مُلکِ عزیز میں سوال پوچھنے کا طریقۂ کار

Naseer Ahmed
نصیر احمد

مُلکِ عزیز میں سوال پوچھنے کا طریقۂ کار

از، نصیر احمد

لڑکی دیوانی ہو گئی ہے، پاکستان میں سوالوں کے سقراطی طریقۂ کار کے تجربے کرنا چاہتی ہے۔ یہاں تو سوال پوچھنے سے پہلے پیر چھوئیں، پھر زمین پر ناک رگڑیں، پھر گھٹنے چھوئیں، اس کے بعد ایک طویل قصیدہ کہیں، قصیدے کے بعد ملکی حالات پر ان کی من پسند گفتگو کریں، اس کے بعد اطاعت کے فوائد پر ان کا ایک لیکچر سنیں، پھر گھر والوں کی خیریت دریافت کریں، ان کے مخالفین کی ہِجو کہیں، ان کی گاڑی کے بمپر کی تعریف کریں، ان کے لباس کی نفاست پر ان کی تعریف اور گنواروں کی تذلیل کریں، نگاہیں جھکا کر ان کی نگاہوں کی خیرگی کی داد دیں، سر جھکا کر ان کی عظمت کے گن گائیں، ان کے چپراسی کی طرف ممنونیت بھری نگاہوں سے دیکھیں، ان کے اور اپنے تعلقات کی نا برابری کا فراخ دلی سے اعتراف کریں اور ہو سکے تو میرا بائی کا یہ مصرع پڑھیں

تم بھئے سونا، ہم بھئے سہاگہ

اور اس مصرعے کے ساتھ مختلف قسم کے تعریفی اور تخلیقی تجربے کرتے جائیں۔ پھر مکھڈی حلوے کی سوغات پیش کریں، شکار کی دعوت دیں، آپ کی اماں ان کو جتنی دعائیں دیتی ہیں، ان کو دہرا دیں۔ اپنی اطاعت گزاری کے چند واقعات بھی سنائیں اور سند کے لیے اسی کا حوالہ دیں جس نے آپ کے پیسے دینے ہوتے ہیں، ورنہ شاید شہادتی آپ سے بھی زیادہ طرار نکلے اور ان کو جواز فراہم کر دے کہ وہ آپ کو دجال یا فاحشہ بابل سمجھیں۔

اور اس کے بعد جس آدمی کو وہ سب سے زیادہ ناپسند کرتے ہوں، اس کے خلاف سات آٹھ جرائم کی ابتدائی رپورٹ وہیں لکھ دیں۔

اس کے بعد جتنے اہم لوگوں نے آپ کی طرف بے اعتنائی سے بھی دیکھا ہے ان کی نجی زندگی کی رنگین داستان پوری تشریح کے ساتھ بیان کریں جس میں ان اہم لوگوں کی اخلاقی پستی اس قدر ہو کہ شیطان بھی شرمندہ ہو جائے۔ اور ان کے چہرے کی طرف دیکھتے جائیں، کہ کب تفہیم اجازت کی طرف بڑھتی ہے۔ اس کے بعد ان کی عالی دماغی اور فراخ دلی پر ایک مختصر سا افسانہ پڑھیں۔

الغرض جو وہ خوبی ان میں نہیں ہے، انھیں ایسے لگے کہ صرف انھی میں ہے۔ اس سارے عمل میں اپنی تعریف کرنے کی غلطی مت کریں کیونکہ اپنی تعریف کا مطلب اپنے عزائم کا فاش کرنا ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر دو ہی ہستیاں تعریف کے قابل ہیں، وہ اور خداوند عظیم۔

کوشش کریں خداوند عظیم کی تعریف کا دورانیہ مختصر ہی رہے ورنہ بات کی تاثیر کم ہو جائے گی کہ عبادت کا یہ وقت نہیں اور آپ نے صرف ایک سوال پوچھنا ہے۔

اس مرحلے کے بعد بھابی سے اپنی بے تکلفی کا اس طرح ذکر کریں کہ بھابی اس دنیا کی سب سے زیادہ خوش قسمت خاتون دکھائی دیں، لیکن اگر بھابی موجود ہوں تو شاہی جوڑے کے مراتب کا خیال رکھیں اور بھابی کی طرف جھکاؤ کچھ زیادہ کر لیں۔ اس طرح اپنی پہلی کوشش کی ناکامی کے بعد ایک اور وسیلے کا امکان بن جائے گا۔

تھوڑی بہت گفتگو ان کی گیجٹس کی خوش نمائی اور قابلیت کے بارے میں بھی ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کی دین داری، شہرت اور انسانیت سے حسن سلوک کے لیے بھی آپ کو کچھ واقعات گھڑنے پڑیں گے۔ میں اس وقت بچی سی تھی جب آپ نے ہاتھی کو ایک ہی تھپڑ سے مار گرایا تھا۔ اف اللہ، میں تو ڈر کے بے ہوش ہو گئی تھی، وہ تو اگر اماں دو چار پانی کے چھینٹے مُنھ پر نہ ڈالتیں میں بے چاری مر ہی جاتی۔ اس کے بعد انھیں موقع دیں کہ وہ اس واقعے کو اس طرح ظاہر کریں جیسے اس طرح کے واقعات ان کے لیے روزانہ کی بات ہو۔

اس کے بعد ایک دفعہ ان کے چہرے کا جائزہ لیں اور اندازہ کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کو سوال کی اجازت ملی ہے کہ نہیں۔ اور اگر معلوم ہو کہ اب آپ کو سوال کی اجازت مل گئی ہے، تو سوال کرنے میں عجلت نہ کریں بلکہ جتنا سب کچھ کر چکے ہیں، اس کا ایک خلاصہ تیار کر کے ایک بار پھر دہرا دیں اور پھر سوال کی طرف بڑھیں اب شاید موقع آ ہی گیا ہے کہ آپ اپنا سوال پو چھ لیں۔

اور آپ کا سوال کیا تھا؟ اب سوال کے نام پر تقریر مت کیجیے گا کیونکہ اب بات ان کے متعلق نہیں ہو رہی، وہ بور ہو جائیں گے اور آپ کی تقریر کو انتہائی بد تمیزی سے سنسر کر دیں گے، اس لیے سوال مختصر ہی پوچھیے گا۔ اور آپ کا سوال کیا تھا؟

سر کیا یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ آپ کے دادا جی کی پچاسویں برسی کے موقعے پر مجلس عزا کا اہتمام کریں؟ ہمیں معلوم ہے آپ کو نمائش پسند نہیں لیکن سب لو گ اظہار غم اور جوش عقیدت میں بے تاب سے ہوئے جاتے ہیں؟ پلیز برا نہ مانیے گا۔