سگ بان: پشتو ادب میں جادوئی حقیقت

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحب مضمون

نعیم بیگ
ناول ’ سگ بان ‘
مصنف :فاروق سرور
مترجم : اسیر منگل
نظرثانی : محمود ایاز ، محمد افضل حریفال، فاروق سرور
قومی ادبی ایوارڈ برائے ۲۰۰۸ ، اکادمی ادبیات پاکستان (خوشحال خان ایوارڈ)
سنہ اشاعت : ۲۰۱۵
ناشر :گوشہ ادب کوئٹہ بلوچستان

بیسویں صدی کا آخری ربع اِس خطہ میں جنم ہونے والی نسل کے لیئے کچھ عجیب سا تھا، تقسیم ہند سے پہلے ،جہاں سماجی ، ثقافتی و معاشی اقدار ہجرت کے وسیع تر مفہوم کی اسیر ہوئیں ، وہیں ثقافتی متون نئے اور اجنبی معنویت کا شکار ہوئے ۔ ملکاتِ ردّیہ عوامی سطح پر جزوی اور اشرافیہ میں کُلی طور پر سرایت کرنے لگیں۔ تہذیبی نواُمیدگی اپنی کم عمری میں پیدا ہونے والی اِن کلچرل تبدیلیوں اور نئی آفات کا سامنا کرنے لگی ۔ یوں نیونوآبادیاتی نظام ایک نئی سج دھج کے ساتھ مقامیت کی مہر لگائے سماجی سطح پر معاشی ادھم مچا نے لگا ۔ زبوں حالی اور احساسِ سود و زیاں کا شکار ایک کثیر الجہت لِسانی معاشرہ اپنی ساخت نو و ہیئت کے بارے میں خدشات کا شکار ہونے لگا ۔ نئی قوم اپنے اندر پنجاب، سندھ ، بلوچستان کے دور دراز علاقے اور خیبر پختون خواہ کی سرحدی ، سیاسی و معاشی ابتری کو اپنے دامن میں سمو رہی تھی۔ تاہم اِن خدشات اور خلفشار کے باوجود نئی روح پھونک دینے والے امیدوں کے چراغ بہرحال روشن تھے ۔
قومی شناخت اپنے اندرکثیر الجہاتی نظریاتی پہلو لیئے ہمہ جہت و ہمہ صفت عناصر ترکیبی کو پناہ دیئے اپنی تہذیبی اور لسانی رویوں کی مدہم ہوتی آنچ کو ایک نئی زندگی بخشنے لگی۔۔ استعمار ی قوتیں جہاں آزادی کے نام پر سماجی و معاشی ابتری کے بھیانک تحائف اس خطے کو سونپ کر جا رہی تھیں، وہیں اس نے جغرافیائی تقسیم میں اس مہارت سے ڈنڈی ماری کہ خطے کی لِسانی و ثقافتی شناخت کو بھی تہ تیغ کر دیا۔
بدقسمتی سے اسی اتھل پتھل میں گمشدہ ہوتی تہذیب و تمدن کی لو کو ملک میں ابھرتی ہوئی نئی ’انڈسٹریل ترقی‘ کے نام پر ایک نئی استعماری لئیرنے مزید مدہم اور محدود کر دیا ۔
ایسے میں ایک طرف ترقی پسند تحریک جہانِ نو کی تلاش میں تھی ،جہاں مقامی ادیب ان واقعات کو شعوری طور پر اپنے فطری رنگوں سے نہ صرف پینٹ کر رہے تھے بلکہ انسانیت کی بگڑتی صورت حال کو اپنے فکری ادراک کے بل بوتے پر نئے معنوں سے روشناس کرانے کی سعی میں مصروف تھے کہ پڑوس میں عالمی سرد جنگ کے بطن سے گرم جنگ کے انکھوئے پھوٹ پڑے، جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یوں علامتی ادب جو پہلے ہی عوامی سطح پر اپنی مخصوص خوشبو سے جانا پہچانا جا رہا تھا اپنی نئی شناخت کو قبولیت کی شاہراہ پر لے آیا جہاں عام قارئین بھی اس کے برگ و بار تک مکمل رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہونے لگے ۔
عین انہی دنوں نوے کی دھائی میں اسی فکری و شعوری ناآسودگیوں کے موسم میں میں ایک نوجوان ادیب فاروق سرور بلوچستان کی ہمہ صفت اور بیک وقت زرخیزو بنجر پہاڑی سلسلے، ساحلی پٹیوں سے اٹی سرزمین پر اپنی تہذیبی پودے کی مسلسل آبیاری کر تا نظر آتا ہے جو اپنے آدرش کی نئی دنیا آباد کرتے ہوئے ترقی پسند ادب کے نئے رحجانات کا جائزہ بھی لیتا ہے اور روائتی کہانیوں کو علامتی انداز میں ساتھ لئے اپنے پورے سماجی ، تہذیبی اور لسانی امکانات کو اپنے قلم کی نوک پر لاتا ہے۔
وہ ڈنکے کی چوٹ پر سیاسی و ثقافتی عوامل پر بات کرتا ہے اور اسکے دوررس اثرات تلے جو عناصر نئی جنم لیتی ہوئی تہذیب کی لسانی اور معاشی تشکیل میں پِس رہے ہوتے ہیں ، پر کھُل کر بات کرتا ہے۔عالمی طاقتوں کی طویل سرد جنگ کے بعد افغان جنگ اور اسکے اثرات سرحدوں کے پار تک آجانے پر فاروق سرور قلم اٹھاتے ہوئے جھوٹ کی تہہ در تہہ پرتوں کو اپنے قلم سے بے نقاب کرتا ہے۔
ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی ثقافت کی ان جادوئی حقیقتوں کو بھی بیان کرتا ہے جو داخلی اور خارجی محرکات و عوامل سے زندگی کو ایک نئی روشنی عطا کرتے ہیں۔
کوئی بھی سنجیدہ تخلیق کار اپنے تخلیقی محرکات میں بین السطور معنی خیزی، ذومعنیت اور آئرنی سے غافل نہیں رہتا اور نہ ہی لسانی برتاؤ میں غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بین ہی ’سگ بان‘ میں فاروق سرور اس بارے پورا اہتمام کرتا ہے ۔ ’سگ بان‘ کا متن پشتون اساطیری، روایات و عقائد کو فطری انداز میں اپنے اندر سموتا ہے۔ فینٹسی کو رد کرتے ہوئے تخلیقی سطح پر فاروق سرور تخیل کی اِن اعلیٰ و ارفع امثال کو سامنے رکھتا ہے جو گبرئیل گارشیا مارکیز نے اپنی تخلیقات میں سرانجام دیں ہیں۔ وہ مارکیز کی طرح ثقافتی زندگی سے انسلاک رکھتے ہوئے اپنی اساطیری روایات ، شگون ، توہمات پیش قیاسیاں اور وہم کو جو پشتون باشندوں کی زندگی میں روزمرہ کے فطری انداز میں شامل ہو چکی ہیں، کو با آواز بلند منکشف کرتا ہے۔ وہ اپنے اضطراب کو مستند طور پر حقیقی زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے ’ سگ بان ‘ میں بیان کرتا ہے اس سے قطع نظر کہ ان کے استناد کی حقیقی سطح کیا ہے؟
عقلیت پسند لوگ حقیقت کے لا محدود تصور کے قائل نہیں ہوتے ہیں، مارکیز کی طرح فاروق سرور ان مغالطوں یا عدم تناسب کو جو اسکی اپنی تحریروں میں موجود ہے ، وسیع و عریض کرہِ عرض کی حقیقت کی ایک جہت تصور کرتا ہے یہاں تک کہ اسکے ہاں مافوق الفطرت عناصر بھی حقیقت کی اُن جہات میں شامل ہیں۔ اگرچہ ایسا کرتے ہوئے وہ سمجھتا ہے کہ ادیب و قاری ایک مخصوص تہذیبی دائرے میں حقیقت کا محدود تصور رکھتا ہے جو کسی دوسری تہذیبی حقیقت کو مافوق الفطرت یا غیر حقیقی سمجھتا ہے ، لیکن یکسر اسکی افادیت و وجود سے انکار بھی نہیں کرتا بلکہ اسے ایک ایسی اَن دیکھی حقیقت کے روپ میں علامت و استعارے سے سامنے لاتا ہے کہ قاری اِن علامات میں اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق اسے اِسی حد تک قبول کرتا ہے جو اسکے ہاں میسر ہے۔
ایسا کرتے ہوئے فاروق سرور خود بخود اٹھتے ہوئے سوالات کا قدرے جراٗت و صداقت سے زرعی تہذیب کی لسانی تشکیل اور اس کے فکری افق کو بے نقاب کرتا ہے کہ قاری داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ ایسے واقعات کو غیر محسوس طریقے سے اپنی لِسانی ، جذباتی ، احساساتی اور سیاسی بصیرت کی زبان دیتا ہے ۔ ناول میں ’ ماماگے‘ کا کردار وہ حقیقی کردار ہے جو تشکیل نو فکر میں اپنی جگہ بناتا ہے لیکن جس طرح سے فاروق سرور کا قلم اسے قرطاسِ ابیض پر اتارتا ہے وہ کارِ خاصہ ہے۔ فاروق سرور کے کردار یوں تو سماجی اور سیاسی شعور کے کسی فارمولے کے اسیر نہیں ہیں لیکن جن خطوط پر وہ اپنی انسانی زندگی کا سفر جاری رکھتے ہیں وہاں علامتوں کی تشریح کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ ملتا ہے۔
فاروق نے ایسا کرتے ہوئے دنیا کی حیرت انگیز حقیقتوں کو متخیلہ بیانیہ میں اپنے اظہار کو ایسا ذریعہ بنایا کہ ’ سگ بان‘ ایک پراثر تخلیق کے طور پر سامنے آتا ہے جو ناقابلِ یقین حقائق میں قاری کے لئے نہ صرف اثر انگیزی رکھتا ہے بلکہ اسے پرُ یقین بھی بناتا ہے۔ تاہم یہی وہ اہم نقطہ ہے جب فاروق اپنے قاری کو گاؤں کی حیرت انگیز حقیقتوں کا ادراک دیتے ہوئے بھی ا نکے اَن ہونے پن کا یقین دلا دیتا ہے۔ یہی کام مارکیز نے اپنی تخلیقات میں کیا۔
ناول کی زبان و بیاں و اسلوب پر شعبہ پشتو نوشہرہ پوسٹ گریجوئٹ کالج کے پروفیسر اسیر منگل’ سگ بان ‘ کے پیشِ لفظ میں لکھتے ہیں۔ (میرا خیال ہے کہ یہی صاحب مترجم بھی ہیں)
’’ پشتو ایک قدیم زبان ہے جس میں ایک سو سے زیادہ لہجے بولے جاتے ہیں تاہم لکھنے کے لئے دو بڑے لہجے قندہاری اور یوسفزئی معیاری سمجھ جاتے ہیں۔ سگوان قندہاری لہجے میں لکھی گئی پشتو زبان کی ایک بامقصد اور معیاری تخلیق ہے۔ جس کی زبان میٹھی ، رواں اور لطیف ہے ۔ ‘‘
اِسی طرح پروفیسر محمود ایاز کوئٹہ اپنے مضمون بعد از دیباچہ لکھتے ہیں۔ ’’ فاروق سرور کے ناول ’سگ بان‘ میں ایسے کردار پائے جاتے ہیں جو توہم پرستی کے زمرے میں آتے ہیں، جیسے کہانی کا ہیرو ’ماماگے‘ جو ابتدا میں آدھا ابنارمل کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طرح سربلند خان کے کردار کے دو رخ ہیں، جو بے حس بھی اور ابنارمل بھی۔۔۔ ماماگے پہلے تو آدھا ابنارمل پھر پورا ابنارمل اورآخر میں حقیقی کردار بن جاتا ہے۔‘‘
آگے چل کر پروفیسر محمود ایاز لکھتے ہیں۔ ’’ اس ناول کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ایک طرف جہاں یہ انسان ذہن کی داخلی وارداتوں کی تمثیل ہے، وہاں دوسری طرف جارحیت کی نہ ختم ہونے والی تلخ داستان بھی۔ اگر میں یہ کہوں کہ ناول نگار خود بھی اس داستان کا ( رئیلسٹک کم سیمبولک) کردار ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ کیونکہ وہ خود بھی اس گاؤں کا رہنے والا ہے۔ ‘‘
فاروق سرور کے ناول ’ سگ بان ‘ میں خوشگوار پیراہن ، کشادہ لمحات اور متنوع ثقافتی و لسانی تراکیب ،انکی تحریر کے ایسے پہلو ہیں جسے قاری اپنی نظروں کے سامنے متحرک محسوس کرتا ہے ۔ زمانی لحاظ سے اوریجنل پشتو ناول’ سگبان ‘ افغان وار کے بعد عالمی طاقتوں کی افغان سرزمین پر قبضے کے فوراً بعد کے حالات سے مرقّع ہے لیکن یہ اِسی کے قلم کا طرہِ امتیاز ہے کہ اسے یہ کئی ایک دہایوں کے بعد نہ صرف کنسیوو کرتا ہے بلکہ ضبطِ تحریر میں لاتا ہے۔
فاروق سرور کا مکالمہ قاری کو الجھاتا نہیں بلکہ خوشگوار تاثر کے ساتھ جزیات سے ادبی حظ اٹھانے دیتا ہے۔ اُس کی تحریر پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ قاری اُسی زمانے کا ایک فرد ہے۔ وہ پشتوزبان اسکی تراکیب، اسکی کلاسیکت اور حسیاتی لفظی نغمگی اور گیت کاری کی تصاویر یوں سامنے لاتا ہے کہ اِن کا جمالیاتی حسن اور نمایاں ہو جاتاہے۔
ضمنی بات کہ ’سگبان‘ کے اردو ترجمہ میں اردو زبان و بیاں کی ان حدود و قیود کا ایک بار پھر جائزہ لینا از حد ضروری ہے جو تحریر کو رواں اور جاذبِ نظر رکھے۔
حرف آخر کے طور پر یہ ضرور عرض کرونگا کہ لسانی و قومی سطح پر معاشی استحصال میں گرفتار ، استعماری جبر کے شکار عوام اب بھی امید و ناامیدی کی بھول بھلیوں میں بے سمتی کا شکار ہیں اور یہی شائد فاروق سرور کا ذاتی کرب بھی ہے جسے اُس نے اپنے قاری تک پہنچا دیا۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔

2 Comments

  1. میں انتظامیہ ‘‘ایک روزن‘‘ کا از حد ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے مضمون کو پزیرائی بخشی ۔۔۔

  2. Dear and respected Naeem Baig sb , really , I don’t have any word for your love , kindness and generosity . No dout you are our senior and creative critic with great vision . Inshort , pashto is a rich and sweet language , qurban di sam , be ta di na sam .

Comments are closed.