جنسی تعلیم کی فراہمی اور شادی کو آسان بنانے کی معاشرتی ضرورت

جنسی تعلیم کی فراہمی اور شادی کو آسان بنانے کی معاشرتی ضرورت

جنسی تعلیم کی فراہمی اور شادی کو آسان بنانے کی معاشرتی ضرورت

(ظہیر استوری )

دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی حکومت نے اپنے فوجیوں کی جنسی آسائش کے لئے “کمفرٹ اسٹیشن” کے نام سے قحبہ خانے بنا لئے جس میں مقبوضہ  علاقوں سے زبردستی عورتیں اُٹھائی جاتی تھی اور فوجیوں کو پیش کی جاتی تھی۔ اس عمل کو “کمفرٹ ویمن” کا نام دیا گیا۔ سب سے پہلا “کمفرٹ اسٹیشن” شنگھائی میں قائم کیا گیا جہاں کوریا، فلپائن، چائنہ، تھائی لینڈ، برما، ویت نام، ملیشیا اور تائیوان سے شاہی فوج کا دل بہلانے کے لئے لڑکیاں لائی جاتی تھی۔ اس کے بعد جاپان میں “پراسٹی ٹیوشن” کو باقاعدہ آرگنائز کیا گیا اور قانون سازی کے ذریعے اس کو تحفظ دیا گیا۔

 1956 میں ایک قانون بنایا گیا جس میں کہا گیا کہ “پراسٹی ٹیوشن کی اجازت نہیں اورکوئی بھی اس کا کسٹمرنہیں بنے گا” مگر اس میں کوئی عدالتی کارروائی یا سزا کا ذکر نہیں تھا۔ اس نئی قانون سازی کے باوجود جاپان میں آج بھی “سیکس انڈسٹری” سے سالانہ 24 بلین ڈالر کی کمائی ہوتی ہے۔ یہی قانونی نرمی کی وجہ سے جاپان میں ریپ کیسز کا ratio بہت کم ہے۔ سیکس کو انہوں نے آسان بنا دیا ہے اس لئے لوگوں کو بنیادی انسانی جبلت کی تکمیل کے لئے زبردستی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

پاکستان میں جنرل ضیا الحق سے پہلے لاہور کی ہیرا منڈی، ملتان، فیصل آباد کا امین پور بازار اور غلام آباد کے علاقے اور کراچی میں نیپئر روڈ سیکس ایکٹویٹی کے لئے مشہور تھے۔ اُس زمانے میں ریپ کیسسز نہ ہونے کے برابر تھے۔ مگر جنرل ضیاالحق آئے تو انہوں نے افغانستان میں سوشلسٹ بلاک کے ساتھ ساتھ ملک میں بھی اسلام کے نام پر “جہاد” شروع کیا جس کے نتائج آج تک یہ “مظلوم” ملک برداشت کر رہا ہے۔ انہوں نے مذہب کے نام پر سی آئی اے اور شمالی اتحاد سے ڈالر لے کر پورے ملک کو ایک نہ ختم ہونے والی آگ میں جھونک دیا۔ یہ جنگ کسی ملک یا مذہب کی نہیں تھی بلکہ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام، جس کا چمپیئن امریکہ اور اُس کے اتحادی تھے اور دوسری طرف سوشلسٹ بلاک تھا جس کے روح رواں روس اور ویت نام تھے جن کے مابین عرصہ دراز سے سرد جنگ چل رہی تھی اور آخر کار سی آئی کو جنرل ضیاالحق کی شکل میں ایک بہترین آدمی ملا جس کے کندھے پر بندوق رکھ کر افغانستان سے روس اور ساتھیوں کو پیچھے دھکیلنے کا ساتھ ساتھ سوشلزم کی کڑی سے علٰحیدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

یہی وہ دور تھا جب مذہب کے نام پر ملک کے ان مشہور “بدنام زمانہ” علاقوں سے پراسٹی ٹیوشن کا خاتمہ شروع کیا جس کی وجہ سے اس شعبے سے منسلک لوگ اپنا دھندہ قائم رکھنے کے لئے چھپتے چھپاتے ملک کی عام گلیوں تک پہنچ گئے اور یہی وہ دور تھا جس کے بعد سے پراسٹی ٹیوشن گلی محلوں پہ آ گیا۔  یہ پابندی اس کاروبار کی وسعت میں مددگار ثابت     ہوئی کیونکہ پابندی ہی بغاوت کی شروعات ہوتی ہے۔

اس پابندی کی وجہ سے ریپ کیسسز میں اضافہ ہوا۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کے 10 بڑے بدنام ترین ملکوں میں ہوتا ہے حالانکہ 80 فی صد کیسسز معاشرتی بدنامی کے خوف سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ سیکس ایجوکیشن کو انتہائی حد تک غلیظ اور حرام قرار دے کر لوگوں کے اسے اتنا ڈرایا گیا ہے کہ سیکس کے متعلق کھل کے بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہی معاشرتی پابندی ہی بغاوت کی بنیاد بنتی ہے اور نتائج یہ نکلتے ہیں کہ آئے دن کوئی خاتون مختاراں مائی بننے پر مجبور ہوتی ہے۔

ایک رون لکھاری
ظہیر استوری ، صاحب مضمون

ایسی ہزاروں مختاراں مائی اس معاشرے میں موجود ہیں جو بدنامی اور غیرت کے نام پہ قتل کے خوف سے ایسے حادثات کو چھپاتی ہیں کیونکہ یہاں عورت کی گواہی آدھی تصور کی جاتی ہے اور افسوس کی بات تو یہ کہ ریپ کے کیس میں بھی تین گواہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی عورت کو ریپ ہوتے ہوئے تین مردوں نے دیکھا ہو تب جا کے یہ کیس اصل کیس کہلائے گا ورنہ نہیں۔ ہمیں مذہبی بحث میں پڑنے سے زیادہ اس ایشو کو حل کرنے کے متعلق سوچنا چاہیئے۔

سیکس کو اس حد تک نہیں لے جانا چاہیئے جہاں سے ریپ کے راستے نکلتے ہیں۔ یہی پابندی ہی ہے جس کی وجہ سے “گلوبل ولیج” ایڈز جیسی جان لیوا بیماریوں سے آشنا ہوئی۔ شادی کو سماجی رتبے کے چکر میں اس حد تک گھسیٹ دیا ہے کہ لڑکیوں کی آدھی زندگی اچھے رشتے کے انتظار میں نکل جاتی ہے اور جب کوئی اچھا رشتہ نہیں ملتا تو ارینج میرج کا طوق اُن کے گلے میں فٹ کر دیا جاتا ہے جسے سمجھنے تک باقی کی آدھی زندگی گزر جاتی ہے۔ جب والدین کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں اتنا ٹائم لگے گا تو وہ بچوں کی کیا تربیت کریں گے۔ اس طرح بچوں کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے جو کہ معاشرے پر ڈائریکٹ اثر انداز ہوتی ہے۔

ہمیں کالج یونیورسٹی لیول پہ سیکس ایجوکیشن کو لازمی قرار دینا چاہیئے۔ شادی کو اتنا پیچیدہ نہیں بنانا چاہیئے کہ اس کے اثرات آنے والی نسلوں کو برباد کر دیں۔ باہمی رضا مندی کو لازمی طور پر ملحوظ نظر رکھنا چاہیئے تاکہ اس جوڑے کو آگے مزید مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ظاہر ہے جب دوسرے معاملات سلجھے ہوئے ہوں تو پھر وہ بچوں پر کوئی توجہ دے سکیں گے ورنہ ایسے ہی اندھی گلیوں میں ریپ کیسسز ہوتے رہیں گے، خواتین روز غیرت کا نام پہ قتل ہوتی رہیں گی، مختاراں مائی روز پیدا ہوتی رہے گی اور روز کوئی ایڈز سے مرتا رہے گا۔