انسان فطرت اور ماحول کے حسین چہرے کو بگاڑ رہا ہے

لکھاری کا نام
منزہ احتشام گوندل

انسان فطرت اور ماحول کے حسین چہرے کو بگاڑ رہا ہے

از، منزہ احتشام گوندل

کئی دن کی بھوکی اور لاغر مادہ چیتا گھات لگا کے بیٹھی ہے۔ اونچی اور بھوری گھاس میں چِترے چیتل گھاس کھا رہے ہیں۔ اچانک سرسراہٹ ہوتی ہے، چیتلوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ اچانک دُڑکی لگاتے ہیں۔ چیتا اسی وقت کا تو انتظار کر رہی ہے، وہ ان میں سے ایک کے پیچھے ہو لیتی ہے۔ دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ دونوں طرف زندگی بچانے کی دوڑ ہے۔ ایک کی موت دوسرے کی حیات ہے، اور ایک کی شکست دوسرے کی جیت ہے۔

چیتل سرپٹ بھاگ رہا ہے۔ چیتا اپنے بدن کی پوری قوت لگا رہی ہے۔ اچانک اس کے بدن کا درجہ حرارت پینسٹھ ڈگری سینٹی گریڈ پہ پہنچ جاتا ہے، اور وہ بھاگنا موقوف کر دیتی ہے۔ شکار ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اوہ! میرے مُنھ سے بے اختیار نکلا، اوہ ایک طویل نفسیاتی تناؤ کے بعد اچانک اطمینان کے اظہار کی علامت ہے یا پھر شکار کے نکل جانے پر افسوس کے اظہار کی، میں اس کی وضاحت کرنے سے قاصر ہوں۔ مجھے چیتا کی انتہائی جد و جہد کے بعد نا کامی نے سخت متاثر کیا ہے۔ وہ اگر اپنے بدن کے بڑھتے درجہ حرارت کے با وجود بھی بھاگتی رہتی تو اسے دل کا دورہ پڑ جاتا اور وہ مر بھی سکتی تھی، مجھے خوشی ہے کہ وہ بچ گئی۔

یہاں سے میرے مشاہدے کا آغاز ہوتا ہے۔ میں نے نوٹس کیا ہے کہ جتنے بھی گوشت خور جانور (carnivores) ہیں۔ درندے کہہ لیجیے، تمام کے تمام چھوٹے قد اور اجسام کے مالک ہیں، ان جانوروں کے جسم میں چربی کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ شیر، چیتا، باگھ، بھیڑیا، جنگلی کتا، لگڑبگھا، وغیرہ۔ ان سب جانوروں کے قد چھوٹے، جسم ہلکے، کمر پتلی، تا کہ بے تحاشا دوڑ سکیں، اور پاؤں مڑے ہوئے ناخنوں والے ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک زندہ جانور ہیں اور یہ اپنے رزق کے لیے بے تحاشا محنت کرتے ہیں۔ کئی کئی دن مسلسل بھوکے رہنا، شکار تاکنا، پھر شکار کا پیچھا کرنا، پورے بدن کی قوت لگا کے دوڑنا، شکار کو دبوچ کے اس کے ساتھ لمبی لڑائی کے بعد جاکر اسے کھانے کی نوبت آتی ہے۔

مگر رکیے ذرا! ایسے کھانا بھی آسان نہیں، اب اس شکار کا بٹوارا ہوتا ہے، سارا خاندان کھانے کو اکٹھا ہو جاتا ہے، کسی کے ایک بوٹی ہاتھ لگتی ہے کسی کے دو، اور کوئی بھوکا ہی رہ جاتا ہے اور شکار چٹ ہو جاتا ہے۔
جب کہ ان جانوروں کے بالمقابل سبزہ خور جانور ہیں۔ جن میں ہاتھی، گینڈا، زرافہ، زیبرا، جنگلی بھینسا، نیل گائے، گھوڑا، اونٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ان جانوروں کے اونچے قد، چربی سے تھل تھل کرتے بدن، لمبی چوڑی چراگاہیں سارا دن گھاس چرنے کو حاضر ہیں۔ کتنی آسان زندگی ہے، نہ بھاگ ہے، نہ دوڑ، ذرا گردن نیچے جھکائیے، سامنے رکھیے یا اوپر لے جائیے، ہر طرف انواع و اقسام کے درخت، گھاس، پتے، جڑی بوٹیاں کھانے کو وافر میسر ہیں۔ تن آسانی ہے۔

یہ سبزہ خور(herbivores) ہیں۔ ان کو قدرت نے اس محنت سے دور رکھا ہے جو گوشت خوروں کا نصیب ہے۔ یہ قدم قدم ٹہل کے کھاتے ہیں۔ خالص گھاس کھاتے ہیں، پھر بھی ان کے جسم میں چربی کی مقدار بے تحاشا ہوتی ہے۔ یہاں مجھے ایک نئی بات یاد آئی کہ ہمارے ہاں جتنے بھی وزن کم کرنے اور چربی گھٹانے کے طریقے ہیں ان میں گوشت اور گھی سے قطع تعلق کر کے مسلسل سبزیاں کھانے پہ زور دیا جاتا ہے۔

تصور یہ ہے کہ سبزیوں اور پھلوں کے اندر چکنائی نہیں ہوتی، جب کہ میں یہ دیکھ رہی ہوں کہ جتنے گوشت خور ہیں ان کے بدن میں چربی کی مقدار سبزی خور جانوروں کے مقابلے میں کم ہے۔ جب کہ پروٹین اور کیلشیم کی مقدار سب سے زیادہ ہے۔ اور جتنے سبزی خور جانور ہیں ان کے بدن میں چربی کی مقدار سب سے زیادہ ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے ذیابیطیس کے مریضوں کے لیے ایک غذائی چارٹ دیکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ شوگر کے مریض کو چاہیے کہ وہ اپنی خوراک کی پچھتر فیصد مقدار حیوانی غذاؤں سے لے۔ جن میں گوشت، دودھ، انڈے، مکھن اور بالائی وغیرہ شامل ہیں۔ بیس فیصد سبزیاں اور پھل اور پانچ فیصد دالیں وغیرہ، جب کہ ہمارے ہاں عام طور پہ موٹاپے یا شوگر کے مریض کو انہیں غذاؤں سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتاہے۔ اور کچی سبزیاں اور پھل کھانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔


مزید و متعلقہ: بولتی تصویر: پہاڑ جل گئے، شجر مر گئے

پاکستان میں آبی وسائل کا ضیاع: مسئلہ اور اس کا حل  از، ڈاکٹر محمود حسن

زندگی بخش دریاؤں اور جھیلوں کا ریپ  از، وسعت اللہ خان


خیر درندوں اور چرندوں کی بات ہو رہی تھی۔ تو ایک دوسری بڑی سہولت جو فطرت نے چرندوں، سبزہ خوروں، کو دی ہے وہ انسان کی طرح ایک وقت میں ایک ہی بچے کی پیدائش کی ہے۔ سبزہ خور ایک یا دو سال کے وقفے سے ایک بچہ پیدا کرتے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ دو بچے، اور یہ تناسب نہایت کم ہے۔ انسانوں کی طرح، پھر بھی جھنڈ کے جھنڈ وجود میں آ جاتے ہیں۔ ہاں خرگوش وغیرہ کی مثال الگ ہے اس پہ بحث بعد میں کریں گے۔ جب کہ درندے (گوشت خور) بعض ایک سال کے وقفے سے اور بعض سال میں دو یا تین جھول کے حساب سے بیک وقت کئی بچوں کو جنم دیتے ہیں۔ پھر بھی ان کی تعداد کم رہتی ہے۔ حالاں کہ انہیں کھاتا بھی کوئی نہیں، نہ ہی ان جانوروں کا کوئی شکار کرتا ہے۔ جب کہ چرندوں کی زندگی پہ ان درندوں کی زندگی کا انحصار ہے۔ چرندوں کا شکار انسان بھی کرتے ہیں اور درندے بھی، اس کے با وجود ان کے ریوڑ کے ریوڑ نظر آتے ہیں۔ اس میں کیا حکمت ہے، یہ تو فطرت ہی جانے یا قدرت جانے۔

چرندوں کے بڑے ڈیل ڈول، آسان زندگی، رزق کی آسان دست یابی، نسل کو بڑھاوا دینے میں آسانی اور برکت جہاں قدرت کی مہر بانی ہے وہیں اس نوع کے مقدر میں دوسروں کی خوراک بننا بھی لکھا ہے۔ درندے جو شکار کرتے ہیں ان پہ زندگی کے بیش تر وظائف کو قدرت نے سخت رکھا ہے، رزق کے لیے سخت تگ و دو، اولاد کے لیے تکلیف (ظاہر ہے بیک وقت بچے پیدا کرنا اور پالنا آسان تھوڑی ہے) اور پھر نسل میں بے برکتی،۔۔۔ فطرت اپنے دائرے کو توازن میں رکھتی ہے۔ کہیں تنگی ہے تو کہیں آسانی بھی ہے۔

آپ خود ہی سوچیے! اگر کسی دن درندوں کی تعداد بڑھ جائے اور چرندے کم ہو جائیں تو کیا ہو گا؟ زندگی کی بقا کے لیے درندے اپنے ہی بدن نوچنے لگیں گے۔ اور ہم انسان جو کہ ہمہ خور omnivores ہیں۔ ہمارے لیے تو اس توازن کو قائم رکھنا اور بھی ضروری ہے۔ افسوس کہ ہم نے فطرت کے توازن کو تہہ و بالا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اورنیچر کے حسین چہرے کو مسلسل بگاڑتے چلے جا رہے ہیں۔ اور اس پہ شرمندہ بھی نہیں۔

مجھے پچھلے سال ایک سرکس میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں شیروں کی درگت بنتے دیکھ کے میرے دل کی جو حالت ہوئی وہ کچھ مجھے ہی معلوم ہے۔ شیر جیسا جانور کسی بندر کی طرح ایک انسان کی چھڑی کے اشارے پہ ناچتا مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا، اور میرا جی چاہا تھا شیروں کے اس انسٹرکٹر کے ہاتھ سے وہ چھڑی چھین کر اسی سے اس کی ٹھکائی کر دوں۔ فطرت کے حسن کو پنجروں میں قید کرکے، ہم انسان نہ جانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ فطرت کو ہم نے اپنی عقل سے بگاڑا ہے یا سنوارا ہے؟
یہ سوال سوچنے کا ہے؟