تخلیقی تحریریں اور ریپ سین

rape scene injustice
rape scene injustice

تخلیقی تحریریں اور ریپ سین

از، نصیر احمد

تخلیقی تحریروں میں ریپ سین جیسے معاملات پیش کرنے کے لیے کافی دانائی چاہیے۔ شاعروں، فلم سازوں، ناٹک بازوں، ناول نگاروں اور فسانہ سازوں کو ایک بنیادی بات یاد رکھنی ہوتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ظلم و جبر کے ستم زدوں کے دوست ہوتے ہیں اور معاشرے کے شہری بھی۔

اب ایسی دوستی تو ٹھیک بات نہیں جو ہم پھول گاؤں سے مولوی صاحب سے کرتے ہیں کہ یار مولوی صاحب، اس بات کا ہمیں بڑا دکھ ہوتا ہے کہ سب تمھیں انتہائی نیچ، کمینہ، گھٹیا، سِفلہ اور شوہدا سمجھتے ہیں۔

اور مولوی صاحب بَہ جا طور پر کہتے ہیں کہ ایسی ہم دردی تو ظلم سے بھی بد تر ہے۔

سو انسان کے حقوق اور عزت و وقار کی پامالی کے معاملات میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی ان سب کی پامالی کی منظر کَشی کے بارے میں حساسیت لچّر پن سے آلودہ نہ ہو۔

اور پھر زبان کے بارے میں حساس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اب یہ اردو، ہندی اور پنجابی وغیرہ کی جنسیاتی ڈِکشن میں صنفی نا ہمواری عیاں ہے۔ اس نا ہمواری کو درست کیے بَِہ غیر یہ ڈِکشن استعمال نہیں کرنی چاہیے۔

اس سلسلے میں ہم کہیں گے کہ ہیر وارث شاہ میں رانجھے اور ہیر کے وصل کے مناظر میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ڈِکشن خود ساختہ جنسی برتری کا پروپیگنڈا کرتی ہے۔

اس طرح کی باتیں:

  • آج پنجاب قندھاریوں کو ملا ہے
  • چابک سوار نے ہاتھ پھیرا ہے
  • میدانِ حسن میں بڑی گُھڑ سواری ہوئی ہے

اس طرح کی اَن گِنت باتیں ہیں۔ جو خواتین کو مردوں سے کم تر دکھاتی ہیں۔

اور پھر پُرُش پراکرتی کا بنیادی تھیم بھی موجود ہے کہ پُرُش فعّال فطانت ہے اور پراکرتی مُنفعِل مادہ۔

کچھ ارسطو کے سنگ تراش جیسے معاملہ بن جاتا ہے کہ سنگ تراش سنگ پر کام کر رہا ہے۔

rape scene wisdom
علامتی تصویر

تو ایک تعصب زبان میں بیان میں موجود ہے اور ریپ سین کی منظر کَشی میں اس تعصب کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کہیں اس کی جُزئِیات نگاری اس تعصب کو تو نہیں فزُوں کر رہی۔

اور پھر جیسے جرنلسٹوں کو کہتے ہیں کہ کسی نے ایک تھپڑ مارا ہے، تم اسّی ہزار دفعہ دکھاتے ہو۔ یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا ہوتا ہے؛ اور ظلم کو سادِیتی، sadistic لذت سے بچانے کی بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔

بولڈ ہونا ٹھیک بات ہے اور shock بھی کرنا چاہیے۔ لیکن ذمے داری بھی ضروری ہوتی ہے۔ بولڈ ہونے اور shock کرنے کے چکر میں کچرا نہیں کرنا چاہیے۔

لیکن ظاہر ہے مَنٹو اور بانو وغیرہ پیر بھی بن چکے ہیں، اور خلّاق ان کی پیروی میں وہاں پہنچ چکے ہیں کہ bold ہونے اور shock کرنے کے چکر میں کچرا کرنے کو خوبی سمجھتے ہیں۔ اب تو اخباروں کے کالم بھی اسی قسم کے کچرے کے چربے بن چکے ہیں۔

ہم تو کہتے ہیں انسان اگر فکشن میں بھی ہے، تب بھی کردار تخلیق کرنے والے کو انسانی عزت و وقار کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اگر آپ انسانی عزت و وقار کی پا مالی دکھانا چاہتے ہیں اور ضروری بھی ہے، شعور اجاگر کرنے کے لیے۔ لیکن جذبات کی شدت انگیخت کرنے کے لیے کچرے سے پھر بھی گریز کرنے کی کوشش کریں۔

صحافیوں پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ اس کچرے اور سنسنی کے انسانی ذہنوں پر اثرات ہوتے ہیں۔ یہی بات شاعروں، ناول نگاروں، تمثیل کاروں اور افسانہ نگاروں کے لیے بھی اتنی ہی صحیح  ہے۔