ایک  پنجابی گاؤں میں شیعہ سنی تقسیم کا ایک منظر

Yasser Chattha
یاسر چٹھہ

ایک  پنجابی گاؤں میں شیعہ سنی تقسیم کا ایک منظر

از، یاسر چٹھہ

آہ، یہ ہوا۔

ہمارا دو ہزار کی آبادی کا حافظ آباد کے قریب گاؤں ہے۔ ستر کی دھائی کے آخری برس تھے۔ یہاں خدا کا گھر مشترکہ مسجد تھی۔

شیعہ سنی ایک جگہ نماز پڑھتے تھے۔ وقت کی ایکتا فطری انصاف سے بَہ ضرورت تقسیم ہو جاتی تھی۔ پھر جڑ جاتی تھی۔ جیسے درخت کے پَتّے شام کو اپنے اوپر کمبل اوڑھ کر سکڑ جاتے ہیں اور صبح کو ہاتھ پاؤں دراز کر لیتے ہیں، کِھل جاتے ہیں۔

مسجد کے لیے فرش پر پڑی صفیں با وضو ہی رہتی تھیں؛ کسی بھی انداز سے ادا کی گئی نماز سے ان کا وضو خطا نہیں ہوتا تھا۔

لیکن پھر وقت کی اکائی اور ایکتا جس کا ملجگا تنوّع بھی واحد رنگ کی روشنی تھی؛ جیسے واحد رنگ کی روشنی اپنے سات رنگوں کے اجتماع کو باہم نرم گرم مٹھی میں سمیٹے رکھتی ہے۔

جانے کسی آدم و حوا کو کہیں سے مفت میں گندم ملی تھی؟ بہ ہر حال، ایران میں انقلاب تھا، اور افغانستان میں بھی انقلاب تھا۔
اور روشنی ٹوٹ کر اوندھے مُنھ گری، ہمارے دو ہزار آبادی گے گاؤں پر۔

وقت کی اس ایکتا کے ایسے مقام پر چوٹ پڑی جو چوٹ مقامی نہ تھی۔ سرحدوں سے باہر کی چوٹ تھی۔

نتیجہ!

وقت میں پاٹ پڑ گیا۔

کسی بھی وقت کے لیے سب سے درد آمیز وہ لمحہ ہوتا ہے جب اس
میں پاٹ پڑنے کا سمے ہوتا ہے۔

پھر لوگ لڑے، خون بہا اور آج تک وہ گاؤں سرکاری ریکارڈوں میں سرخ رنگ کے دائرے میں ہے۔

وہ گاؤں جو ایک مسجد میں اپنے رب سے کلام کر لیتا تھا اب چار پانچ عبادت گاہوں میں بھی نہیں سماتا۔ بس یہ دیکھیے دِلوں میں جگہ کم ہو جانے کی تنگ دامانیاں! (گو کہ آبادی تو بہت زیادہ نہ بڑھی۔)

بس یہ جگہ جگہ کی کہانی ہے۔ بے جوڑ کہانی، بَھدی اور synthetic کہانی۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔