جنھیں ایک دن عدوئے خصیم سے خونی جنگ کرنے کے لیا پکارا جاتا ہے۔

( وہ آدھا درجن بھاری بھرکم کتابیں اٹھائے نمو دار ہوتے ہیں)

ہیل: انھیں تو کوئی مجھ سے لے لو۔  مہر بانی ہو گی۔

پیرس: (خوش ہو کر)  اچھا ہو آپ آ گئے۔ (چند کتابیں لیتے ہوئے) یہ تو بہت بھاری ہیں۔

ہیل: (کتابیں رکھتے ہوئے) بھاری تو ہیں۔ احکامات کا وزن ہے۔

پیرس: ( تھوڑا ڈر جاتا ہے) خوب، تیاری کر کے آئے ہیں۔

ہیل: مطالعے تو کرنے پڑتے ہیں جب بوڑھے لڑکے کےکھرے اٹھانے ہوں۔ (ریبیکا کو نوٹس کرتا ہے) تم ریبیکا نرس تو نہیں ہو۔

ریبیکا: وہی ہوں جناب۔ آپ مجھے جانتے ہیں۔

ہیل: تمھیں جاننے کا قصہ عجیب ہے، مگر تم بالکل ویسی ہی دکھائی دے رہی ہو جیسے ایک اچھی آتما دِکھنی چاہیے۔ ہم نے بیورلی میں  تمھاری فیاضیوں کی بہت کہانیاں سنی ہیں۔

پیرس: ان صاحب کو آپ جانتے ہیں؟ مسٹر ٹامس پٹنم اور یہ ان کی بیگم این ہیں۔

ہیل: پٹنم ، مجھے اتنی شان دار صحبت کی توقع نہیں تھی۔

پٹنم: (مسرور ہو جاتا ہے) آج ہم سے اپنی سہائتا نہیں ہو پا رہی مسٹر ہیل۔ ہم آپ کے بہت شکر گزار ہوں گے اگر آپ ہمارے گھر تشریف لائیں اور ہماری بجی کو بچا لیں۔

ہیل: تمھاری بچی بھی بیمار ہے؟

مسز پٹنم: اس کی آتما، اس کی آتما، لگتا ہے کہیں دور پرواز کر گئی ہے۔ وہ سوتے میں چلتی ہے۔

پٹنم: کچھ کھا پی بھی نہیں سکتی۔

ہیل: (کچھ سوچتا ہے۔ پھر پراکٹر اور جائلز کوری سے مخاطب ہوتا ہے) تم لوگوں کے بچے بھی بیمار تو نہیں ہیں؟

پیرس: یہ کسان ہیں، جان پراکٹر …

جائلز کوری: یہ تو  ڈائنوں پر اعتقاد ہی نہیں رکھتا۔

پراکٹر: (ہیل سے) میں نے ڈائنوں کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔ نہ اثبات میں، نہ انکار میں۔ چلو جائلز چلتے ہیں۔

جائلز کوری: نہیں جان ابھی نہیں۔ مجھے ان صاحب سے اپنے کچھ عجب سوالوں کے جواب درکار ہیں۔

پراکٹر: اور میں سمجھا تھا کہ تم ایک سمجھ دار آدمی ہو۔ مسٹر ہیل، مجھے امید ہے کہ کچھ سمجھ داری آپ اپنے پیچھے سیلیم میں چھوڑ جائیں گے۔

پراکٹر چلا جاتا ہے اور ہیل کچھ لمحوں کے لیے خفت زدہ سا کھڑا رہتا ہے۔

پیرس: ( تیزی سے) آئیں میری بیٹی کو دیکھیں جناب۔ (ہیل کو بستر کے پاس لے جاتا ہے) اس نے کھڑکی سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ صبح یہ سڑک پر ملی تھی، اپنی بانہیں لہراتے جیسے اڑ جائے گی۔

ہیل: (بھنویں سکیڑتا ہے) اڑنے کی کوشش کرتی ہے؟

پٹنم: یہ تو خداوند کا نام بھی برداشت نہیں کر پاتی، مسٹر ہیل۔ یہ تو جادو ٹُونے کی کھلی نشانی ہے۔

ہیل: (ہاتھ اوپر اٹھاتا ہے) میں تمھیں ہدایت کرتا ہوں کہ اس معاملے میں اوہام کی بات نہ چھیڑو۔ شیطان کچا کام نہیں کرتا۔ اس کے نشان پتھروں کی طرح پکے ہوتے ہیں۔ میں کہے دیتا ہوں کہ میں اس کا تب تک علاج نہیں کروں گا جب تک تم مجھے وَچن نہیں دیتے کہ اگر میں نے اس لڑکی کی روح وتن پر دوزخ کی خراش نہیں دیکھی تو تم میری بات مان لو گے۔

پیرس: وچن دیتے ہیں، ہم وچن دیتے ہیں، آپ کے حکم کا آدر کریں گے۔

ہیل: پھر ٹھیک ہے۔ (وہ بستر کے پاس جاتا ہے۔ بیٹی کی طرف دیکھتا ہے۔ پیرس سے کہتا ہے) یہ عجب سی کیفیت پہلی بار تم نے جناب کب دیکھی؟

پیرس: جی جناب، میں نے اسے اپنی بھتیجی (ایبی گیل کی طرف اشارہ کرتا ہے) اور دس بارہ لڑکیوں کے ساتھ جنگل میں پچھلی رات ناچتے دیکھا تھا۔

ہیل: (حیران ہے) تم انھیں ناچنے کی اجازت دیتے ہو۔

پیرس: نہیں جناب، یہ چوری چھپے …

مسز پٹنم: (اور انتظار نہیں کر پاتی) مسٹر پیرس کی کنیز روحیں جگانا جانتی ہے، جناب۔

پیرس: بیگم این، اس بارے میں ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مسز پٹنم: (خوف زدہ ہو کر دِھیرے سے کہتی ہے) میں جانتی ہوں جناب، میں نے اپنی بیٹی تیتیوبا کے پاس بھیجی تھی کہ وہ پتا چلائے کہ اس کی بہنوں کو کس نے قتل کیا تھا؟

ریبیکا: (دہشت زدہ ہو کر) تم نے اس بچی کو روحیں جگانے کے لیے بھیجا تھا۔

مسز پٹنم: خدا میرے ساتھ جو کرے وہ کرے مگر تم نہیں، تم نہیں ریبیکا۔ میں تمھیں اور خود کو جانچنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ (ہیل سے کہتی ہے) کیا یہ فطری عمل تھا کہ سات بچے سورج دیکھنے سے پہلے ہی مر گئے؟

پیرس: شش

ریبیکا اک حالتِ اندوہ میں اپنا چہرہ پرے کر لیتی ہے اور اک وقفہ ہو جاتا ہے۔

ہیل: زچگی میں سات مردے؟

مسز پٹنم: (دھیرے سے کہتی ہے) جی ہاں (اس کی آواز ٹوٹنے لگتی ہے۔ ہیل کی طرف دیکھ کر چپ ہو جاتی ہے۔ ہیل اس سے متاثر ہو گیا ہے۔ پیرس ہیل کی طرف دیکھتا ہے۔ ہیل اپنی کتابوں کی طرف رخ کرتا ہے۔ ایک کتاب اٹھاتا ہے۔ اس کے ورق پلٹتا ہے۔ کچھ پڑھتا ہے۔ سب منتظر ہیں، شدت سے منتظر)

پیرس: (سَر گوشی کرتا ہے) یہ کون سی کتاب ہے؟

مسز پٹنم: کتاب میں کیا لکھا ہے جناب؟

ہیل: (عالمانہ جستجو کی ایک ذائقے دار محبت کے ساتھ) اسی میں تو اسرار کی دنیا ہے، جسے گرفت میں لے لیا گیا ہے، جس کی تعریف متعین کر دی گئی اور جس کا حساب کتاب طے کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب شیطان کے سب وحشیانہ بھیس اتار کر اسے ننگا کر دیتی ہے۔ اسی میں تو تمھاری جانی بوجھی بد روحیں ہیں۔ تمھاری حسن پریاں اور تمھاری گج گامنیاں اور تمھاری ڈائنیں جو دھرتی پہ بھی ہیں فضا میں بھی ہیں اور سمندر میں بھی ہیں۔ اور تمھارے شب و روز کے گرو۔ ڈرو مت،اگر وہ ہمارے درمیان ہے، ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔ اور اگر اس نے چہرہ کرایا تو میں اسے کچل کے رکھ دوں گا (اور بستر کی طرف بڑھتا ہے۔)

ریبیکا: بچی کو تکلیف تو نہیں ہو گی ناں؟

ہیل: ابھی نہیں بتا سکتا۔ شیطان کی پکڑ سے اسے چھڑانے کے لیے کچھ چیر پھاڑ اور کھینچ تان تو کرنی پڑے گی۔

ریبیکا: پھر میرا خیال ہے، میں چلتی ہوں۔ میں بہت بوڑھی ہو گئی ہوں، سہہ نہیں پاؤں گی۔

پیرس: (یقین کرنے کی کوشش میں مبتلا ہو جاتا ہے) کیوں ریبیکا؟ شاید ہم اپنی مصیبتوں کا پھوڑا آج پھوڑنے میں کام یاب ہو جائیں۔

ریبیکا: مجھے امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ میں خدا سے جناب کے لیے دعا کروں گی۔

پیرس: (کچھ الجھن میں تھوڑا برا مانتے ہوئے) میں بھی امید کرتا ہوں خدا کی طرف تمھارے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں ہم شیطان کے سنگ ہیں۔ (تھوڑا وقفہ)

ریبیکا: کاش مجھے اس بات  کی خبر ہوتی۔ (وہ چلی جاتی ہے اور وہ سب اس کی اخلاقی برتری میں گھلی بات کو نا پسند کرتے ہیں۔)

پٹنم: (اچانک) آئیے مسٹر ہیل، اپنا کام کیجیے، بیٹھیے۔

جائلز: مسٹر ہیل، میں ہمیشہ سے ہی ایک عالم فاضل شخص سے یہ پوچھنے کا آرزو مند تھا کہ یہ انوکھی سی کتابیں پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟

ہیل: کون سی کتابیں؟

جائلز: مجھے نہیں پتا۔ وہ انھیں چھپا کے رکھتی ہے؟

ہیل: کون چھپا کے رکھتی ہے؟

جائلز: مارتھا، میری بیوی۔ میں کئی مرتبے سوتے میں اٹھا ہوں، تو اسے ایک کونے میں کتاب پڑھتے میں نے دیکھا ہے۔ اس بارے میں جناب کیا فرماتے ہیں؟

ہیل: اس کا یہ مطلب یہ تو نہیں بنتا کہ وہ ضرور ہی کوئی …

جائلز: مگر  میں تو بے چین ہو جاتا ہوں۔ نوٹ کرلو پچھلی رات تو میں بار بار کوشش کرنے کے با وُجود عبادت نہیں کر سکا۔  اور جب وہ اپنی کتاب بند کر کے باہر نکل گئی تو اچانک مجھے سب دعائیں پھر سے یاد آ گئیں۔

یہاں پر بوڑھے جائلز کے بارے میں کچھ بات ہو جائے کیوں کہ اس کا انجام قابلِ ذکر ہے اور دوسروں سے بہت مختلف ہوا تھا۔ اس وقت اس کی عمر اسی سال تھی اور شاید تاریخ کا وہ سب سے زیادہ مزاحیہ ہیرو تھا۔ کسی پر اس سے زیادہ تہمتیں نہیں لگی تھیں۔ اگر کسی کی گائے گم ہو جاتی تو وہ اسے ڈھونڈنے کوری کے گھر ہی آتا۔ اگر کسی رات کہیں آگ بھڑک اٹھتی تو آتش زدگی کا شبہ کوری پر ہی کیا جاتا۔

مگر اس نے معاشرتی شور کی کبھی کچھ پروا نہیں کی تھی اور چرچ بھی وہ  اپنے آخری سالوں میں مارتھا سے بیاہ رچانے کے بعد ہی جانے لگا تھا۔ ہو سکتا ہے مارتھا کی کتب بینی کی وجہ سے اس کی عبادت میں خلل پڑتا ہو، مگر جائلز نے دعائیں بھی تو حال ہی میں سیکھی تھیں۔ اور مناجات بھولنے میں اسے دیر بھی نہیں لگتی تھی۔

وہ کچھ سر پِھرا اور مصیبت ہی لگتا تھا مگر اس کے دُرُوں ایک بہت ہی معصوم اور بہادر مرد بھی رہتا تھا۔ عدالت میں اس سے ایک دفعہ پوچھا گیا تھا کہ کیا واقعی ایک دفعہ ایک خنزیر کے نرالے رویے نے اسے بد حواس کر دیا تھا۔ اور کیا اسے علم تھا کہ خنزیر کی شکل میں شیطان اسے ڈرا رہا تھا۔ اسے پوچھا گیا کہ کس بات نے اسے وحشت میں مبتلا کر دیا تھا۔ وحشت؟ اس نے تڑاخ سے جواب دیا تھا کہ اسے تو یاد نہیں کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں یہ شَبد بولا ہو۔

ہیل: مناجات میں رکاوٹ؟ عجیب بات ہے؟ اس پر میں تم سے بعد میں تفصیلی بات کروں گا۔

جائلز: میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اسے شیطان نے چھوا ہے۔ مگر مجھے یہ جان کر خوشی ہو گی کہ وہ پڑھتی کیا ہے، اور مجھ سے چھپاتی کیوں ہے۔ مجھے تو وہ نہیں بتاتی، دیکھ لیں۔

ہیل: ہاں، بات کریں گے۔ (سب سے) اگر اس کے اندر شیطان ہے تو  اس کمرے میں تم بڑے بھیانک عجائب تماشے کرو گے۔ اس لیے مہر بانی سے اپنے ہوش سنبھالے رکھنا۔ مسٹر پٹنم، تم یہیں پاس ٹھہرو کہ تم اسے روک لو گے اگر وہ اڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ پیاری بَیٹّی، اب اٹھ بھی جاؤ۔ (پٹنم پاس آتا ہے، پوری تیاری میں ہے کہ بَیٹّی اڑے اور وہ اسے دبوچ لے، ہیل بیٹی کو اٹھاتا ہے مگر وہ ساکت و صامت اس کی بانہوں میں لٹکی رہتی ہے) ہونہہ( وہ اس کا غور سے مشاہدہ کرتا ہے اور باقی سانسیں سمیٹے دیکھتے رہتے ہیں) تم سن رہی ہو؟ میں جان ہیل ہوں، بیورلی کا پادری۔ میں تمھاری مدد کو آیا ہوں،پیاری بیٹی۔ تمھیں بیورلی میں میری ننھی لڑکیاں تو یاد ہوں گی ناں؟ (وہ اس کی بانہوں میں ذرا سی بھی نہیں ہلتی۔)

پیرس: یہ شیطان کیسے آ گیا؟ اس نے میرے ہی گھر پر شب خون مارنا تھا؟ گاؤں میں تو  رنگ برنگے اوباش موجود ہیں۔

ہیل: پہلے سے ہی ایک بری آتما کو اپنی طرف لانے میں شیطان کی جیت تو نہیں ہوتی۔ شیطان ہمیشہ بہترین کا پیچھا کرتا ہے اور گاؤں کے پادری سے بہتر کون ہے جو شیطان کا نشانہ بنے؟

پیرس: بہت ہی گہری بات، مسٹر پیرس، گہری، گہری۔

پیرس: (اب پر عزم ہے) بیٹی مسٹر ہیل کو جواب دو، بیٹی، مسٹر ہیل۔ کسی نے تمھیں ستایا؟ ضروری نہیں کہ وہ مرد یا عورت ہو۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی پنچھی ہو جسے تم دیکھ سکتی ہو، دوسرے نہیں۔ چوہا یا سور بھی ہو سکتا ہے، یا کوئی اور جناور۔ تمھیں اڑنے کا اذن کون دیتا ہے؟ (مگر لڑکی اس کی بانہوں میں بے سدھ پڑی رہتی ہے اور وہ اسے خاموشی سے بستر پر لٹا دیتا ہے۔ اب اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے اور لحن میں پڑھنے لگتا ہے۔) بہ نام میر فلک برو بر دوزخ (مگر وہ نہیں ہلتی اور پیرس ایبی گیل کی سمت آنکھیں سکیڑ کر دیکھتا ہے،) تم لوگ کون سا ناچ ناچ رہی تھیں جنگل میں؟

ایبی گیل: وہی جو ہم عام طور پر ناچتی ہیں۔

پیرس: یاد آیا، میں نے گھاس پر ایک کیتلی بھی تو دیکھی تھی۔

ایبی گیل: کیتلی میں بس سوپ تھا۔

ہیل: کیتلی میں کون سا سوپ تھا ایبی گیل۔

ایبی گیل: بینز اور دالوں کا۔

ہیل: مسٹر پیرس، تم نے کوئی زندہ شے تو کیتلی میں نہیں دیکھی؟ کوئی چوہا، مکڑا یا شاید مینڈک؟

پیرس: (ڈر کر) سوپ میں کچھ ہل جل تو ہو رہی تھی۔

ایبی گیل: وہ  کیتلی میں آن گرا تھا، ہم نے نہیں ڈالا تھا۔

ہیل: (جلدی سے) کیا کیتلی میں آن گرا تھا؟

ایبی گیل: ایک چھوٹا سا مینڈک۔

پیرس: مینڈک؟ ایبی۔

ہیل: (ایبی گیل کو پکڑ لیتا ہے) تمھاری کزن مر رہی ہے، ایبی گیل۔ کیا تم نے گزشتہ رات شیطان بلایا تھا؟

ایبی گیل: میں نے نہیں بلایا تھا۔ تیتیوبا، تیتیوبا۔

پیرس: کیا تیتیوبا نے شیطان بلایا تھا؟

ہیل: میں تیتیوبا سے بات کرنا چاہتا ہوں۔

پیرس: بیگم این، تم ذرا تیتیوبا کو تو یہاں لے کر آؤ (مسز پٹنم باہر چلی جاتی ہے۔)

ہیل: شیطان اس نے کیسےبلایا تھا؟

ایبی گیل: مجھے نہیں پتا، وہ باربا ڈوز کی بولی بولتی ہے۔

ہیل: جب اس نے شیطان کو پکارا تھا، تمھیں ماحول میں کچھ عجیب نہیں لگا؟ تیز سرد ہوا چلی تھی کہ پاوں تلے دھرتی کانپی تھی؟

ایبی گیل: میں نے شیطان نہیں دیکھا (بیٹی کو جھنجھوڑتی ہے) اٹھو بیٹی، بیٹی، بیٹی۔

ہیل: مجھ سے تم نہیں کترا سکتیں، ایبی گیل۔ تمھاری کزن نے اس کیتلی کا سوپ پیا تو نہیں تھا؟

ایبی گیل: نہیں، اس نے نہیں پیا۔

ہیل: تم نے پیا؟

ایبی گیل: نہیں جناب۔

ہیل: تیتیوبا نے تمھیں سوپ پینے کو کہا؟

ایبی گیل: اس نے کہا تھا مگر میں نے منع کر دیا۔

ہیل: تم بات کیوں چھپا رہی ہو؟ تم نے کیا اپنا آپ شیطان کو بیچ دیا ہے؟

ایبی گیل: میں نے خود کو نہیں بیچا۔ میں اچھی لڑکی ہوں۔ میرے سنسکار اچھے ہیں۔ (مسز پٹنم تیتیوبا کے ساتھ اندر آتی ہے۔ اور انھیں دیکھتے ہی وہ تیتیوبا کی طرف اشارہ کرتی ہے) اس نے مجھے زَبر دستی پلایا، بیٹی کو بھی۔

تیتیوبا: (جھٹکا سا لگ گیا ہے اور غصے سے کہتی ہے) ایبی

ایبی گیل: اس نے مجھے لہو پلایا۔

پیرس: لہو؟

مسز پٹنم: میری بچی کا لہو؟

تیتیوبا: نہیں وہ ککڑی (مرغی) کا لہو تھا۔ میں نے اسے ککڑی کا لہو پلایا تھا۔

ہیل: عورت، تو نے ان بچیوں کا شیطان کی منڈلی میں شامل کروا دیا؟

تیتیوبا: نہیں جناب میرا شیطان کے ہاں کوئی آن جان (آنا جانا) نہیں ہے۔

ہیل: تو پھر یہ کیوں نہیں جاگتی؟ تو نے تو اسے خاموش نہیں کرا رکھا؟

تیتیوبا: بیٹی تو میری پیاری ہے۔

ہیل: تو نے اس بچی پر اپنی بد روحیں وارد کی ہیں۔ تو کیا شیطان کے لیے آتمائیں جمع کرتی ہے۔

ایبی گیل: چرچ میں یہ اپنی بد رُوح مجھ پر نازل کرتی ہے۔ اسی لیے تو مناجات کے دوران میں ہنستی رہتی ہوں۔

پیرس: ہاں ناں، اسے میں نے کئی بار چرچ میں ہنستے دیکھا ہے۔

ایبی گیل: ہر شب یہ میرے پاس آتی ہے اور خون پینے کے لیے اکساتی ہے۔

تیتیوبا: ٹونے کے لیے یہ میری منتیں کرتی ہے۔ ٹوٹکوں کے لیے یہ میرے پاؤں پڑتی ہے۔

ایبی گیل: جھوٹ نہ بکو۔ (ہیل سے) میں سو رہی ہوتی ہوں تب یہ آتی ہے اور میرے سپنوں کو گندگیوں سے بھر دیتی ہے۔

تیتیوبا: تم یہ سب کیوں آکھ (کہہ) رہی ہو، ایبی؟

ایبی گیل: سپنے سے میں جاگتی ہوں تو خود کو راہ داری میں الف ننگی کھڑی پاتی ہوں۔ میں نے سپنے میں اسے خود پر ہنستے بھی دیکھا ہے۔ میں سپنوں میں  اس کے بارباڈوس کے گیت سنتی ہوں، یہ میرے ساتھ کھلواڑ …

تیتیوبا: جناب، عزت مآب، میں نے کبھی …

ہیل: (پر یقین ہو جاتا ہے) تیتیوبا، اس بچی کو جگا دے۔

تیتیوبا: جناب، اس بچی پر میرا حوکم (حکم) نہیں چلتا۔

ہیل: چلتا ہے، بالکل چلتا ہے اور تو اب اسے آزاد کرے گی۔ بتا، تو نے کب شیطان سے پیمان باندھے؟

تیتیوبا: شیطان سے میں نے پئی مان (پیمان) نہیں باندھے۔

پیرس: ابھی سب کچھ بتا دے ورنہ باہر لے جا کر، کوڑے مار مار کر، جان نکال دوں گا، تیتیوبا۔

پٹنم: اسے تو سولی پر لٹکاتے ہیں۔ سولی پر۔

تیتیوبا: (ڈر  کے فرش پر گر جاتی ہے۔) تیتیوبا کو سُولی پر مت لٹکائیں۔ میں نے اسے آکھا (کہا) کہ اس کے کام نہیں آؤں گی، جناب۔

پیرس: شیطان سے؟

ہیل: تو تو اس سے ملی (تیتیوبا رونے لگتی ہے) یہ تو میں جانتا ہوں تیتیوبا ہم جب جہنم سے بندھ جاتے ہیں تو آسانی سے یہ بند توڑ نہیں پاتے۔ ہم تجھے اس کی گرفت سے کھینچ کر آزاد …

تیتیوبا: (آئندہ واقعات کا تصور ہی اسے  بہت زیادہ ڈرا دیتا ہے) جناب عزت مآب، میں جانتی ہوں کوئی اور ان بچوں پہ جاندو (جادو) کر رہا ہے؟

ہیل: کون؟

تتیوبا: یہ تو میں نہیں جانتی مگر شیطان نے اسے بہت ساری ڈائنیں اور جاندو گر اکٹھے کر دیے ہیں۔

ہیل: اچھا (یہ تو ایک سراغ ہے) میری آنکھوں میں دیکھ تیتیوبا۔ دیکھ دیکھ (وہ ڈری ہوئی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھتی ہے) تو ایک اچھی مسیحی خاتون بننا چاہتی ہے ناں۔ چاہتی ہے ناں، تیتیوبا؟

تیتیوبا: جی، ایک اچھی مسیحی خاتون۔

ہیل: اور تو ان بچیوں سے پیار کرتی ہے۔

تیتیوبا: جی جناب، میں ان بچیوں کو تکلیف نہیں دے سکتی۔

ہیل: اور خدا سے بھی تجھے محبت ہے؟

تیتیوبا: خدا پر تو میری جان بھی کَربان (قربان)۔

ہیل: اب خدا کے مقدس نام سے …

جاری ہے …