رکھوالی

رکھوالی

رکھوالی

افسانہ از، قمر سبزواری

سنو ذرا ایک ماچس تو دینا ۔۔۔۔۔

دیکھو بھئی ادھر بھی دیکھ لو ۔۔۔۔۔۔۔ توبہ ہے۔

چھوٹی موٹی چیز لینی ہو، تو پھر تو انتظار ہی کرتے رہو۔

کریانہ سٹور پر کھڑی چھوٹے قد اور کپڑوں سے باہر چھلکتے، ہانپتے وجود والی عترت دوپٹے کا پلو ٹھیک ہونے کے باوجود دوبارہ کھول کر ٹھیک طرح سے اوڑھتے ہوئے بُڑبُڑائی۔

یک دم وہ اچھل کر رہ گئی، کوئی نوکیلی شے اُس کے کولہے کے واہیات حد تک پیچھے نکلے ہوئے حصے پر زور سے چبھی تھی۔ وہ بھنا کر پیچھے مڑی، رشیداں ہاتھ میں بالوں کی سوئی دبائے اُس کے بالکل ساتھ پیچھے کھڑی اپنے دانت دکھا رہی تھی۔

کیوں ری، بد معاش یہ ماچس خریدنے کا کون سا وقت ہے۔ بچے ناشتہ کر کے سکولوں کالجوں کو چلے گئے اور خصم تیرا گھر پر ہے نہیں، تو نے اِس وقت کون سی آگ جلانی ہے۔ رشیداں نے اپنے مُنھ پر ترچھا ہاتھ رکھ کر عترت سے سرگوشی کرنے کی بھونڈی سی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

اِسی اثناء میں دُکان میں موجود بچے نے ترتو یعنی عترت کی طرف متوجہ ہو کر کہا،جی خالہ جی کیا چاہیے آپ کو، عترت نے روپے کاسکہ اُس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، ماچس چاہیے اور کیا میں تیرا سارا سٹور خریدنے آئی ہوں۔

بچے نے فوراٌ ماچس لا کر پکڑائی اور جان چھڑاتے ہوئے دوسرے گاہکوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔

عترت واپس مڑتے ہوئے رشیداں سے بولی تو نے کیا لینا ہے۔ نہیں کچھ نہیں میں نے کیا لینا، میں تو شاہدہ کی طرف جا رہی تھی تم پر نظر پڑی تو رُک گئی۔

اور تُو کدھر؟ رشیداں نے واپس ترتو سے سوال کیا،

جا تو میں بھی شاہدہ ہی کی طرف رہی تھی، لیکن دروازے سے نکلی تو پچھلی گلی کی وہ بال کٹی لڑکی نہیں ہے؟۔۔۔

ارے جس کی پچھلے مہینے شادی ہوئی تھی؟۔۔بڑی بن ٹھن کے نکلتی ہے۔۔۔ رشیداں شاید سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔

اری حرامزاد جو گلی میں بھی اپنے یار کا ہاتھ پکڑ کر چلتی ہے۔ عترت نے جنجھلا کر کہا۔۔۔

ہاں ہاں وہ چھوٹی چھوٹی موسمیوں والی۔ رشیداں نے لڑکی کا حوالہ پہچانتے ہوئے کہا۔۔

ہاں، ہاں وہی۔۔۔ وہ بڑی گھبرائی ہوئی سی جا رہی تھی میں اُس کے پیچھے چل پڑی سوچا پتا نہیں کیا بات ہے کچھ پتا تو چلے، لیکن جوان ٹانگیں زیادہ پھدکتی ہیں ناں، یہاں پہنچی تو وہ آگے نکل گئی میں نے سوچا اب آدھے رستے سے یک دم وآپس مڑنا اچھا نہیں لگے گا، ماچس خریدنے کا بہانہ کر لوں، باتیں کرتی کرتی دونوں شاہدہ کے گھر کی طرف جا رہی تھیں۔

اور سنا، کل بھاگی چلی آئی تھی شہدو کے گھر سے خصم کا فون سننے، کیا کچھ کہتا ہے۔ عترت نے بات چھیڑی۔ کہنا کیا ہے وہی حال احوال اور نصیحتیں۔ بچوں کی پڑھائی کا خیال رکھنا جا کے میری بہن کے گھر ہو آیا کرو، کیا کہیں گے اُس کے سسرالی کہ میکے میں کوئی ہے ہی نہیں خبر لینے والا۔ اب بھلا میں کیا پتا کروں اُس حرام زاد کا ہٹی کٹی ہے کھا کھا کے کپا ہو رہی ہے، ہر دوسرے روز خاوند کے ساتھ کہیں نہ کہیں سیر سپاٹے ہو رہے ہوتے ہیں۔ کبھی پکنک اور کبھی شاپنگ۔ رشیداں نے عجیب حسرت بھرے لہجے میں بات کا جواب یا شاید بھڑاس نکالی۔

اچھا چھوڑو عترت نے بھی اُس کے دِل کو مزید ٹھیس پہنچانا مناسب نہ سمجھا۔

 مجھ سے تو خصم کے فون کا پوچھتی ہے اپنی سناؤ کچھ سکون ملا، یا ابھی تک نیند کی گولیوں کے پتے کھا کر بھی نیند نہیں آتی۔ رشیداں نے بدلہ لیا

ترتو نے اُس کی طرف شکایت بھری نظروں سے دیکھا اور بولی تو میرا حال پوچھ رہی ہے یا میرا مذاق اُڑا رہی ہے۔

ابھی اُسے گئے ہوئے ہفتہ ہی تو گزرا ہے آ جائے گی نیند بھی آہستہ آہستہ اور سکون بھی۔

اپنا وقت یاد نہیں ہے جب تیرا فوج سے چھٹی آتا ہے تو کس طرح ہواؤں میں اُڑ رہی ہوتی ہے۔

جوڑے کے ساتھ کے جوتے پہنتی ہے اور ساری گلی میں تیری چوڑیوں کی چھن چھن مچی ہوتی ہے۔ وہ اُس کے خالی بازوؤں کو دیکھتے ہوئے بولی۔

ان دنوں تو نہ مہندی ہاتھوں سے اترتی ہے اور نہ دنداسہ تیرے مُنھ سے جدا ہوتا ہے۔ رشیداں کے کان عترت کی طرف لگے تھے لیکن دھیان گلی میں سے گزرنے والوں پر تھا کہ کوئ ان کی سرگوشیوں کو بھی سن تو نہیں رہا۔

مگر جب مہینہ لگا کر وآپس چلا گیا تو یاد ہے دس پندرہ دِن تک تو شہدو کے گھر میں بیٹھ کر بھی تجھ سے بات نہیں ہوتی تھی۔

گم صم اور بالکل نئی نئی بیوہ کی طرح لگتی تھی۔

تیرا تو پھر بھی، اپنے ملک میں تو ہے ناں میرا تو سات سمندر پار گیا ہوا ہے عترت نے سرد آہ بھر کر کہا۔۔۔

اب آئے گا بھی نصیبوں سے اور پتا نہیں اگلے پھیرے تک وہ بات رہتی بھی ہے یا نہیں پچاس کا تو ہو چکا ہے اب آئے گا تو اپنی لاش سنبھالے گا یا مجھے، وہ ایسے بولتی چلی گئی جیسے سارا غبار نکالنے کے لیے اُسے کسی کی تلاش تھی۔

اچھا چھوڑو ناں بہن، ہم دونوں ایک دوسرے کا کیا مذاق اُڑائیں گی، خود ایک چلتا پھرتا مذاق ہی تو ہیں، رشیداں نے بات بدل ڈالی۔

ارے یہ دیکھو یہ کون نکل رہا ہے شہدو کے گھر سے، بڑا جان جثے والا ہے بھئی جو کوئی بھی ہے، دیکھ ہمیں دیکھتے ہی ایک دم گلی مڑ گیا ہے، حرامی نے مُنھ بھی نہیں دیکھنے دیا اپنا۔ دونوں تیز تیز قدموں سے شاہدہ کے دروازے کی طرف بڑھنے لگیں۔ دونوں کے دِل میں ایک ہی بات تھی، آج تو باتوں کا مزا آئے گا، آج رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے شہدو کو۔ عترت نے شاہدہ کے دروازے پر واجبی سی دستک دی اور دونوں اندر داخل ہوگئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہدہ اپنی تینوں سہیلیوں عترت، رشیداں اور نرگس سے عمر میں چھوٹی تھی اور سب سے آخر میں اِن کی سہیلی بنی تھی۔ اُس کی عمر لگ بھگ چھتیس سال تھی، خاوند دو سال پہلے فوت ہو چکا تھا شاہدہ اپنی ساس، ایک نند جو کہ پاگل تھی اور دو بیٹوں کے ہمراہ رہتی تھی، ایک بیٹی بھی تھی جس کی شادی خاوند کی زندگی میں ہی کر چکی تھی۔ بڑا بیٹا جو قریب بیس سال کا تھا ایک آٹو ورکشاپ میں کام کرتا تھا، گو آمدن واجبی سی ہی تھی۔

اُس چھوٹا آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ساس جس کی دو آپریشنوں کے بعد نظر تقریباٌ ختم ہو چکی تھی چھت پر بنے ایک کمرے میں رہتی تھی، نند کبھی اوپر کبھی نیچے کبھی گلی میں اور کبھی تین تین دِن کمرے میں رہتی تھی۔

دونوں شاہدہ کے گھر داخل ہوئیں تو اندر نرگس کو بھی موجود پایا، نرگس کو دیکھ کر دونوں کو سخت جذباتی دھچکا لگا جیسے شاہدہ کی چوری کے امکانات بالکل معدوم ہو گئے تھے۔

عترت سے پھر بھی نہ رہا گیا آنکھ دبا کر شاہدہ سے بولی یہ کون تھا۔ ظالم ہمارا تو بتا دیتی اُسے۔ ہم سے بھی مُنھ چھپا کر نکل گیا۔

رشیداں، ترتو کی بات کاٹ کر بولی اے بہن جو بھی تھا مگر تھا کڑیل جوان یہ چھ فِٹ قد اور چوڑے چکلے شانے، کسی کو پھینچے تو ہڈیاں ہی توڑ دے اُسے کی۔

شاہدہ کی جگہ نرگس ہنس کر بولی، حرام زادیو تم دونوں کی ماں کا یار میٹر ریڈر تھا۔ بجلی کا میٹر دیکھنے آیا تھا کوئی اِس کا کنکشن لگانے نہیں آیا تھا۔ چارو ں ہنسنا شروع ہو گئیں۔

ترتو ہنستے ہنستے ہوئے قدرے سنجیدہ ہو کر بولی، مڑے شہدو ہنس تو ہم رہی ہیں مگر ہے سب کچھ تیرے ہاتھ میں، تو کیوں نہیں ہمت کرتی کیا باقی کی زندگی اِسی طرح لوگوں کے کپڑے سیتے گزارے گی ابھی تیری عمر ہی کیا ہے صرف پینتیس چھتیس سال۔

رشیداں اُس کے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی اور لگتی تو تُو پچیس چھبیس کی ہے۔

ہم تو مجبور ہیں نہ عمر رہی نہ کوئی حال اور او پر سے خاوند کا اسٹیکر بھی لگا ہوا ہے۔ عترت نے بات جاری رکھی، ہمارا تو کام ہی خاوندوں کے بچوں اور ماں بہن کی رکھوالی کرنا ہے، جب اپنی زندگیاں اپنی مرضی سے گزار کر یا اپنی ذمہ داریاں پوری کر کے وآپس آئے تو سب کچھ پھر اُن کا اور ہم فارغ۔

ویسے یہ پھا پھاں کٹنی کہتی ٹھیک ہے، شیداں نے ترتو کی طرف اشارہ کر کے پھر لقمہ دیا۔

ہے تو یہ رکھوالی ہی چاہے مکانوں کی کہہ لو بچوں کی کہہ لو یا نرگسو کی طرح نام لگ جانے کی کہہ لو جس کے بدلے ہمیں خاوندوں کی طرف سے کپڑا لتہ اور دو وقت کا کھانا مل جاتا ہے۔

ترتو نے پھر سلسلہ کلام شروع کیا، خاوندوں والی ہوتے ہوئے بھی بیوہ بلکہ ہر دو چار سال بعد شادی اور پھر بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں مگر تیرا سائیں تو رہا ہی نہیں تو کیوں زنجیریں پہن کر بیٹھ گئی ہے۔ شہدو، ترتو کی بات کاٹ کر غصے سے بولی۔گشتی، بدمعاش میرے بچوں کو زنجیریں کہتی ہے اور خود جن کی رکھوالی کر رہی ہے وہ کیا ہیں اور پھر ترتو کے سہم جانے پر خود ہی دھیمی پڑ کر لمبی سی سانس چھوڑتے ہوئے بولی، ویسے باجی کہتی تو تُو بھی ٹھیک ہی ہے، عمر اور کاشف دونوں ہمیشہ اپنی دادی کی طرف داری ہی کرتے ہیں اور عمر تو بات بات پر مجھے ٹوک بھی دیتا ہے جیسے باپ کے مرنے کے بعد اب وہ میرا خاوند ہے۔

کوئی گھر میں آ جائے یا کبھی مجھے گلی میں دیکھ لے تو ایسی خونخوار نظروں سے دیکھتا ہے کہ کبھی کبھی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہیں ہاتھ ہی نہ اٹھا دے، کبھی میں سوچتی ہوں جب یہ دونوں بھی لڑکیاں لے آئے اور اسلم کی امی بھی گزر گئی تو مجھے تو اپنی پاگل پھو پھو کے ساتھ ہی رکھیں گے۔ پھر خود ہی سر جھٹک کر بولی نہ اےباجی چھوڑ۔۔۔ اِس معصوم کاشف کو کس کے سہارے چھوڑوں اور اسلم نے مجھ سے اپنی پاگل بہن کا ساری عمر خیال رکھنے کا وعدہ بھی تو لیا تھا۔ ویسے بھی دوسری بار کا انجام یہ نرگسو ہمارے سامنے ہے اِس کا خاوند جب اِسے گاؤں سے پہلے والے کے گھر سے بھگا کر ہمارے محلے میں لایا تھا تو کیسے اِس کے پاؤں کے نیچے ہاتھ رکھتا تھا اور کور ٹ کچہری کا بھی سارا مسئلہ ہنسی خوشی نمٹاتا تھا اور اب چھ چھ مہینے اِس سے مُنھ ہی نہیں لگاتا کمینہ، نہ پرواہ کیا پہنتی ہے کہاں سے کھاتی ہے اور نہ فکر کے کہاں گئی ہے کہاں سے آئی ہے۔

نرگسو کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے اور اُس کے مُنھ سے جیسے بے خیالی میں نکلا اب نئی جو مل گئی ہے۔ اُس ماں کو چاٹے یا میرا خیال رکھے، مجھ موئی پر بھی عشق کا بھوت چڑھا تھا ناں اُس وقت، حرامی میرے خاوند کا نوکر تھا بس باتوں میں آگئی اور کچھ اُس کے ظلم سے جان چھڑانے کی جلدی بھی تھی۔ اب کہتا ہے، طلاق بھی نہیں دوں گا اِس کے ساتھ میرا نام لگا ہے، یہ میری عزت کی رکھوالی ہے بس بیٹھی رہے، اُس کی آنکھیں خشک تھیں مگر پھر بھی اُس نے ایسے صاف کیں جیسے نمی آ گئی ہو۔

پھر وہ گلاس اٹھا کر کولر کی طرف جاتے ہوئے بولی میرا بھی نام نرگسو ہے رکھوالی تو میں بھی خوب کر رہی ہوں۔ کیا یاد کرے گا، وہ اُدھر تو کوئی اور اِدھر۔ عترت، پاس سے گزرتی ہوئی نرگس کے کولہوں پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی ست خصمی تیری دکان میں ابھی سامان ہے ناں بیچنے کے لیے ہم تو اِس سے بھی رہیں۔

رشیداں جو کافی دیر سے خاموش بیٹھی تھی سلائی مشین کے اندر باہر ہوتے ہوئے گز  پر نظریں گاڑھے بے خیالی میں ایک عجیب حسرت بھرے لہجے میں بولی ہماری بھی کتنی عجیب زندگی ہے۔ عام عورتیں جس کام کی زیادتی کے لیے اپنے شوہروں کی شاکی رہتی ہیں یا جس کے زور پر ناز نخرے اٹھواتی ہیں ہم سہاگنیں ہوتے ہوئے بھی اُس کے لیے ترستی ہیں۔ شہدو تُو تو دو سال ہوئے بیوہ ہوئی ہے مگر ہمیں تو اتنے سال ہو گئے کہ ہمیں یاد بھی نہیں۔ تجھے تو چل صبر آ گیا ہو گا مگر ہمارے بارے میں سوچ، نہ کوئی ناز اٹھانے والا نہ منانے والا، ساون کے دِنوں میں، جاڑے کی راتوں میں عیدوں شب براتوں پہ ہم بیوہ ہوتی ہیں اور جب کچھ بھی نہیں ہوتا یا تھوڑا صبر آ بھی جاتا ہے تو ہم سہاگنیں بن جاتی ہیں۔ ہمیں یقین آنے تک ہم ایک بار پھر بیوہ ہو چکی ہوتی ہیں۔ نرگسو نے پانی کا گلاس مُنھ سے ہٹا کر گود میں رکھ لیا اور دونوں ہاتھوں سے اُسے دبانے لگی۔ عترت کی نگاہیں رشیداں کے متحرک لبوں پر ٹک سی گئیں اور شاہدہ کے ہاتھ میں سِلتی ہوئی شلوار کا سارا کپڑا اکٹھا ہو گیا۔

رشیداں کی بات ابھی جاری تھی۔ مجھے تو کبھی کبھی اپنے آپ سے اور تم لوگوں سے بھی نفرت سی ہونے لگتی ہے۔ ہم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہیں۔ ہم اپنے بیٹوں کی عمر کے لڑکے کو بھی دیکھ کر کمینی سوچوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ کبھی تو ہم سلائی مشین کے چلتے ہوئے گز کو دیکھ کر، سوئی میں دھاگہ ڈالتے ہوئے، آٹا گوندھتے ہوئے، کرسی کے پائے دھوتے ہوئے، دراز بند کرتے ہوئے یا ہنڈیا ہلاتے ہوئے بھی سانسیں بے ترتیب کر کے خیالوں کی دنیا میں گم ہو جاتی ہیں اور کبھی برف کی سِل کی طرح ہو جاتی ہیں، ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ ہم عورتیں ہیں۔ میں سوچوں تو خیالوں ہی میں اپنے آپ پر تھوکنے کا دِل کرتا ہے کہ ہم کسی عورت کی پٹائی کی خبر سُن کر، کسی کی طلاق کا پتا چلا کر یا کسی کنواری کا کوئی چکر پکڑ کر اِس لیے خوش ہوتی ہیں کہ ہم ہر عورت سے جلتی ہیں، ہم کسی کی خوشی، کسی کا نہانا برداشت ہی نہیں کر سکتیں۔ نرگسو کی آنکھوں میں نمی اب واضح دِکھائی دے رہی تھی۔

یک دم شاہدہ اٹھی اور رشیداں کے کاندھے پر چٹکی کاٹتے ہوئے بولی، بد معاش تو کسی سکول میں استانی لگ جا۔ بند کر اپنی بکواس میں چائے بنا کر لاتی ہوں تو ذرا اِس شلوار کو کھڑا کر دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عترت کو آہستہ آہستہ دوبارہ نیند آنے لگی، ہاں گولیاں کھا نے کی وجہ سے اُس کا رنگ کچھ مزید پیلا پڑ گیا تھا اور پیٹ بھی پہلے سے زیادہ پھول گیا تھا۔ ایک معمولی سی تبدیلی ضرور آئی تھی کہ عترت جب بھی گلی محلے کے بچوں کو کھیلتا دیکھتی تو انھیں گھر میں بلا لیتی اور ٹی وی لگا کر خود بھی اُن کے ساتھ بیڈ پر نیم دراز ہو کر دیکھتی رہتی، کبھی کبھی وہ کسی لڑکے کو بہت پیار کرتی اور اُسے بہت دیر تک گود میں اچھالتی رہتی یا پاس ہی لٹا لیتی۔ نرگسو کی نند کچھ دن کے لیے اپنے بھائی کے گھر رہنے کے لیے آئی ہوئی تھی اس لیے وہ اپنی ملاقاتیں اب شہدو کے گھر میں کرنے لگی تھی ایک دو بار شہدو نے انکار کیا کہ میرے بیٹے کو بھنک بھی پڑ گئی تو کہرام مچ جائے گا اور ویسے یہ تیرے والا لڑکا ہے بھی چھوکرا سا خود ہی اپنے دوستوں کے سامنے کہہ دے گا اور بات پورے محلے میں پھیل جائے گی۔ مگر پھر نرگسو کی منت سماجت کی وجہ سے اس شرط پہ مان گئی کہ تُو ہفتے میں ایک آدھ بار میرے بیٹے کے ورکشاپ جانے کے کم از کم دو گھنٹوں بعد اور عترت، رشیداں کے چکر لگانے سے پہلے کے ایک گھنٹے میں ہی آ سکتی ہے، بیٹھک میں بیٹھ جایا کر، وہ وہیں باہر کے دروازے سے آئے اور ادھر سے ہی وآپس نکل جائے تب تو کنڈی چڑھا کر اندر کی طرف سے دروازہ کھول لیا کر۔

شاہدہ نے اپنی بیٹھک کی کھڑکی میں بجلی کے پلگ کے لیے ایک سوراخ بنا دیا تھا جب نرگس اندر ہوتی تو شاہدہ بھی کھڑکی سے ہی جڑی رہتی اور پھر دوپہر کا کھانا بنانے سے پہلے نہا لیتی۔

دو تین مہینوں سے محلے میں کوئی نئی خبر نہیں تھی۔ نہ کوئی سرگوشی نہ کسی کے پیچھے چل کر سٹور سے ماچس خریدنا۔ نرگسو کی نئی ملاقاتوں کا راز ابھی اُس کے اور شاہدہ کے درمیان ہی تھا شاید اِس لیے کہ دونوں کا کام چل رہا تھا چاہے نوعیت الگ الگ تھی۔ رشیداں کے خاوند کو اگلے مہینے چھٹی ملنی تھی وہ ہر روز کسی نہ کسی تیاری کا بتاتی جِسے سن سن کر باقی تینوں کے اب کان پک چکے تھے۔ عترت کو کبھی کبھی شک کا دورہ پڑتا کہ شاید اُس کے خاوند نے سعودیہ میں بھی شادی کر رکھی ہے مگر اب اُس نے اِس سلسلے میں زیادہ پریشان ہونا چھوڑ دیا تھا اُسے معلوم تھا کہ اگر کی ہو ئی بھی ہے تو اب وہ عمر کے اِس حصے میں ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے وآپس میرے پاس ہی آئے گا۔

ایک دِن نرگسو اپنے اُسی کام کے سلسلے میں شاہدہ کے گھر کی طرف جا رہی تھی ابھی کچھ وقت پڑا تھا اِس لیے وہ بڑے سکون سے تانک جھانک کرتی گلی کا موڑ مڑی۔ شاہدہ کے گھر کے باہر کچھ لوگ کھڑے تھے۔ ساتھ والے گھروں کی عورتیں اندر داخل ہو رہی تھیں اُس نے دیکھا کہ عترت اور رشیداں بھی چادریں لپیٹے سہمی ہوئی سی چلی آ رہی ہیں۔ تینوں اکٹھی ہی دروازے کے پاس پہنچیں۔ بجائے کچھ بولنے کے عترت اور رشیداں دونوں نے نرگسو کی آنکھوں میں دیکھا اور گھر کے اندر داخل ہو گئیں۔

صحن میں چارپائی پر سفید چادر بچھی ہوئی تھی جس پر شاہدہ کی لاش پڑی تھی۔ اُس کا گلا بڑی بے دردی سے کاٹ دیا گیا تھا۔ شاہدہ کی بوڑھی ساس ایک کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے نیم دراز پڑی تھی جبکہ چھوٹا بیٹا جس کو ابھی کوئی سکول سے لایا تھا سکول یونیفارم میں ہی ماں کے پاؤں کے پاس زمین پر سہما بیٹھا تھا۔ ایک بوڑھی عورت نرگسو کے کان کے پاس مُنھ کر کے بولی شاہدہ کے بڑے بیٹے نے اُسے ذبح کر دیا ہے۔ کام پر گیا اور پرس گھر بھول جانے کی وجہ سے راستے سے ہی وآپس آ گیا تھا۔ شاہدہ کسی کے ساتھ بیٹھک میں تھی۔ سارے جسم پر چھریوں کے نشان ہیں۔ ہاتھ تو بالکل بوٹی بوٹی ہو رہے ہیں۔ شاید چُھریوں کے وار روکتی رہی بیچاری۔

نرگسو گھر والوں کو بلانے کے لیے وآپس مُڑی، بیٹھک کے دروازے کے پاس بجلی کے میٹر کا ریڈنگ کارڈ پڑا تھا جس پر اِس مہینے چار بار ریڈنگ درج کی گئی تھی۔