ضعف اور نا توانی کی حالت کی تفہیم کی کوششیں

Naseer Ahmed
نصیر احمد

ضعف اور نا توانی کی حالت کی تفہیم کی کوششیں: دریاب ضعیفان را

از، نصیر احمد 

ضعف اور نا توانی ایک انسانی حالت ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ چاہے کَتھائیں گھڑیں، یا ضعف اور نا توانی کے استحصال پر سلطنتیں کھڑی کر لیں۔

سلطنتوں کے فاتحین کو بھی ضعف اور نا توانی کا شکار ہو جاتے ہیں، افسانے کا سِحَر بھی ٹوٹ جاتا ہے اور سلطنتیں بھی خستہ اور شکستہ ہو جاتی ہیں۔

دوسری طرف ضعف اور نا توانی کی حالت کی تفہیم کی کوششیں ہیں۔ تفہیم کی یہ کوششیں انسانی برابری کی طرف لے جاتی ہیں۔ کم از کم ہم دردی تو پیدا ہوہی جاتی ہے اور اس کی بنیاد بھی اسی طرح کی تفہیم پر ہوتی ہے کہ جو ذرا زیادہ ضعیف اور نا توان ہے۔

ہماری طرح کا انسان ہی ہے بیماری، تنہائی، جھگڑے اور خوف، اور محبت کے حوالے سےبہت زیادہ حسی تجربات موجود ہوتے ہیں جو ہم دردی کی طرف رہ نمائی کرتے ہیں۔

جیرمی بَینٹ-ھَم تھے کہ جان سٹُؤرٹ مِل جنھوں نے جانوروں کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ سوال یہ نہیں ہے کہ وہ ذہین و فہیم ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اسے درد ہوتا ہے؟

تو اس طرح کے سوالات جمہوریت، شہریت اور انسانیت کے ماڈل کی طرف لے گئے جس کے نتیجے میں ضعف اور نا توانی کی بَہ جائے ضعف اور نا توانی کا استحصال بدی قرار دے دیا گیا۔ استحصال کی روک تھام کے لیے کچھ اوصاف کو انسانی تعلیم و تربیت کا لازمی حصہ بنا دیا گیا۔

اور ایک ایسی فرد کا ماڈل بنا جسے فکر و فیصلہ سے متعلق انسانی صلاحیتوں پر اعتماد ہے۔ فکر و فیصلہ میں بہتری کے لیے خرد اور سائنسی طریقہ کار پر اعتماد ہے۔

فکر و فیصلہ، خِرد اور سائنسی طریقۂِ کار کے مقاصد انسانی زندگی کے معیار میں بہتری کے ارد گرد یہ فرد ترتیب دیتی ہے۔

اور ان مقاصد کے لیے ایسی فرد ایک جمہوری اور اخلاقی نظام ترتیب دینے کے لیے کوشش کرتی ہے جس میں

اس فرد اور دیگر انسانوں کے حقوق ہیں۔

ان حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں جن کے احترام کے لیے معاشرے میں ان حقوق کی تفہیم کے لیے یہ فرد کوشش کرتی ہے۔

ضعف اور نا توانی کے منفی اثرات میں کمی لانے کے لیے تحفظ کے نظام کے قیام اور اس نظام کی خدمات کی فعّالی اور بہتر کردار کے لیے یہ فرد کوشاں رہتی ہے۔

اور یہ فرد زندگی کے بارے میں ایسے تصورات قائم کرتی ہے اور ان پر عمل پیرا ہوتی ہے جن میں ضُعف اور نا توانی سے تحفظ بنیادی انسانی، شہری اور جمہوری فرض بن جاتا ہے۔

یہ فرد ضعف اور نا توانی کے استحصال میں کمی لانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔

جب معاشرے میں ایسے بہت سارے افراد ہو جاتے ہیں تو ضعف اور نا توانی کے منفی اثرات میں کمی آ جاتی ہے۔

معاشرے اقلیتوں، معذوروں، اور بچوں کے تحفظ کے لیے پالیسیاں بناتے ہیں، ادارے قائم کرتے ہیں، قوانین ترتیب دیتے ہیں اور انسانی برابری اور انسانی ہم دردی کے فروغ کے لیے ایک ثقافت کا فروغ دیتے ہیں جس میں ضعف اور نا توانی کے استحصال کو واقعی بدی سمجھا جاتا ہے؛ اور اس استحصال کی روک تھام کو فرض سمجھا جاتا ہے۔

اس طرح کی کوششوں میں بہتری لانے کے لیے انسانی صلاحیتوں اور وسائل کا جتنا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اتنی ہی ضعف اور نا توانی میں کمی آتی ہے۔

حیوانوں میں انسانی بچے کو کافی ضیعف اور نا تواں سمجھا جاتا ہے۔ اور بچوں سے سلوک کے حوالے سے معاشرے کی تفہیم ہو جاتی ہے کہ معاشرہ کیسا ہے۔

یونیسف کے مطابق سویڈن کے بچوں والے کنبوں کے لیے کیش اور سہولتوں کے حوالے سے اخراجات سویڈن کے پورے حکومتی اخراجات کا بائیس فی صد ہیں۔

ایک اور سروے کے مطابق بچوں کی پرورش کے لیے بہترین ملکوں میں سویڈن کا دوسرا نمبر ہے۔

اسی طرح ڈنمارک کے ایسے اخراجات مکمل اخراجات کا انیس فی صد ہیں اور بچوں کی پرورش کے سروے میں ڈنمارک کو بہترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ (یونیسف کے اعداد و شمار سِنہ انیس سو پچاسی سے سنہ دو ہزار تک ہیں)۔

یہ جمہوری ماڈل سے وابستگی کا ایک مسلسل سفر ہے جس کے نتائج صلاحیت اور وسائل کے استعمال کے اضافے سے بہتر ہوتے جاتے ہیں۔ اس بہتری کے پیچھے حکومت اور معاشرہ اور ان کی باہمی کوششوں سے دی گئی ہوئی تعلیم و تربیت ہے۔

سویڈن میں بھی بچوں کا استحصال افراد کرتے ہیں، لیکن پھر بھی شہریوں اور معاشرے کی طرف سے اس استحصال میں کمی لانے کی ایک کوشش تو موجود ہے جو باقی دنیا سے بہتر ہے۔

اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے ایسے معاشرے کے تربیت یافتہ افراد آٹھ سالہ بچوں کو اپنا ملازم نہیں رکھیں گے اور چھوٹی سی غلطی پرپیٹ پیٹ کر ان بچوں کی جان نہیں لیں گے، بل کہ ان کی کوشش ہو گی کہ ان کے معاشرے میں ایسے گھناؤنے واقعات نہ ہوں اور بچوں پر ظلم و ستم کرنے والوں کو قوانین کے مطابق سزا بھی ملے اور ضعف اور نا توانی کے استحصال کے خلاف حکومت اور معاشرہ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔

ہمارے ہاں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے جس تفہیم، تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے اس کی جانب حکومت اور معاشرہ بڑھنے سے انکاری ہے۔

جب فکر سے شدید نفرت کا فلسفہ سمجھا جائے اور فرد کے فیصلے کی صلاحیت کو تسلیم ہی نہ کیا جائے اور خرد اور سائنسی طریقۂِ کار کے ضعف اور نا توانی پر مقالے لکھے جائیں جن میں دلائل اور شواہد کی کیس کے ثابت کرنے کے لیے ضرورت ہی نہ سمجھی جائے۔

بہتر زندگی کو عقل دشمنی سے منسلک کر دیا جائے، اور ایسے سمجھا جائے کہ ضعف اور نا توانی کے استحصال کے بَغیر دولت، شہرت اور طاقت تک رسائی اور ان کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔

قوانین کے احترام کو اپنی شان کے خلاف سمجھا جائے، ہم دردی اور مہربانی کو ضعف اور نا توانی سمجھا جائے تو معاشرے میں ضعف اور نا توانی بڑھتی جائے گی اور بچوں کے حقوق کا تحفظ نہیں ہو پائے گا۔ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے نہ تو صلاحیتیں استعمال کی جائیں گی اور نہ وسائل خرچ کیے جائیں گے۔

ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہوتا ہی رہے گا جب تک اس تفہیم کی طرف رخ نہیں ہو گا جس کے نتیجے میں ضعف اور نا توانی کے استحصال میں کمی آتی ہے۔ تفہیم کے بَغیر خالی خان جیسی ہم دردی تو خالی ہی ہوتی ہے۔

گریستن و گپ زدن و نس کردن و خواب کردن۔