پاکستانی سیاسیات ، سماجیات، روحانیات و ادبیات کی کچھ تصویریں

ہم سارے رو ہی رہے ہیں

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ

پاکستانی سیاسیات، سماجیات، روحانیات و ادبیات کی کچھ تصویریں : ہم سارے رو ہی رہے ہیں

یاسر چٹھہ

مولانا صاحب فرماتے ہیں ایمان کی لذت جاتی رہی، خالص ایمان و صلوہ مفقود ہوتی جا رہی ہے؛ مساجد ویران ہوتی جا رہی ہیں۔ مدرسوں میں پہلا سا ذوقِ علم و ہنر نہیں نظر آتا۔

روشن خیال احباب کہتے ہیں ملک میں مذہبی شدت پسندی بڑھتی جا رہی ہے۔ مذہبی جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ فضا میں گھٹن روز افزوں اوپر سے اوپر جا رہی ہے۔

سفید ریش عینک پہنے بزرگ کہتے ہیں قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ اچھے وقت قصہ پارینہ ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ خالص میسر نہیں: نا پانی، نا دودھ نا سبزی نا گوشت نا پھل۔

سال گزیدہ صحافی کہتے ہیں خالص صحافت مرتی جارہی ہے۔ کچے بچوں کے ہاتھوں باغِ صحافت کے پھل ٹکتے جا رہے ہیں۔

جج صاحب کہتے ہیں آئین کی تقدیس نہیں رہی (ویسے آئینہ اور ڈکشنری نہیں دیکھتے کیا؟) خود آئین کی محافظت سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنے مطالب کی بارآوری کے لیے نظیروں اور حوالہ جات اولیں سے پہلو تہی فرماتے ہیں۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں پارلیمان برتر کہلاتی تھی۔

ہم نے کھینچتے کھنچاتے عدالت و آئین کی برتری کا غوغا، اپنی بڑھیا کوالٹی کی مڈل کلاس کا قومی ترانہ بنا ڈالا۔ پنجابی بڑی سیدھی زبان ہے؛ ایک محاورہ ہے کہ ماں دی سوکن تے دھی دی سہیلی؛ پارلیمان تو ماں ہوتی ہے، اس کے بطن سے نکلنے والی بیٹیاں اس کی بہو جیسی ہوتی گئیں۔ افسوس!

الغرض پارلیمان سے آئین تک رسہ کھینچا گیا۔ اب آئین کی سوئی کے نکوں سے اپنے اختیارات کے سرنگیں کھود لی گئیں۔ اب آئین و قانون بے چارہ  رنگ برنگی ڈکشنریوں کے سامنے آنسو بہاتا نظر آتا ہے۔ معقولات پر منحصر ادارے جنرل مشرف صاحب کی کاکولیات کی زبان کو اپنے عمل سے نشان منزل بناتے دکھائی دیتے ہیں۔

خدا میرے ملک و آئین کی حفاظت فرمائے؛ کہ ہم شہری نالائق۔ مختصرا آئین ہم سے ناراض، آئین کے محافظوں سے دل شکستہ۔ آگے بڑھتے ہیں۔

میرے ایک ہمکار آج کہہ رہے تھے ہمارے پاس اتنے زیادہ نمبر لے کر آنے والے بچے مزید تعلیم کے لیے داخلہ لیتے ہیں، پر اپنے کسی چھوٹے موٹے کام کے لیے درخواست تک لکھتے ان کے ہاتھ پھولنے لگتے ہیں۔ (ہم چپ رہے، یہ ہر گز زبان پر نا لائے کہ پروفیسر صاحب آپ خود کیا لکھ لیتے ہیں؟)

سیاسی جماعتوں میں سے جو نام نہاد قسم کی با اختیار حکمرانی کر رہے ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ حزبِ کنٹینر حکومتی دودھ پر آنکھیں رکھے کاکُولی بڑے میاؤں کے ساتھ مصروفِ رسہ گیری ہیں۔ لیکن خود حزبِ کنٹینر بن کر صادق اور امین کی شق کو الہامی شق سمجھ لیتے ہیں۔

کاکُولیات کے ہاتھوں کسی کی ہوتی سنگ پاشی پر ایسے تالیاں پیٹتے ہیں کہ جیسے ان کے وقت پر کاکُولی بزرجمہر معقول ہو جائیں گے۔ حزب بے نام اقتدار ناخوش، حزب کنٹینر ناراض۔

چھوٹے صوبوں والے بڑے صوبے سے ناراض کہ بڑا صوبہ سب لیتا اور کھاتا جا رہا ہے۔ لیکن چھوٹے صوبوں کی اشرافیہ کی توند افزائش میں برق رفتار ہے۔ بڑے صوبے کے دور سے دیکھنے والے سرکاری دانشور و متوسط طبقہ چھوٹے صوبوں کی اشرافیہ کو دیکھ کر سب مردودوں کو بھی انہی کی شبیہ پر محمول کرنے پر بضد۔

بڑے صوبوں کے خرد مند اپنے طور پر دل گرفتہ کے چند لوگوں کے ہاتھوں طاقت کے ارتکاز سے ہمارے دیس کو گالی کیوں؟ کہ ہم بڑے بھائی بننے کے گھن چکر میں اپنی ثقافت اور زبان کو لنڈے کا مال کیوں بناتے جائیں۔ پاکستان بنے تو تن کٹیں ہمارے اور عزت پامال ہوں ہماری، لیکن نا اپنی ثقافت و زبان اور رسم الخط محفوظ، نا اپنے ہاتھ میں اختیار۔ چھوٹے صوبوں کے باسی ناراض، بڑے صوبے کے اہلِ فکر کی دل کی دنیا کا انہدام۔

وہ ادیب جو اپنے لکھے کو خود بھی دوبارہ نا پڑھتا ہو کہ شاید اسے اپنے آپ کا قد ماپنے کا موقع دستیاب ہو، (کہ وہ کس قدر حضرت ابوجہل ہے،) وہ بھی گلہ کرتا ہے، ناراض رہتا ہے کہ اس کے بزعمِ خود شاہکار اور سنجیدہ متن کے بطن سے بریکنگ نیوز کیوں نہیں نکلتی، سماجی و عوامی ڈسکورس میں سے وہ کیوں چھانٹ کر باہر نکلا پھینکا ہے۔ وہ گالی دیتا پھرتا ہے کہ اس کی کتاب پڑھو جاہلو!

اے کاش کہ وہ کتاب در کتاب سپردِ اوراق کرنے سے پہلے خود کچھ پڑھ لیتا اور استاد کا زعم طاری کر لینے میں کچھ دیر صبر کرتا، تو شاید کہنے دھمکانے کی ضرورت پیش نا آتی کہ میری کتاب نُما پڑھو؛ یا کتاب لکھنے کے بعد ہی اپنی کتاب کو دوبارہ پڑھ لیتا تو خود احتسابی کا لمحہ نصیبِ جان و روح ہوتا۔ بہر حال وہ ناراض ہی ہے، اپنے ارد گرد پر اور کچھ کچھ خود پر بھی؛ لیکن آخری چیز کم کم!

ادیب پر کچھ زیادہ وقت لگ گیا۔ تو بات پھر سے اسی طرف آتی ہے کہ سب ناراض ہیں، سب کسی سنہری زمانے کے کھو جانے پر رنجیدہ ہیں۔ سب دوسروں میں معصیت، گناہ، اعلٰی سماجی اصولوں، نفاست و حُسن پروری اور حِسِ جمال کے ضعف پر اپنی دُم کاٹتے پھرتے ہیں، اونچی آواز میں اپنے ہذیان کو غزل معنون کرنے پر بضد ہیں۔ لیکن آئینہ دیکھنے اور خود احتسابی سے آنکھیں مُوندتے ہیں۔ تو بھیا خوش رہیے اور درستی اور راستی کے پاس نا بھٹکیے، مبادا کہ سلجھاؤ کے امکان نکل آئیں۔

آئیے خود احتسابی کریں، اپنے آپ کو اُجالیں اور بہتری کی راہ پکڑیں۔ روتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا، اور آنسوؤں سے سہانے حال و مستقبل کے چمن نہیں پَھلتے پُھولتے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔