کائنات کے آخری پانچ سیکنڈ کا قضیہ

ایک روزن لکھاری
سید کاشف رضا

کائنات کے آخری پانچ سیکنڈ کا قضیہ

از، سید کاشف رضا

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ یہ کائنات تیرہ ارب اسی کروڑ سال پہلے ایک بگ بینگ یا بڑے دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ تیرہ ارب اسی کروڑ سال۔ کہنا آسان ہے، مگر اس پورے عرصے کو اپنے ذہن میں لانا مشکل۔ اس کا حل مشہور امریکی مفکر کارل سیگن نے یہ نکالا کہ ایک کائناتی کیلنڈر ترتیب دیا اور بگ بینگ سے اپنے زمانے تک کے واقعات کو ایک سال کے کیلنڈر کے اندر بیان کر دیا۔ اس کیلنڈر کا ایک سیکنڈ اس زمین پر گزرے ہوئے چار سو سینتیس برسوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس کائنات میں پانچ سو کہکشائیں ہیں۔ ان میں سے ہمارا نظامِ شمسی جس کہکشاں میں واقع ہے اسے ’ملکی وے‘ کہا جاتا ہے۔ بگ بینگ ایک سالہ کائناتی کیلنڈر کی پہلی تاریخ یعنی یکم جنوری کو رات بارہ بجے ہوا۔ ہماری کہکشاں سولہ مارچ کو بنی اور پھر ہمارا نظامِ شمسی دو ستمبر کو وجود میں آیا جس کا ایک سیارہ ہماری زمین بھی ہے۔

زمین پر حیات کو وجود میں آنے میں مزید کروڑوں سال لگ گئے۔ حیات سے پہلے ایسے عوامل پیدا ہوئے جنھیں آگے چل کر حیات کی تشکیل میں معاون ثابت ہونا تھا۔ ایسا پہلا عامل جو اب تک دریافت ہوا ہے وہ گریفائٹ ہے جس کے ساڑھے تین ارب سال پرانے نشانات گرین لینڈ سے ملے ہیں۔ کائناتی کیلنڈر میں گریفائٹ کی تشکیل کی تاریخ چودہ ستمبر درج ہے۔ اکیس ستمبر کو پہلا خلیہ تیار ہو سکا جو ایک زندہ نامیہ تھا۔ لیکن کئی خلیوں پر مشتمل حیات کی ابتداء کائناتی کیلنڈر کے آخری مہینے دسمبر میں ہی کہیں جا کر ہو سکی۔ سات دسمبر کو سادہ جانور، چودہ دسمبر کو حشرات، سترہ دسمبر کو مچھلیاں اور بیس دسمبر کو ارضیاتی پودے پیدا ہوئے۔ وہ ڈائنوسار جن کے بارے میں فلمیں اپنے بچوں کو دکھا کر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے انھیں کسی بہت قدیم راز سے آگاہ کر دیا، وہ پچیس دسمبر کو پیدا ہوئے اور اسی روز نابود ہو گئے۔ بچوں کو دودھ پلانے والے جانور، یعنی ممالیا، چھبیس دسمبر کو پیدا ہوئے۔کائناتی کیلنڈر کے مطابق بوزنوں کا دور اکتیس دسمبر کو صبح چھ بج کر پانچ منٹ پر شروع ہوتا ہے۔ ہماری باقی تاریخ اگلے اٹھارہ گھنٹوں کی تاریخ ہے۔
سائنس کے مطابق ان اٹھارہ گھنٹوں میں ہم نے بوزنوں سے جدید انسان تک کا سفر کیا ہے۔ مجید امجد جب ایک ’بس اسٹینڈ پر‘ کھڑے انسانوں کے بارے میں یہ کہہ رہے تھے کہ:

ابھی کل تک جب اس کے ابروؤں تک موئے پیچاں تھے
ابھی کل تک جب اس کے ہونٹ محرومِ زنخ داں تھے

تو وہ کوئی بہت پرانے زمانے کی بات نہیں کر رہے تھے۔ آگ کی دریافت کے بعد انسانوں نے اس کے اردگرد رات کو بیٹھ کر ایک دوسرے کو کہانیاں سنانا شروع کیں، یہ دریافت صرف سولہ منٹ پہلے کی بات ہے۔ انسان نے تخلیقی اظہار کے لیے سب سے پہلے مصوری کو منتخب کیا۔ مصوری اور مجسمہ سازی دو منٹ پہلے کا قصہ ہے اور انسان کی ابتدائی قسم کی تحریریں صرف تیرہ سیکنڈ پہلے کا۔ افضال احمد سید کی مشہور نظم ’شاعری میں نے ایجاد کی‘ اس کے بعد کا قصہ سناتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جس کا تذکرہ سر جیمز فریزر نے اپنی مشہور کتاب ’شاخِ زرّیں‘ میں کیا ہے اور جس سے ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی مشہور نظم ’دی ویسٹ لینڈ‘ میں استفادہ کیا۔ انسان ٹوٹم اور ٹیبو، جادو اور توہمات سے گزرتا ہوا آج سے پانچ چھ سیکنڈ پہلے باقاعدہ مذاہب تک پہنچا۔ میلادِ مسیح کا زمانہ سیگن کے کائناتی کیلنڈر پر پانچ سیکنڈ پہلے گزرا ہے اور اسلام کی ترویج کا زمانہ صرف چار سیکنڈ پہلے۔ مغرب کی نشاۃ الثانیہ اور سائنس کا عروج کائناتی تاریخ کے آخری ایک سیکنڈ کی داستان ہے۔

مذاہب کے بعد ان کی معتدل اور متشدد ہر طرح کی صورتیں سامنے آئیں اور پھر ایک ایک مذہب کئی کئی فرقوں میں منقسم ہو گیا۔ مسلمان آبادی کی اکثریت والے ملکوں کی فکری تاریخ کا غالب ترین حصہ ان مذاہب اور فرقوں کی تشریح، تعبیر اور تفسیر میں صرف ہو گیا جن کی عمر کائناتی کیلنڈر میں صرف چار یا پانچ سیکنڈ کی ہے۔ ہمارا سارا علم صرف پچھلے پانچ سیکنڈوں کا احاطہ کرتا ہے جب کہ امریکا اور یورپ میں کارل سیگن جیسے درجنوں مصنفین کی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں ۔ ہمارے بچے مذہبی اور فرقہ وارانہ بحث مباحثے کی فضا میں پروان چڑھتے ہیں اور مغرب کے بچے زمین سے کائنات تک کے رازوں کی کہانیاں پڑھتے جوان ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے ذہنی تناظر کے ساتھ دونوں جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی اپروچ میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ہم سائنس ، سائنسی اندازِ فکر اور اس اندازِ فکر سے وابستہ ترقی کو اس طرح کھلے بازؤں کے ساتھ خوش آمدید نہیں کہہ سکے جیسے مثلاً جاپان اور بعض دیگر غیر یورپی اقوام نے کیا ، جن کے لیے یہ سائنس اس سے کم غیر تھی جتنی ہمارے لیے، کیونکہ ہم نے تو یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ یورپی اقوام نے سائنس کی مشعل مسلمانوں کی مشعلِ علم سے ہی جلائی ہے۔

مزید دیکھیے: عورت کہانی

تعداد کے لحاظ سے انسانوں کا سب سے زیادہ قتل مذہب کے نام پر ہوا ۔ یہ قتال اس تیقن کا لازمی نتیجہ تھا کہ صرف ہمارا مذہب، صرف ہمارا فرقہ اور صرف ہماری تشریح و تعبیر درست ہے۔ ذرا سوچیے کہ یہ کائنات ابھی پانچ سیکنڈ پہلے جن مذاہب کے بغیر گزارا کر رہی تھی، ان کے بارے میں یہ قاتل انسان کس قدر سنجیدہ تھے۔ مذہبی جنگیں یورپ نے بھی لڑیں، اس کے بعد قوم پرستی کے بخار میں یورپ بھی مبتلا ہوا۔ لیکن تجربے نے اسے سکھایا کہ سچائی پر کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کا اجارہ نہیں اور کوئی ایک قوم آسمانوں کی منتخب اور پسندیدہ نہیں۔ انھوں نے جانا کہ اب تک کی معلوم پانچ سو ارب کہکشاؤں میں حیات صرف اسی چھوٹے سے سیارے پر موجود ہے جسے زمین کہتے ہیں۔ اس حیات کی قدر کی جائے جو ہم میں سے ہر ایک کو ملی ہے اور جو دوسروں کے لیے بھی اتنی ہی قابلِ قدر ہے جتنی خود ہمارے لیے۔

آج یورپی اقوام ایسے تعصبات سے جان چھڑا کر اپنے عوام کو زندگی کی بہترین سہولتیں دے رہی ہیں اور وہاں کے عوام تاریخِ انسانی کی شان دار ترین زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ یورپ کو یہ سبق سیکھنے کے لیے خود آگ اور خون کی ندیوں سے گزرنا پڑا۔ ہم ایشیائی ایسے تجربے سے گزرے بغیر انھی نتائج پر پہنچ سکتے تھے جن پر یورپی اقوام پہنچیں۔ لیکن ہم کائناتی کیلنڈر کی پچھلے ایک سیکنڈ کی تاریخ بھی جاننے اور اس سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ پورے کائناتی کیلنڈر پر غور و خوض تو بہت دور کی بات ہے۔

About سیّد کاشف رضا 26 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔

3 Comments

  1. خوب تحریر ہے۔ ہم اپنے مذہب کی جانب سے عطا کردہ ایک جھوٹے اور غلط قسم کے احساسِ تفاخر میں مبتلا ہیں۔ اس احساسِ تفاخت کی جڑیں ہماری مذہبی تعلیمات میں موجود ہیں۔ ان جڑوں کو کاٹنے کے بجائے ہم نے انہیں اپنے گلے کا ہار بنا یا ہوا ہے

  2. ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے، کاشف۔ ہم تو ابھی آخری سیکنڈ کے کروڑویں حصے میں ہیں شاید، یوں سمجھیں کہ پیدا بھی نہیں ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 🙂 🙂

1 Trackback / Pingback

  1. سماج اور جنسی تصورات - aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.