نئی صدی اور اس کے تقاضے : کتاب، نئی صدی کے افسانے ، کا تعارف

نئی صدی کے افسانے

نئی صدی اور اس کے تقاضے : کتاب، نئی صدی کے افسانے ، کا تعارف


عرضِ مدیر، ایک روزن : دو برس قبل یعنی جون، 2015 میں، ایک روزن کے انتہائی مہربانوں میں سے جناب نعیم بیگ اور جناب فرخ ندیم کی مشترکہ کاوش کے طور پر اہم عصری افسانوی ادب کے انتخاب پر مشتمل کتاب بعنوان، “نئی صدی کے افسانے”،  پروگریسو اردو رائٹرز  ِگلڈ کے زیر اہتمام لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں شائع ہونے والے پچیس افسانے تقریباً دو سو افسانوں سے منتخب گئے تھے۔ ان منتخبہ افسانوں کے مصنفین نے پوری دنیا کے مختلف گوشوں سے دانش و ثقافت کے موتی رقم کیے ہیں، جنہیں کم از کم بھی خاصے کی چیز کہا جانا چاہیے۔ اگلے چند ہفتوں دنوں میں ایک روزن کے قابلِ قدر اور باذوق قارئین کی نظر وہ افسانے شائع کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ان اشاعتی حقوق کی فراہمی پر ہم جناب نعیم بیگ، فرخ ندیم اور پروگریسو  اردو رائٹرز  ِگلڈ کے از حد ممنون و شکر گزار ہیں۔

نئی صدی کے افسانے : فہرست

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ اُسترا گُل (اقبال حسن خان)
2 ۔ قیمتی تابوت ( نسیم سید)
3۔ بہرام کا گھر (شمویل احمد)
4۔ کتن والی (سبین علی)
5۔ ڈیپارچر لاؤنج ( نعیم بیگ)
6۔ ڈولی (پیغام آفاقی)
7۔ افواہ ( ابرار مجیب)
8۔ پورٹریٹ (اقبال حسن آزاد)
9۔ سمندر جہاز اور میں (افشاں ملک)
10۔ نکیل (فرخ ندیم)
11۔ پارکنگ لاٹ ( نور العین ساحرہ )
12۔ کباڑیا ( خاقان ساجد)
13۔ بازار ( طلعت زہرا)

14۔ ۔ بین کرتی آوازیں (نسترن احسن فتیحی )
15۔ شوٹ آؤٹ ( ڈاکٹراختر آزاد )
16۔ برف کی عورت (شاہین کاظمی)
17۔ ایک رات کی خاطر (شاہد جمیل احمد)
18۔ گٹر سوسائٹی (ڈاکٹر کوثر جمال)
19۔ واپسی ( ارشد علی)
20۔ پلیٹ فارم ( لیاقت علی)
21۔ رکھوالی (وحید قمر)
22۔ پھانسی ( قرب عباس)
23۔ حرافہ ( قمر سبزواری)
24۔ دسترخوان، سالم روٹی اور کہانی (یوسف عزیز زاہد)
25 ۔ نائیلون میں لپٹی لاش (ماہ جبین صدیقی)
26 ۔ چاند کو چھونے کی خواہش (سلمٰی جیلانی)

از، مدیر ایک روزن


نئی صدی اور اس کے تقاضے : کتاب، نئی صدی کے افسانے، کا تعارف

از، نعیم بیگ

پروگریسو اردو رائٹرز گلڈ کے زیر اہتمام شائع ہونے اس منتخب افسانوی مجموعے کو میں اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا ماحاصل دنیائے ادب کا شاہنامہ تو شاید نہ کہہ سکوں گا کیونکہ میں یہ منصب نہیں رکھتا ،لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اس صدی کے اوائل سے عصری ارتقائی مراحل میں اردو ادب کو جو روایتی خٖطرات درپیش تھے ان کا سدباب کرتے ہوئے ان ادیبوں نے عالمی تناطر میں عہدِ حاضر کے مناظر کو عمدگی سے پینٹ کر کے دکھا دیا۔ اس لیے آج کے ادبی تقاضوں میں کلاسیکی شعور کے ساتھ جدید فکری رحجانات کی آمیزش کو میں ایک قرار واقعی ایسی کوشش کہوں گا جو اردو افسانے کو بے اعتدال اور بے رنگ نہیں ہونے دیتی۔ آج کاا فسانہ جہاں نئی ادبی کلاسیکت کی مدہم ، خوابناک اور روح پرور چاندنی کی بات کرتا ہے وہیں عصری اور معروضی حسیاتی کیفیات کو ایسے تاثر کے ساتھ سامنے لاتا ہے جہاں صرف انسان اور اسکے آس پاس زندہ رہ جانے والے استعارے مرصع سازی کرتے ہیں اور قاری اس اظہار کو ایک سند بخشتا ہے۔

نئی صدی کے افسانوی مجموعے کا تعارف لکھتے ہوئے اپنی بات کا آغاز بہار اور پھولوں سے کرونگا۔ فطری و آفاقی خوشبو لیے اِن کلیوں کی بات کرونگا جو بن کِھلے مرجھا گئیں۔ مدتوں سے چمن میں مدھر گیتوں سے چہکتے ان پرندوں کی بات کرونگا جنہیں زبان بندی کا حکم دے دیا گیا اور وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے تلاش میں سراپا نوحہ خواں چمن سے باہر نکل گئے۔ یوں گزشتہ تین دہائیوں میں ملک سے اُن نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ہجرت کر گئی جنہیں ابھی اپنے آباٗ کی پہلی ہجرت نہیں بھولی تھی۔

ملک میں گزشتہ چند برسوں سے امن و امان ، دہشت گردی اورو انتہا پسندی نے ملکی ثقافتی و تمدنی سطح پر عوام کی نفسیات پر جو گہرے اندوناک داغ لگائے ہیں اس کی مثال پاکستان کی پیدائش سے لیکر ایک دہائی پہلے تک نہ تھی اور شاید آئندہ بھی نہ ہو ۔ شاید کا لفظ میں نے اسی احتیاط کے ساتھ کہا ہے ورنہ ملکی سطح پر جس طرح سے دہشت گردی سے آج نبٹا جا رہا ہے کاش دو ایک دہائی پہلے ہوجاتا تو یہ عفریت کہیں پہلے دفن ہو چکا ہوتا۔ تاہم یہی کہوں گا کہ دیر آید درست آید ۔

بدقسمتی سے ہمیں پہلے دن سے ہی اپنی جغرافیائی حدود کے تنازعے ، اس میں شامل ہونے والی طے شدہ ریاستوں میں سیاسی جبر ، نئے معاشرہ کی تشکیل ، علیحدہ سماجی وراثت کا انتقال ، معاشی بدحالی ، غربت و افلاس ، ہجرت کا غم ، ماس لیول پر مہاجروں کی زبوں حالی اور اس کے نفسیاتی اثرات اور مذہنی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑا۔ بدقسمتی سے ہم اپنے ابتدائی دنوں میں لیڈروں سے محروم ہونے اور آ ئین کے نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی و سماجی ارتکازِ عمل کے بحران ، ملٹیپل عقاید ، فقہی و لسانی تقسیم کا شکار ہو گئے۔ یہی وہ پسِ منظر تھا جس کی وجہ سے ہم بجائے معروف جمہوری اور عمرانی اصولوں پر مبنی سماج اور اس کا چہرہ شعر و ادب سے سجاتے، ہم خود رو معاشرتی و سماجی و مذہبی بگاڑ کی طرف نکل پڑے جس کے اثرات ادبی و فکری سماجی سطح پر نمودار ہوئے ، کجا اس کے کہ ہم اپنی فکری اور جمہوری سوچ کو نئی عمرانی کنٹریکٹ کے تحت لاتے ہم مائل بہ تنزل و زوال ہو گئے۔

یہ وہ بڑے چیلنجز تھے جن سے ادیب کو مسلسل واسطہ پڑا لیکن یہاں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ عصری عہد میں ادیب کو کن مبارزت طلب موضوعات کا سامنا ہے۔ کیا وہ کماحقہُ اس بارِ کفالت سے نبردآزما بھی ہے کہ نہیں۔ ادب اگر زندگی ہے تو کیا آج کی زندگی کے ہمارے سماجی و تہذیبی و سیاسی مسائل وہی ہیں جو عالمی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ کیا انسان اپنی حقیقی و فطری عمرانی طرزِ معاشرت کو پا چکا ہے یا ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے؟
سائنس کی دنیا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سرخ رو ہوتے ہوئے ، تمام مذاہب کے سامنے سر بسجود ہوتے ہوئے ، منطق اور فلسفے کے تمام مروجہ اصول سامنے رکھتے ہوئے کیا انسان ایک مکمل انسان بن چکا ہے؟
ان سوالات کے جواب اتنے آسان نہیں ہیں۔

ابھی جب انسان آزاد ہی نہیں ، وہ زمانوں اور صدیوں کے ارتقائی عمل سے گزرنے کے باوجود مہا بیانیوں ، اس کی ذہن سازی اور عقاید کے چنگل سے نہیں نکل سکا اور انسانی حقیقتیں واشگاف الفاظ میں اس پر عیاں نہیں ہو سکیں تو ادیب کہاں ٹھہرے گا؟ اسی لیے سچائی اور حقیقت کو پا لینے کے لیے فلسفہ اور ادب کا تسلسل سے سہارا لیا جاتا ہے۔

نظریات کی آبیاری کرتے ہوئے اس کے بہترین پہلوؤں کو اپنایا جاتا ہے اور ان کے غیر مرئی منفی پہلوؤں کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب نئے لکھنے والے گو سچائی اور موجودات کا منظر پیش کر رہے ہیں تاہم ان میں عالمی بورژوائی اور سامراجیت کا مقابلہ کرنے کی سکت روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہے، یہی وہ عصری چلینجز ہیں جن سے آج کا فکشن نگار نبرد آزما ہے۔

دریں اثنا جہاں معاشی و سماجی اور ثقافتی رویوں میں کثیر الجہت مشکلات کی ایک طویل قطار نظر آتی ہے وہاں عوامی رابطوں میں فقدان ، عدم تعاون اور عدم اعتماد کی فضا میں ریاستی سطح تو خاموشی رہی لیکن حکومتی سطح پر مبہم غلغلہ ہائے غلو جاری رہا۔ معصوم سنجیدہ شہری اپنی سے صورت لیے خاموش احتجاج کا سامان تو کرتے رہے لیکن نوجوانوں نے جوش و جذبے کی تند لہروں پر اپنی آواز اقتدار کے بلند ایوانوں تک ضرور پہنچائی۔ قطع نظر اس کہ ایوانوں کے در و بام تھرتھرائے یا گرے نہیں۔

ایسے میں چند سر پھرے نوجوان اپنی آستیں چڑھائے اپنے قلم کی لے و دھن پر جھومتے ان بہتے جھرنوں کے کناروں پر پھیلے شفاف پتھروں کی چاندنی بچھائے روح پروری کا اہتمام کرتے سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیائے ادب پر چھا گئے۔ ان نوجوانوں میں کچھ نام آپ اس مجموعے میں دیکھ پائیں گے جنہوں نے اردو ادب کی تاریخ کو انٹرنیٹ کی دنیا میں عالمی سطح پر آباد کر دیا۔سوشل میڈیا پر عالمی اردو افسانہ فورم اس مہاجنگ کا پہلا پڑاؤ تھا جہاں یہ عالمی ادیب اکھٹے ہو ئے، پھرانہوں نے مل کر قدم اور آگے بڑھائے اور طے کر لیا کہ اب ان ادبی کاوشوں کو ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا کر دیا جائے جہاں سے ان کی اڑان آسمانِ ادب کی کہکشاؤں سے آگے تک کی ہو۔ یوں پروگریسو اردو رائٹرز گلڈ کا نام سامنے آ گیا۔

انہی جذبوں سے معمور پروگریسو اردو رائٹرز گلڈ کے کرتا دھرتا ، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ،کے مصداق کئی ایک خواب اپنی آنکھوں میں سجائے دبستان ادب کے مہکتے چمن میں چہکتے پرندوں کی مدھر دھنوں کے انتظار میں آس لگائے عالمی سطح پر نکل کھڑے ہوئے۔ مقصد و منشا صرف یہ کہ انسان انسان کو پہچان جائے اور کائنات کے ان روح پرور عناصر کی نمو اور غیر فطری انسانی جبر کو الفاظ کی صورت ڈھالنے والوں کو انکا جائز مقام دے۔ ہاں یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پروگریسو اردو رائٹرز گلڈ ماضی کے کسی گلڈ سے متاثر ہے ناہی اس کا تسلسل ہے۔ یہ ان ترقی پسند نوجوان ادیبوں کے خوابوں کی تعبیر ہے جو انٹرنیٹ کے عالمی منظر سے ابھرتے ہوئے اردو ادب بالخصوص اردو افسانہ کو پروقار مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
مجھے اس مجموعے میں شائع ہونے والے ادبی فن پاروں کی توقیر و منزلت کا تو اندازہ ہے ہی لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ ان شہ پاروں پر ان ادبی فورمز پر ہزاروں کی تعداد میں ان قارئین کی لکھی جانے والی فوری رائے بھی سامنے آئی جس کی بنیاد پرہم اس مجموعے کو منتخب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اس ضمن میں عالمی اردو افسانہ فورم کی انتطامیہ کو اس بے مثال تعاون پر انہیں خراجِ تہنیت پیش کرتا ہوں ۔

مجھے یقین ہے کہ پروگریسو اردو رائٹرز گلڈ کا یہ تجربہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرنے جا رہا ہے جہاں ادیب و قاری ایک ساتھ بیٹھے علم و فکر کی شمع جلائے دنیائے اردو ادب میں ایک نئے طوفان برپا کرنے کا سندیسہ لاتے ہیں ۔لیکن آخری فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔

پروگریسو اردو رائٹرز گلڈ اور عالمی اردو افسانہ فورم کی پوری انتظامیہ اور ان تمام مصنفین خواتین و حضرات کے لیے میری نیک تمنائیں اور خواہشات۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔