جنسی عمل، فطرت اور ہم جنس پرستی

simone de beauvoir
Simone de Beauvoir

جنسی عمل، فطرت اور ہم جنس پرستی

از، جمشید اقبال

غالباً سائمون ڈیبوا نے کہیں لکھا تھا کہ خواتین کے ایک دوسرے سے جنسی تعلق کو جو چیز بے حد پُر لطف بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کوئی معروض (object) نہیں ہوتا۔ جب یہ بات پہلی بار پڑھی تو دیہاتی پسِ منظر اور ابتدائی تربیت کی روشنی یا تاریکی میں کچھ گُم راہ کُن لگی، مگر بعد میں دوستیاں بڑھیں، دوستوں سے راز و نیاز کی باتیں ہوئیں تو بہت کچھ واضح ہو گیا۔

مثال کے طور پر ہماے ایک دوست ایک بڑے جاگیر دار کے اکلوتے بیٹے تھے اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی جنسی شکاری بن گئے تھے۔ لڑکیوں اور اپنی عمر سے بڑی عورتوں کے پیچھے پڑ جانا اور اس وقت تک پیچھا کرنا جب تک کہ تعلق استوار نہ کر لیں اور پھر ان کی تذلیل کے بعد تعلق توڑ دینا۔

ایک بار موصوف مزے لے لے کر اپنا تازہ کارنامہ سنا رہے تھے؛ جب با قاعدہ اس کی باتوں سے گِھن آنے لگی تو پوچھا:

“اگر تعلق قائم کرنے کے بعد ان عورتوں یا لڑکیوں سے گھن آنے لگتی ہے تو پھر آپ اتنا کَشٹ کیوں اٹھاتے ہیں؟”

اس سوال کے جواب میں انھوں نے جو کچھ کہا اس سے صاف پتا چلا کہ سماج میں اکثریت کو جنسی تعلق میں سوائے معروض کی تذلیل کے کوئی لطف نہیں آتا۔ یہ لوگ جسے جنسی تسکین سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہ

ان کی حیوانی اناء کی تسکین ہوتی ہے۔ موصوف سے اس گفت و گو سے قبل بھی کچھ تجربات نے واضِح کر دیا کہ نوّے فی صد انسانوں کو نوّے فی صد حَظ دوسرے انسانوں پر حکم چلا کر، انھیں بے بس اور ذلیل کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور اس قسم کے جنسی حیوان اسی طرز کا لطف حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔

اسی روز سائمون ڈیبوا کی یہ بات سمجھ آ گئی کہ جنسی عمل میں فاعل اور معروض کی تقسیم اس عمل کو حیوانی عمل بنا دیتی ہے۔

بعد میں، بہت بعد میں ایک ہم جنس پسند یورپین ماہرِ نفسیات سے کسی کانفرنس میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھی کچھ ملتی جلتی کہانی سنائی۔

simone de beauvoir
Simone de Beauvoir

ان ماہرِ نفسیات کا کہنا تھا قبائل اور ریاستیں ہم جنس پسندی کی اس لیے اجازت نہیں دے سکتی تھیں کیوں کہ انھیں باقی رہنے کے لیے یا کسی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بچوں کی ضرورت تھی۔ ریاستوں کو بچے پیدا کرنے والے جوڑوں کی ضرورت ہے تا کہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے وگرنہ سو میں سے کچھ فی صد مردوں کو عورتوں میں اور عورتوں کو مردوں میں جنسی کشش محسوس نہیں ہوتی اور یہ ان کا نہیں، فطرت کا فیصلہ ہے۔

انھوں نے اور بھی کئی باتیں کیں اور اپنے ان دعووں کے حق میں سائنسی، نفسیاتی اور علمُ البشریاتی دلائل بھی پیش کیے اور یہ سب سن کر مجھے بے حد شرمندگی ہوئی کہ ہم بھی گاؤں اور قصبے میں ان دوستوں کا مذاق اڑاتے اور تذلیل کیا کرتے تھے جو خواتین کی بَہ جائے مردوں میں جنسی کشش محسوس کرتے۔

اب ہمارے سامنے بہت سے سائنسی شواہد موجود ہیں کہ جنسی کشش کا تعین رسوم اور مذاہب نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ سب ہارمُونل ہے۔

قبائل یا سماج کو بچے چاہیے تھے جنھیں وہ اپنے سانچے پر تیار کر کے کبھی جنگ تو کبھی اور کسی جہالت میں جھونک سکیں ، مگر اس وقت بڑھتی ہوئی آبادی کا خطرہ ہمارے سَروں پر منڈلا رہا ہے۔

فطرت ہم سے تو کیا ہمارے تراشیدہ خداؤں سے کہیں زیادہ عقل مند ہے۔ اس نے شاید اسی مقصد کے لیے مخالف جنس میں جنسی کشش محسوس کرنے والے اور بچوں کی فیکٹریاں بننے پر فخر کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی پیدا کیے جن کے نزدیک جنسی عمل کا مطلب صرف جنسی عمل تھا تولید نہیں۔ لیکن قبائلی دور میں قبائل نے اپنی بقاء کے لیے ہم جنس پرستی کو ممنوع قرار دینے کے لیے اسے گناہِ عظیم قرار دیا تو آج بھی ہم یہی سمجھتے ہیں۔

ہماری منافقت کی انتہا ہے کہ ہم یہ تو گوارا کر رہے ہیں کہ ملک میں لاکھوں لڑکے جنسی درندوں کے ہاتھ چڑھے ہوئے ہیں۔ سڑکوں پر بنے ٹرک ہوٹلوں کے مالکان نے یتیم اور بے سہارا لڑکوں کو جسم فروشی کے لیے رکھا ہوا ہے۔ رات کو قیام کرنے والے ڈرائیوروں کو یہ لڑکے پیش کیے جاتے ہیں۔ مدراس کی یہ صورتِ حال ہے کہ آئے دنوں ایسے واقعات منظرِ عام پر آتے ہیں لیکن اگر دو بالغ اور سمجھ دار مرد برابری کی بنیاد پر جنسی تعلق کو قانونی شکل دینا چاہیں تو ہمارا ظاہری پاک بازی کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

سائمون ڈیبوا کی اس بصیرت کی روشنی میں واضِح ہے کہ ہم جنس پسندوں کا جنسی عمل مخالف جنس کے ساتھ جنسی عمل سے کہیں زیادہ پوِتر ہے کیوں کہ اس میں شکاری اور شکار کی کوئی تقسیم نہیں۔

آپ اس سب کو قانونی شکل نہیں دیں گے، پھر بھی یہ ہوتا رہے گا اور ہوتا آیا ہے۔ لیکن شاید اسے قانونی شکل دینے سے اُن لاکھوں بچوں کو بچایا جا سکے جو اپنی غربت، یتیمی اور پیٹ کی بھوک کی خاطر رات ٹرک ڈرائیورز یا مدرسے کے کسی مولوی کے ساتھ گذارنے پر مجبور ہیں۔

 پنجاب سے خبر آئی ہے کہ صوبے میں لڑکوں کے ساتھ جنسی جرائم کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہمارے مذہبی حضرات کے پاس جنسی جرائم کے واقعات کے جواب میں پردے کے سوا کوئی جواب نہیں تو سوال یہ ہے کہ لڑکوں کو بھی پردہ کرائیں؟

علی سیٹھی نے تردید کی ہے یا نہیں کی، جتنی جلدی جذبات اور روایات کی بَہ جائے جدید علوم کی روشنی میں کوئی فیصلہ نہ کیا گیا، وہ سب ہوتا رہے گا جو اس ڈاکیومنٹری میں دکھایا گیا:

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد مجھ سے الجھنے سے پہلے، جگر تھام کر یہ سب دیکھ لیں، پھر فیصلہ کریں۔