قندیل مری ہے یا ایک عورت قتل ہوئی ہے؟

(رابی وحید)

چوسر کی ’’کینٹر بری ٹیلز‘‘میں Wife of bath ایک ایسی عورت کا کردار ہے جو بہت بولڈ ہے اور اُس کی کئی شادیاں ہیں۔ یہ مڈل ٹائم کی نمائندہ عورت کی کہانی ہے جس کے بہت سے لورز ہیں جو گھڑ سواری کرتی ہے ، زیارتوں پہ جاتی ہے۔ یہ ایسی لائینیں ہیں جو انگریزی مڈل ایجز کے ادب کا اہم حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔ اب آئیے اپنے سماج کی طرف ۔ہمارے سماج میں ایسی عورتوں کے کردار Talesنہیں کہلا سکتیں۔ ہمارے ہاں ایسے کردار عبرت ناک کہانیاں بنا دی جاتی ہیں۔ جنھیں زمانہ غیرت کے ناموں سے یاد کرتا ہے۔قندیل بلوچ مری نہیں مار دی گئی۔ کیا قندیل بلوچ مری ہے یا پاکستانی سماج میں اُکھڑے سانس لیتی عورت قتل ہوئی ہے؟اس طرح کی قندیلیں تو روز مر جاتی ہیں مگر یہ ایک عورت کا قتل تھا وہ عورت جسے مرد نے اُس کی پہچان چھین کے اپنی پہچان دے رکھی تھی۔عورت  پہچان بنانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ قندیل بن جاتی ہے یا ایسی کردار جسے مرد مسترد کر دیتے ہیں۔ قندیل کا کردار ایک قبیح کردار تھا جو اُس نے معاشرے سے چھین کے بنایا تھا، میں اُس کردار کی مذمت کرتی رہی ہوں مگر کیا یہ کردار (غیرت کے نام پہ مار دی جانے والی عورت کا کردار) اُسے دینا چاہیے تھا۔ یہ کردار بانٹنے والا کون ہے؟
معاشرہ اس قدر بے حس ہو گیا ہے کہ عورت کو اُس کے عورت پن سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اُس کی زندگی سے بھی۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے مایا اینجلو کی نظمیں ترجمہ کیں تو مجھے قندیل کے قتل پہ اُس عورت کا تصور یاد آ گیا جو وہ امریکہ میں بیٹھی عورت کے لیے تصور بُن رہی تھی۔ آپ دیکھیے کہ عورت خواہ امریکہ میں ہو یا پاکستان میں عورت ہر جگہ تشدد اور اذیت کا شکار ہے۔نظم پڑھیے:

 

 

میں پھر اٹھوں گی

تم تاریخ میں میراذکر کر سکتے ہو
اپنے تلخ اور من گھڑت جھوٹے انداز میں
تم مجھے مٹی میں رَول سکتے ہو
لیکن اسی مٹی سے میں ایک بار پھر اٹھوں گی

کیا میری حد سے بڑھی پُر اعتمادی تمھیں پریشان کرتی ہے؟
تم کیوں مایوسی سے بھرے ہوئے ہو!
کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں
کہ میں یوں چلتی ہوں جیسے میں نے
تیل کے کنویں حاصل کر لیے ہوں
جو میرے رہائشی کمرے سے نکل رہے ہو

بالکل چاند اور سورج کی طرح
لہروں کے یقین کے ساتھ
بالکل اُن امیدوں کی طرح
جو بہت اونچی اڑانیں بھر رہی ہیں
میں بھی اڑان بھروں گی

کیا تم مجھے شکست خوردہ دیکھنا چاہتے تھے؟
خمیدہ سر اورجھکی آنکھوں کے ساتھ
آنسوؤں کے قطروں کی طرح ، بے حوصلہ کاندھوں کے ساتھ
اپنی روح میں بھری ہوئی چیخوں سے کمزور ہوتا ہُوا

کیا میرا پُر اعتماد رویہ تمھیں غصہ دلاتا ہے؟
کیا یہ تمھارے لیے ایک انتباہ نہیں
کیوں کہ میں اس طرح ہنستی ہوں
جیسے میں نے سونے کی کانیں حاصل کر لی ہوں
جو میرے(گھر کے) پچھلے صحن میں کھودی جا رہی ہیں

تم چاہو تو مجھے اپنے لفظوں (کی کرواہٹ) سے مار دو
تم مجھے اپنی نظروں سے زخمی کر دو
تم مجھے اپنی نفرت سے قتل کر دو
لیکن اس سب کے باوجودمیں ہوا کی طرح اڑان بھروں گی

کیاتم میری جنسی خواہش سے مضطرب ہوتے ہو؟
کیا یہ بات تمھارے لیے باعثِ حیرت ہے؟
کہ میں اس طرح رقص کرتی ہوں جیسے میں نے ہیرے جواہرات پا لیے ہوں
عین اُس مقام پر جہاں میرا چست پاجامہ(آپس میں) ملتا ہے

میں تاریخ کے شرمناک گھروندوں سے نکلتی ہوں
اُس ماضی میں سے سفر شروع کرتی ہوں
جس کی جڑیں دُکھ ، درد اور تکلیف میں دبی ہوئی ہیں
میں اُچھلتا ، ٹھاٹھیں مارتا ہُوا، وسیع و عریض ایک تاریک سمندر ہوں
جو اپنی لہروں میں بہتا جا رہا ہے

خوف اور دہشت کی سیاہ راتوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے
میں اڑان بھروں گی
دن کی پہلی کرن بن کر
جو حیران کن حد تک واضح اور چمک دار ہوتی ہے
میں اٹھوں گی
وہ تحائف لے کر جو میرے آباؤ اجداد نے دیے
میں ایک غلام کی اُمید اور اُس کا خواب ہوں
میں اڑان بھروں گی
میں اٹھوں گی
میں اٹھوں گی

(مایا اینجلو ,انگریزی سے ترجمہ: رابی وحید)