لبرلز کا قحط اور پاکستان 

Naseer Ahmed
نصیر احمد

لبرلز کا قحط اور پاکستان 

از، نصیر احمد 

لبرلز تو پاکستان میں تو بہت کم ہیں۔ با قاعدہ سوچ سمجھ کر زندگی کے زیادہ تر معاملات میں لبرلز تو نایاب ہیں۔ 

کسی ایک معاملے پر اگر ایک فرد لبرل ہے تو بہت سے معاملوں پر نہیں ہے۔ ایسے لبرلز بھی بہت زیادہ نہیں ہیں۔ 

کارپوریٹ انفلُوئنسزکے نتیجے میں اگر چند معاملات پر کچھ لوگ لبرل ہیں تو وہ کچھ زیادہ مستقل قسم کے لبرل نہیں ہیں۔ مہنگی مصنوعات کے خریداروں کو لبرل کہیں تو وہ بھی بہت زیادہ نہیں ہیں۔ اشتراکی تو بالکل بھی لبرل نہیں ہیں۔ 

جمہوری لیفٹِسٹس بہت سارے معاملات پر لبرل مؤقف رکھتے ہیں، لیکن یہ بھی بہت ہی قلیل تعداد ہے۔ 

معیشت کے حساب سے نیو لبرلز شاید ہوں، لیکن اجارہ داری پر بہت زیادہ فوکس ہے اور صارفین کے تحفّظ پر ذرا توجُّہ نہیں ہے۔ پاکستان میں رائج اینٹی لبرل فکر کی وجہ سے لبرلز کی یہ قسم بھی اتنی زیادہ تعداد میں نہیں ہے۔ 

مخصوص معاملات پر ذرا کم انتہاء پسند لوگوں کو لبرل کہیں تو ایسے لبرل تو معاشرہ کتنا بھی انتہاء پسند ہو جائے موجود رہتے ہیں۔ 

مغرب کے تعلیم یافتہ، صنعتی، امیر اور جمہوری بھی بہت کم ہیں۔ مغرب کے تعلیم یافتہ، صنعتی اور امیر تھوڑے بہت ہیں، لیکن جمہوری نہیں ہوتے۔ 

ہمارے ہاں کا کلچر بھی ایسا ہے کہ معاشرہ خراب کرنے کا صلہ مغرب میں امیرانہ زندگی ہے، لیکن اب تو ایسے لوگوں کے پوتے پوتیاں بھی ہو گئے ہیں، دادا جی بھی ترقی یافتہ جمہوریتوں کی ترقی کے پیچھے جمہوری نظام نہیں دیکھ پاتے اور پوتے پوتیاں بھی۔

جمہوری نظام کے حساب سے بھی لبرل بہت کم ہیں۔ جمہوری نظام کا جو بھٹو صاحب ماڈل سیٹ کر گئے ہیں وہی زیادہ رائج ہے کہ جمہوریت کا مطلب اپنی آمریت ہےجس کو عوامی حمایت حاصل ہو اور عوامی حمایت ملتی ہی تب ہے، جب جمہوری اصول اور قوانین اہم نہ رہیں۔ 

لبرٹی کے نام پر کچھ لوگ چھیڑتے ہیں، غصہ دلاتے ہیں تو وہ مذہب کے نام پر چھیڑتی اور غصہ دلاتی گفت و گو کا ایک رد عمل ہے۔ سوچ بچار اس گفت و گو میں شامل نہیں ہوتی۔ 

کارپوریشنز کے عروج کے بعد عالمی لبرلز کی ایک کثیر تعداد شدید جذباتیت کو اپنے مفادات کے تحفظ اور زندگی کے جواز کے طور استعمال کرنے لگی ہے۔ اس شدید جذباتیت کے یہاں چربے بنائے جاتے ہیں جذباتیت بہت شدید اور کچھ بے لگام سی ہو جاتی ہے۔ اس سب کو بھی لبرل نہیں کہا جا سکتا۔ 

لیکن شاید اپنے فرد ہونے کا اور اپنے حقوق کے شعور میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں لبرل ازم کے خلاف مسلسل گفت و گو جاری رہتی ہے کہ اس طرف لوگوں نے سوچنا شروع کر دیا تو شاید جمہوریت کچھ بہتر ہو جائے۔ 

اور جمہوریت اگر بہتر ہو گئی تو ہمارے لوگ بھی کچھ زیادہ پڑھے لکھے ہو جائیں گے، کچھ خوش حال بھی ہو جائیں گے، مصنوعات بھی یہاں بننے لگیں گی۔ 

بات تو اتنی بری نہیں ہے، مگر ہمارا ثقافتی سسٹم کچھ ایسا ہے کہ انسانوں کی زندگی میں بہتری کا خواہاں ہی نہیں ہے۔ اس لیے تقریبا نا موجود یا بالکل ہی غیر مؤثر لبرلز کے خلاف سرگرم سا رکھتا ہے کہ اگر لوگ زندگی کے زیادہ معاملات میں لبرل ہونے لگے تو رسوم و قیود کا تقریباً ازلی سلسلہ ٹوٹ نہ جائے۔ 

اور رُسوم و قُیود میں عقل اور انسان دوستی بالکل ہی موجود نہیں ہے۔ 

ان میں زیادہ تر کو برقرار رکھنے کا فائدہ نہیں ہے۔ 

مزے کی بات ہے کہ بنیادی طور پر ہمارے ہاں افادیت پسندی بہت زیادہ ہے۔ لیکن بہت ہی مسخ شدہ ہے۔ آزادی، خوشی، علم اور بہتری کے بہ جائے فاش ازم سے منسلک ہے، اور فاش ازم سے معاملات ہٹانے کے لیے معاشرے کی ایک کثیر تعداد تیار نہیں ہے۔