طاقت، دولت، شہرت اور صنعتِ تفریح

Naseer Ahmed
نصیر احمد

طاقت، دولت، شہرت اور صنعتِ تفریح

از، نصیر احمد

ہالی وڈ سمیت جتنی بھی تفریح کی صنعتیں ہیں، وہ دولت، طاقت اور شہرت کے مرکز بھی ہیں۔ ان کی طاقت ‘دولت اور شہرت کی بنیاد قصہ خوانی، قصہ نگاری ہے۔ دیومالا کی ایک جدید شکل جس میں ٹیکنالوجی کی مدد سے کشف و کرامات کا کھیل کیا جاتا ہے، جس سے لوگوں پر بار ایام کچھ آسان ہو جاتا ہے، جس کے بدلے میں بہت سی طاقت، دولت اور شہرت اکٹھی کی جاتی ہے جو طاقت، دولت اور شہرت میں مزید اضافے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

تفریح ایک سماجی خدمت ہے کہ تفریح کے ذریعے معاشرتی اصلاحات کا آغاز بھی کیا جا سکتا ہے اور تفریح کے ذریعے معاشرتی اصلاحات کو مقبول بھی بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن تفریح کےاس پہلو پر ہالی وُڈ نے کافی عرصے سے کچھ خاص کام نہیں کیا۔ دیومالا، قصہ خوانی اور قصہ نگاری پر ہی زیادہ اصرار ہے۔

جہاں تک معاشرتی اصلاح اور معاشرے کو چیلنج کرنے والے موضوعات ہیں، ان کا یہی ہے کہ ستم رسیدے واویلا کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح وزیراعظم ایٹلی بھولے بھٹکے خرابات میں چلے گئے تھے اور حالت زار دیکھ کر قدامت پرستی ترک کرتے ہوئے معاشرہ پسندی کی راہ اختیار کر لی تھی۔ اسی طرح کوئی اہم فلسفی کبھی یہ فریادیں سن لے تو وہ یہ فریادیں گوش گزار کر دیتا ہے۔

اس طرح بات سیاست دانوں تک پہنچتی ہے اور سیاست دان اسے عوام تک پہنچانا شروع کر دیتے اور اس کے بعد عوام یہ اصلاحات اپنا لیتے ہیں۔ اور جب ان اصلاحات کے لیے ایک سازگار ماحول بن جاتا ہے تو جناب ریگن کی طرح ہالی وُڈ والے بھی مردہ ریچھ کے ساتھ تصویر کھنچوا لیتے ہیں اور ریچھ مارنے کا کریڈٹ لیتے پھرتے ہیں۔

بعض اوقات تو ان کو ہوش تب آتی ہے جب اصلاحات معاشرے میں اچھی طرح سے رائج ہو چکی ہوں۔ پھر یہ کوئی درد بھری فلم بنا دیتے ہیں، جسے دیکھ کر کافی رونا دھونا کیا جاتا ہے۔ سب ایسے نہیں ہے لیکن زیادہ تر ایسے ہی ہے۔

اپنی کیٹ ونزلٹ کی طرح، اب میکبتھ، چائنا ٹاؤن اور پیانسٹ جیسی فلموں کے ہدایت کار رومن پولنسکی ایک بچی کے ساتھ زیادتی کے مجرم تو 1977 سے ہیں۔ براعظمی تو انھیں معراج فن ہی سمجھتے رہے لیکن امریکہ جہاں سے وہ قانونی کارِ روائی سے فرار ہوئے تھے، وہاں کی عوامی رائے نے ان کا قد کچھ بڑھنے نہیں دیا۔ رومن پولنسکی کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے کیٹ ونزلٹ سے استفسار کیا گیا انھوں نے جواب دیا کہ کہ مسئلے پر سوچا ہے، لیکن سوچ کو پرے رکھ دیا ہے، آخرکار بندے کے ساتھ کام تو کرنا ہے، ووڈی ایلن اور رومن پولینسکی شاندار ہدایت کار ہیں۔ سچ تو یہ ہے ان کے ساتھ کام کرنے میں مجھے بہت لطف آیا ہے (ووڈی ایلن، ایک اور ہدایت کار پر اپنی اپنائی ہوئی بیٹی سے ریپ کرنے کے الزامات ہیں اور یہ نوے کی دھائی کے دوسرے سال کی کہانی ہے۔)

اب جبکہ ہوا بگڑ گئی ہے اور جنسی زیادتیوں کے خلاف ‘میں بھی’ #MeToo تحریک کے بعد جن لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے انھوں نے تفریح کی صنعت سے متعلق بہت سارے مشہور لوگوں کی رسوائی کا سامان کر دیا ہے اور ان پھول نگر کے پتھر لوگوں کے خلاف عوامی احتجاج کا ایک ماحول بھی بن گیا ہے تو کیٹ ونزلیٹ آنکھوں میں آنسو بھرے فرماتی ہیں کہ انھیں ان جیسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے اپنے فیصلوں پر تاسف ہے، جنسی پامالی جرم ہے اور ہمیں اس حوالے سے مدھم سے مدھم آواز بھی سننی چاپیے۔

ٹھیک بات اور اچھی بات مگر یہ بات تو بہت پہلے کہنی چاہیے تھی کہ ادا کار اور فن کار کی قانونی، اخلاقی، شہری اور اخلاقی ذمہ داریاں بھی تو ہوتی ہیں۔ مگر یہ ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے نکتۂ نظر کی تبدیلی تو صاف صاف کاروباری سی بات لگتی ہے۔ زیادہ تر ہالی وُڈ یہی کچھ ہے، طاقت، دولت اور شہرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنی قانونی، اخلاقی، شہری اور اخلاقی ذمہ داریوں سے بے خبر۔ کچھ خبر ہوتی تو یہ سکینڈلز بنتے ہی نہیں۔ رومن پولینسکی کی پوجا نہیں ہوتی اور انصاف و تلافی کے ذرائع موثر کام کر رہے ہوتے تھے تو دیومالا کا جادو بھی کچھ کام ہوتا اور گوشت پوست کے بنے ہوئے بد ترین انسان دیوتا بن ہی نہیں پاتے۔

سارا مسئلہ نگرانی کی معطلی کا ہے۔ کاروباریوں کی سہولت کے لیے معیشت کی قانونی اور سیاسی نگرانی کی معطلی کی ایک ثقافت کو فروغ دیا گیا جس کے نتیجے میں لاڈلوں کا ایک طبقہ قائم ہو گیا ۔جیسے جیسے یہ ثقافت ترقی پاتی رہی ، قانون، سیاست اور معیشت میں نگرانی کی معطلی زندگی کے ہر شعبے میں بڑھتی گئی اور اتنی بڑھی کہ دولت، طاقت اور شہرت کی بلندیوں پر حضرت انسان سے ملاقات ہی نہیں ہوتی۔ ملتے ہیں تو کیٹ ونزلیٹ جیسے لوگ جن کی نیکی کا تعین خبروں میں اچھل کود کرتی ہے یا رومن پولنسکی جیسے درندے جو خود کو دیومالا کے دیوتا سمجھتے ہیں جن پر کوئی قاعدہ اور ضابطہ لاگو نہیں ہوتا کہ ان کی چند فلمیں باکس آفس پر کامیاب ہو گئی ہیں۔

لیکن یہ قانونی نگرانی کو معطل کرنی والی ثقافت جمہوریت سے متصادم ہے۔ جمہوریت تو انسانیت پر اصرار کرتی ہے۔ بنیادی پیغام ہی یہی ہے کہ ہم میں سے کوئی اتنا طاقت ور، دولت مند اور شہرت یافتہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے اس کے جرائم سے متعلق باز پرس ہی نہیں کی جا سکے۔

وائین سٹائین، رومن پولینسکی اور دوسرے بہت سارے انھوں نے طاقت، دولت اور شہرت کا غیر قانونی اور غیر انسانی استعمال کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نوکری کے قانونی معاہدوں کی نوعیت ایسی ہے کہ اس سے تحفظ کے پہلو ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ جب چاہا رکھ لیا، جب چاہا نکال دیا۔

ان کی دولت ان کے لیے ایسے وکیل خرید سکتی ہے جن کی پریکٹس ہی قانون کے استحصال پر مبنی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں نوکری، ترقی، کام کی خوشی اور شہرت کی طالب غریب خواتین یہ مقدمہ بازی کر ہی نہیں سکتیں۔ اور ان کی شہرت دیوتاؤں کی سی ہے اور معاشرے کے امیر طبقات اس شہرت کو ایسے خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ ستم رسیدوں کی بات ہی کھو جاتی ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ ستم رسیدوں کی عزت جاتی ہے، نوکری جاتی ہے، مقدمہ بھی ہار جاتے ہیں اور تا حیات بدنامی کی سزا بھی ملتی ہے۔ معاشروں کی اس بے حسی کے نتیجے میں چالیس سال کی عمر میں جرم کر کے فرار ہونے والے رومن پولینسکی چوراسی سال کی عمر میں بھی دیوتا ہی ہوتے ہیں اور ان کی باتوں سے ندامت بھی نہیں جھلکتی۔

شاید طاقت، دولت اور شہرت کے حوالے سے بہتر قانون سازی کا وقت آگیا ہے۔ ان سب کے غیر قانونی استعمال کی تعریف کا دائرہ وسیع کیا کا جا سکتا ہے۔ جرم ثابت ہونے کے نتیجے میں سزائیں کڑی کی جا سکتی ہیں۔ نوکری کے معاہدوں میں تحفظ کی بہتر شقیں لائی جا سکتی ہیں۔ اور عوام کو بھی اس بات کی تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ طاقت، دولت اور شہرت کا بنیادی ماخذ آئین ہے۔ بس ایسے ہی چمک دمک دیکھ کر سجدہ ریز نہ ہوتے پھریں۔

ویسے بھی تفریح کی صنعت کی جمہوریت کے خلاف ایک تاریخ بھی ہے۔ قدیم یونان میں سوفوکلیز وغیرہ جمہوریت کی خرابیوں پر تنقید تو کرتے تھے، جو کہ ایک اچھی بات ہے مگر یہ صرف ایک پہلو ہے۔ وہ نہ صرف جمہوریت کے نقاد تھے بلکہ جمہوریت کے خلاف کام بھی کرتے تھے۔ ان کے فن کا ایک واضح مقصد دیوتاؤں کی بحالی بھی تھا۔ اس لیے جمہوری شہریوں کو صنعت تفریح سے خبردار رہنا چاہیے اور دیوتاؤں کی بحالی کے خلاف مزاحمت جاری رکھنی چاہیے۔