فوزیہ ،قندیل اور مفتی قوی کا بے حس معاشرہ

شیخ عدیل احمد

قندیل بلوچ کی شادی ۲۰۰۸ میں کوٹ ادو کے رہائشی عاشق حسین سے ہوئی اور اُس کا ایک
بیٹا بھی ہے۔ قندیل بلوچ کی قتل کی خبر جب میں نے سنی تو مجے زیادہ دھچکا نہ لگا مگر یونہی مجھے معلوم پڑا کہ یہ غیرت کے نام پر اُس کے بھائی نے قتل کیا ہے تومیرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ مجھے وہ ویڈیوز،ڈانس اور ہاٹ کمٹس یاد آگئے جو مذاق اڑاتے اور طنز کرتے معاشرے نے اپنے چہرے پہ سجا رکھے تھے۔ مجھے قتل کی خبروں میں صرف دو لفظ یاد رہ گئے ____غیرت____ اور___بیٹا

میں سوچ رہا ہوں کہ اُس کا بیٹا کس کا ساتھ دے گا اپنی ماں کا ، بے حس زمانے کا یا اُس ماموں کا جس نے اسلامی غیرت کو اپنے سینے سے بلاخر نکال باہر کیا۔
قندیل بلوچ معاشرتی بے حسی اور سفاکی کا وہ نام ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت شد ومد سے پھل پھول رہا ہے۔فوزیہ عظیم سے قندیل بلوچ کا سفر بہت دشوار گزار ثابت ہُوا۔آج ہمارے معاشرے میں عورتوں کے حقوق کی سماجی تنظیمیں بے تحاشا ہیں لیکن یہ تب ہی نمودار ہوتی ہیں جب حوّا کی بیٹی معاشرتی بے حسی کا شکار ہو جاتی ہے۔ کیا کسی تنظیم، کسی مذہبی ادارے یا کسی اخلاقی ادارے نے قندیل بلوچ سوچ کو لگام دی اور کیا اُس پر ہنسنے والوں کے لیے کوئی ایک لفظ بھی مذمت کا ادا کیا ؟ کیا اب کسی کو توفیق ہوئی ہے
جب کہ اب وہ موت کی وادی میں اتر چکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوزیہ عظیم آخر قندیل بلوچ کیوں بنتی ہیں۔کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اُس نے معاشرے کی تنگ نظری کو اپنانے سے انکار کیا یا پھر اُس نے معاشرے کی پہنائی ہوئی بیڑیاں اترانے کی ناکام کوشش کی تھی جس کی زد میں آ کے وہ اور جکڑی گئی۔ آخر فوزیہ عظیم نے شہرت حاصل کرنے کیے لیے اوچھے ہتھکنڈے کیوں اپنائے۔ان سوالوں کا جواب معاشرے میں کہیں نہیں مل سکے گا۔کیوں کہ یہ غیرت کا دعوے دار بے غیرت معاشرہ ہی تو تھا جو اُس سے یہ سب کروا رہا تھا۔ جس کی غیرت جاگنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ قندیل نے اپنی اندر فوزیہ کو مار دیا مگر معاشرہ ہنستا رہا اب قندیل خود مر گئی مگر معاشرہ آج بھی اُسے گالیاں دے رہا ہے۔اس معاشرے کی مثال پاکستان کے اُن آمروں جیسی ہے جنھوں نے اپنے مقاصد کے لیے مجاہدین بنائے اور بعد ازاں انھی کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ مجاہد تھے تب بھی استعمال ہو رہے تھے جب دہشت گرد بنے تب بھی اُن کا نشانہ ہی ہیں۔
غیرت اور اُس کے نام پر وحشت___ہمارے اندر آخر اس قدر سرایت کیوں کر گئی ہے کہ بھائی بہن ، باپ بیٹی کو قتل کر دیتا ہے۔ ہمارا معاشرہ غیرت کے نام پہ قتل کوقتل تصور ہی نہیں کرتا, اسے اسلام کا کوئی فریضہ ادا کرنے کے مماثل قرار دیتا ہے۔ان درندہ صفت انسانوں بلکہ شیطانوں کو یہ نہیں معلوم کہ اسلام میں قتل قتل ہی ہے۔ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اسلام میں غیرت کے نام پر قتل کا کوئی تصور نہیں۔ اگر کسی کے
مطابق کوئی واجب القتل ہے تو قانون اُسے سزا دے گا فرد خود کسی کو قتل نہیں کر سکتا۔
’’غیرت ‘‘اُس غلیظ سوچ کا نام ہے جو ہمارا معاشرہ زہر کی طرح اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کر رہا ہے۔ عورت جب اپنے حقوق کی جنگ لڑے تو اُس کا گلہ دبا دیا جاتا ہے۔ آپ ذرا اندازہ کریں کہ فوزیہ عظیم کی وفات پر مفتی قوی کا فوراًبیان آتا ہے کہ اس سے سب کو عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ مفتی صاحب سے سوال ہے کہ اسلام میں غیرت کے نام پر قتل کی کوئی گنجائش ہے؟ اگر وہ ہاں کہتے ہیں تو غیرت کے نام پر مردوں کا قتل بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہونا شروع ہو گیا تو آپ جیسے کتنے مفتی زمانے میں عبرت کا نشان بن جائیں گے؟
آج اگر قندیل کا

گلا دبایا گیا ہے تو اُس سوچ کا گلا بھی دبایا جانا چاہیے جو فوزیہ کو قندیل بناتا ہے اور اُس مفتیوں کا عزتوں کا گلابھی دبنا چاہیے جو قندیل کی تضحیک کو اپنی تفریح سامان بناتے رہے ہیں

8 Comments

  1. a brutal reality and this is a wonderful piece u wrote . ur so young n mashallah u already have a voice that can change perspectives best of luck

  2. wow never knew this much about Qandeel! Great work keep it up. good vocabulary though

Comments are closed.