چاند، سورج اور ستاروں کی گھڑیاں

Yasser Chattha

چاند، سورج اور ستاروں کی گھڑیاں

از، یاسر چٹھہ 

زمان و مکان کے تصوّرات پر تین مختلف وقتوں میں رقم ہوئے مختلف مختصر مضامین۔

1۔ مجھے چاند، سورج اور ستاروں کی گھڑیوں پر چلنا ہے؟

ابھی اپنے گاؤں سے عید کا پہلا دن گزار کے واپس آیا ہوں۔

بہت لطف آیا، لیکن گاؤں جا کر بھی اب گاؤں نہیں ملتا۔ یہ ظالم بھی پکی اینٹوں اور ایئر کنڈیشنروں کی زَد میں آ گیا ہے۔ گفتگو کے موضوعات بھی شہر زدہ ہوگئے ہیں۔ سیاست، حکومت، قانون۔۔۔!

اپنے ابا جی سے سے پرانی کہانیاں سننا شروع کیں کہ گاؤں کے امام مسجد والوں خاندان سے تعلق رکھنے والے میاں فضل کریم نے حکمت کیسے سیکھی؟ کہاں سے سیکھی، اور بعد ازاں، ان کی اولاد نے خاندانی پیشہ امام مسجد کیوں چھوڑا۔۔۔ [کہانیاں چلتی رہتی تھیں…] اس وقت کی کہانیاں جب جب وقت سوئیوں کے پیمائشی آلات کی زَد میں نہیں آیا تھا۔

اچانک کسی نے آکر موضوع، انہی موضوعات پر چلا دیا، جن موضوعات کو شہر میں بیٹھ کر مختلف حسابی زاویوں سے دیکھتے، ناپتے ہیں، اور ناکام ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی اعتماد اکمل کے زعم میں رہتے ہیں۔

میں نے پچھلی سطروں میں جو لطف کا لفظ کہا، اس لطف کی ماہیت کیا ہے؟ پل جھپکنے کا لطف، بجلی کے کوندنے کا سا جو ایک لطف ہوتا ہے، اس کی مثال کا لطف؟ یا پھر ایک بھلے خواب میں سے اچانک جاگ جانے سے پہلے کا لطف؟

شہر میں تو وقت کی طینت کب کی بدل چکی تھی۔ وقت اب گاؤں میں بھی نہیں تھمتا۔

افسوس کہ وہاں کے شب و روز بھی اب گھنٹوں، منٹوں اور سیکنڈوں کی اکائیوں میں نپتے اور تلتے ہیں۔

کیا یہ ہمیں کلائی گھڑی کی تمنا پالنے کی سزا ہے؟ یا کچھ اور؟

اتنے سوال ہیں کہ جواب کی کوشش پر مزید سوال سامنے سینہ تان کھڑے ہوتے ہیں۔

کیا ہم پھر سے چاند، ستاروں اور سورج کے ساتھ ڈھلتے پہروں کے کلاک اپنے گلے میں ڈال سکیں گے؟

2۔ پانی پُل کے نیچے نہیں ٹھہرتا، اور نہ اس پر بَنا عکس 

اچھا ادب آزادی کا احساس دیتا ہے۔

پر کس سے آزادی؟

اپنی پیدائش، ماحول اور جغرافیے کے حادثے کے نتیجے میں ملنے والے عقائد و ایمان، تعصبات و شاونیت سے۔

جب بھی لگے کہ آپ کا مذہب، آپ کی زبان، آپ کا وطن، آپ کا علاقہ، آپ کے تاریخی کردار اعلیٰ و اُولیٰ ہیں تو کچھ لمحے توقف کیجیے۔ یہ نقص ہو سکتا ہے۔ خلل ہو سکتا ہے۔

اچھا تو پھر؟


گھڑیاں، وقت اور ذہنی وقت از، یاسر چٹھہ


 ایک آدھ زبان اپنی مادری زبان، یا آپ پر سیاسی طاقتوں کی جانب سے  آپ پر لاد دی گئی زبان کے علاوہ، سیکھیے۔

زبانِ دیگر کی تحریروں کو پڑھیے، دیگر اقوام و انسانی گروہوں کے نظامِ عقائد و ایمان اور شعور تاریخ و زماں کو پڑھیے۔ پڑھیے جب بھی، بس ایسے پڑھیے کے جیسے آپ اس متن کا ایک ایک لفظ لکھ رہے ہیں۔ اسے سمجھنے کے اس طور سے کوشش کیجیے۔

امید ہے کہ کسی قسم کی مخصوص اور چنیدہ فرد، قبیلہ، برادری، قوم و ملت ہونے کی تیز آتش ہلکی ہلکی آنچ پر آ جائے گی۔

اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو۔۔۔؟

تو پھر اپنے زُعمِ کاملیت سمیت کسی دریا کے پل پر کھڑے ہوئیے۔ کچھ جھک جانے میں بھی کوئی خاص مضائقہ نہیں۔ اب نیچے پانی میں اپنا سایہ تلاش کیجیے۔

تو؟

اور اس سایے کو دیکھیے کہ یہ ساکت رہتا ہے، یا کہ پانی۔۔۔۔!

3۔ وقت بورخیس ہے

“Time is the substance I am made of. Time is a river which sweeps along, but I am the river; it is a tiger which destroys me, but I am the tiger; it is a fire which consumes me, but I am the fire. The word unfortunately is real; I unfortunately am Borges.”

from, A New Refutation of Time, essay by Borges

“وقت وہ شے ہے جس سے میں بنا ہوں۔ وقت وہ دریا ہے جو رینگتا جاتا ہے، پر میں تو یہی دریا ہوں۔ یہ ایک شیر ہے جو میری مار دھاڑ پر پر تُلا ہے، لیکن میں خود بھی تو یہی شیر ہوں؛ وقت وہ آگ ہے جو مجھے بھسم کرنے کی قسم کھائے بیٹھی ہے، لیکن مجھے کیا میں خود بھی تو وہی آگ ہوں۔ چاہوں نا چاہوں، دنیا ایک حقیقت ہے؛ میں شُومئیِ قسمت سے بورخیس ہوں۔”

بورخیس کے مضمون، وقت کی ایک نئی تردید کے ایک جزو سے اردو ترجمہ۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔