کچھ تو کہنے دو

کچھ تو کہنے دو

کچھ تو کہنے دو

از، نصیراحمد

میرزا صاحب تم تو عید کا چاند ہو گئے، نہ کوئی نامہ ، نہ کوئی پیغام، موبائل بھی تمھارا بند رہتا ہے۔ آتے جاتے رہا کرو، نہیں آتے ، خبر تو کم ازکم دیتے رہو، تمھاری خبر نہ آئے، میری جان جلتی ہے۔وسوسوں میں دل گھرا رہتا ہے۔

تم چاند کہتی ہو، ہم تو جس کسی سے ملتے ہیں، چند لمحوں میں ہماری انسانیت کا انکارکر دیتا ہے ۔جسے بھی کوئی بات بری لگ جائے، وہ جناور بنا دیتا ہے۔ایسے میں ملنے جلنے کی آرزو مر جاتی ہے۔تمھاری بات اور ہے لیکن دنیا میں صرف تم ہی تو نہیں ہو۔

اب کیا ہوا؟

وہی برتری کا قصہ۔ ابھی کچھ دیر پہلے ایک رشتہ دار خاتون سے ملے۔ انھوں نے کوئی چھ سات سال بعد نماز فجر ادا کر لی تھی۔ پہلے اپنی نماز کی ادائی کا واقعہ سنایا جو کسی بھی طویل دورانیے کے کھیل سے کم نہ تھا۔ پھر کہنے لگیں کہ عورتیں مردوں سے برتر ہوتی ہیں  کہ روحانی طور پر خدا کے قریب ہوتی ہیں۔ ہم سے رہا نہ گیا،  کہہ بیٹھے کہ بی بی، اگر تم نے کسی دن عشا کی نماز ادا کرلی، تم تو ساری دنیا کی عورتوں سے برتر ہو جاو گی۔ اس بات کا برا مان گئیں ، لگیں ہمیں گالیاں دینے ۔ اب اگلی ماتم تک ان سے رشتہ داری سمجھو ختم۔

کیوں کرتے ہو، ایسا، چپ چاپ سن لیا کرو۔

کیا بات کرتی ہو؟ سنتے ہی رہتے ہیں۔ اس سے جھگڑا بھی اسی کثرت سماعت کے نتیجے میں ہوا۔ان سے پہلے ایک دوست سے ملے۔ آجکل ذرا مولوی سا ہو گیا ہے۔باتوں باتوں میں عورتوں میں نقص نکالنے لگا کہ عورتیں کھیل نہیں سکتیں،سپاہ گری نہیں کر سکتیں، دماغ ان کے چھوٹے ہوتے ہیں۔ فیصلے نہیں کر سکتیں۔کچھ دیر سنتے رہے پھر کہہ ہی دیا۔ کہ تمھارے نزدیک  تمھاری زندگی میں سب سےعظیم شخصیت کون ہیں؟ اس نے کہا کہ بے شک میری ماں۔ اس پر ہم نے کہا۔

تو کیا انھوں نے اولمپکس میں گولڈ میڈل لیا ہے کہ عظمت کے درجے پر فائز ہو گئیں ہیں۔ یاد کرو باوا تو تمھارے انگریز کو پتھر مار کر جیل میں چلے گئے تھے، یہ ایک عورت ہی تھیں ناں جنھوں نے تمھارے جیسے نا شکر گزار پلے کو سانڈ بنا دیا ہے۔ اگر ایک عورت یہ معجزہ کر سکتی ہے، تو باقی کام بھی کر سکتی ہے۔

بات سچی تھی، اسے انتہائی بری لگی اور اس دفعہ بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔

اب خود دیکھ لو، پہلے جھوٹی برتری کا فسانہ تراشتے ہیں، اور فسانہ حقیقت سے آشنا ہو جائے، تو حقیقت سے بھاگنے لگتے ہیں۔

اور تم نے حقیقت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟

ٹھیکہ کیسا؟ میں کوئی ٹھیکیدار ہوں۔ بس اگر کوئی بھی سچ نہیں کہے گا، تو دنیا کا کیا بنے گا؟ہم بھی ہر کسی کو سچ نہیں کہتے، اب تو قریبی لوگوں تک محدود ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی رہا تو نہیں جاتا۔ اب ایک وکیل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک جاننے والے کا مقدمہ درست طریقے سے نہیں لڑتے اور فیس پوری پھر لی تھی۔ ان سے رزق حرام کی خامیوں کے بارے میں بات چیت ہورہی تھی اور وہ رزق حرام کے نتائج کے بارے میں بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے لگے۔ ہم نے کہا، اتنا کچھ جانتے ہو، تو کچھ دیناتداری خود بھی  کام لے لیا کرو۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ راکٹ ہو گئے۔

پم پر شبہ کرنا انصاف کی توہین اور انصاف کی توہین کا مطلب ذات باری جو کہ انصاف کا منبع ہے، اس کے عدل پر شک کرنا ہے۔ میں تم پر ابھی توہین عدالت اور توہین مذہب کا مقدمہ کرتا ہوں اور تمھیں پتا ہی توہین مذہب کا مقدمہ تو کوئی بھی وکیل لیتا ہی نہیں ہے اور توہین عدالت کے معاملے میں عدالت کا رویہ بھی سخت ہے۔

ہمیں کچھ عقل آ ہی گئی، اب ہم ہیں کہ ان کی ٹھوڑی پکڑ پکڑ کر معافیاں مانگ رہے ہیں اور وہ ہیں کہ ہمیں گالیاں دیے جا رہے ہیں۔ ہماری مسلسل التجا کے بعد ان کو رحم آ ہی گیا۔ انھوں نے ہم سے دن کے کھانے کے پیسے وصول کیے اور اپنے دفتر سے بھگا دیا۔اس جاننے والے کا دکھ ہوتا ہے، کہ وہ تو ان پڑھ بھی ہے اور اس کے آگے پیچھے بھی کوئی نہیں ہے، اسے کیسے انصاف ملے گا۔

ہاں میرزا صاحب، یہی بات ہے، کسی فوجی کو کہو کہ آئین کی خلاف ورزی جرم ہے، وہ آپ کو فوج کا دشمن بنا دیتا ہے، اور جو اس کے ارد گرد ہیں ، انکے  منطق بھی ایسی ہی ہے کہ اب جو   آئین کے حق میں بات کرے،وہ پوری فوج کا دشمن ہے، اور جو فوج کا دشمن ہے، وہ ملک کا دشمن ہے اور چونکہ ملک خداداد ہے ،اس لیے جو ملک کا دشمن ہے ، وہ خدا کا دشمن ہے۔ کسی مولوی کو کہو کہ عورتیں مردوں کے برابر ہوتی ہیں، وہ آپ کو مشرک کہنے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کرتا۔ اور کسی کلرک سے بدعنوانی کی شکایت کرو، وہ آپ کو پاگل قرار دیتا ہے۔ سب احتساب سے بچنے کے ڈھکوسلے ہیں لیکن جب ہر کوئی ڈھکوسلوں کے چونچلے اٹھائے گا، تو تہذیب تو سلامت نہیں رہ سکے گی۔

تمھیں باتوں کی کچھ سمجھ ہے، اسی لیے تم سے ملنے آجاتے ہیں۔ خیر اس وکیل کے ہاں سے نکلے اور ویگن میں بیٹھ گئے۔ اب ذہن میں پکا ارادہ ہے کہ کچھ بھی نہیں بولیں۔ گے ویگن کی کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔لیکن وقت نہیں کٹ رہا تھا۔ اور وقت بتانے کے لیے سڑک کے ارد گرد دکانوں کی دیواروں پر اشتہار پڑھنے لگا۔

رنگا رنگا ملبوسات، کڑھائی والے کرتے دستیاب ہیں

ٹکاٹک تکے،

اجمل میڈیکوز

بے مثال صداقت، بے نظیر جرات

مردانہ کمزوری کا شرطیہ علاج

اور ویگن میں ہنگامہ ہو گیا۔

شٹ اپ ایڈیٹ

دیکھتے نہیں لیڈیز ہیں۔

والدین نے اچھی تربیت نہیں کی۔

اس غلیظ انسان کو یہیں اتار دو۔

جیسے ہی اس نے غلیظ کہا، دوچار تھپڑ پڑے، چار پانچ لاتیں اور ایک دو گھونسے اور ہم ویگن سے اتر آئے۔

میرزا صاحب، آپ بھی ناں، لیکن میں سب کی طرف سے آپ سے معافی مانگتی ہوں۔ چھوڑیے ان سب باتوں کو، خواجہ کی غزل پر بہت اچھی دھن بنائی ہے ، وہ سنواتی ہوں۔

تمھارے کیا کہنے، اس شہر آشوب کا مداوا، صحبت صنم  اور پیالہ صافی کے سوا شاید کچھ نہیں ہے۔