ہمارے ثقافتی نظام اور جمہوری تعلیم 

Naseer Ahmed
نصیر احمد

ہمارے ثقافتی نظام اور جمہوری تعلیم 

از، نصیر احمد

i. گئو رکھشا اور فاشزم

مذہب کے معاملے میں ریاست اور حکومت کی جانب داری کے بعد اقلیتوں سے زیادتی کی روک تھام نا ممکن ہو جاتی ہے۔ انسانوں کے ایک گروہ کو انسانوں کے دوسرے گروہ پر ایک برتری حاصل ہو جاتی ہے۔ گروہی شکل میں یہ برتری انسانی ہم دردی کو ضرر پہنچاتی ہے۔

اس جانب داری کا پھر کیس بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے خرد اور سائنس کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ریاست میں جمہوریت اور شہریت کی ترویج نہیں ہو پاتی۔ افراد اور گروہوں میں پُر امن ناتے بھی نہیں پنپتے۔

ریاست جس گروہ کی طرف داری کر رہی ہوتی ہے اس میں پارسائی کے دکھاوے کا ایک مقابلہ شروع ہو جاتا ہے جس سے انتہا پسندی کا ہی فروغ ہوتا ہے۔

ہندوستان میں گئو رکھشا کے معاملے میں ریاستی جانب داری مساوات، جمہوریت، شہریت، خرد، سائنس، انسانی ہم دردی اور کمیُونل ریلیشنز کو نقصان پہنچانے کی ذمے دار ہے۔

مذہب کے معاملے میں ریاستی جانب داری پاکستان، سری لنکا اور برما میں یہی نتائج پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہی حقیقت ہے کہ جمہوریت کی بناوٹ بھی کرنی ہے اور جمہوری ہونے کی کوشش نہیں کرنی۔ جمہوری اصولوں کی پاس داری بھی نہیں کرنی اور غیر جمہوری قوانین بھی نافذ کرنے ہیں۔

گوشت خوری کے خلاف کیسز موجود ہیں، جیسے بابائے افادیت نے کچھ اس طرح کہا تھا کہ سوال یہ نہیں کہ کون ہے، سوال یہ ہے کہ درد تو ہوتا ہے۔ اس لیے درد میں کمی لانا ذمے داری ہے۔ اس طرح کے دلائل کے زیرِ اثر بہت سارے لوگ گوشت خوری سے اجتناب کرتے ہیں۔ لیکن ابھی تک گوشت خوری انفرادی انتخاب کا ہی مسئلہ ہے۔ ہونا بھی چاہیے کہ اگر ریاست غذا، خوراک اور بھوجن طے کرنے لگے تو انفرادی آزادی ختم ہو جائے گی۔

لیکن زیادہ تر ہندوستانی صوبوں میں گائے کا ہی تحفظ کیا جاتا ہے۔ اور اس تحفظ کی وجہ بھارتی ہندووں، جینوں اور بدھوں کے مذہبی عقائد ہیں۔

ہندووں کے مذہبی عقائد کے مطابق گائے ہستی کی ایک پاکیزہ شکل ہے۔ اسے ماتا کا درجہ بھی حاصل ہے۔ ہندوستان کے مسلمان اور عیسائی  گائے کی اس عظمت کے قائل نہیں ہیں۔ گائے کے تحفظ کے ارد گرد کافی عرصے سے شناختی سیاست چلتی رہتی ہے۔ اس سیاست پر فسادات بھی ہوتے رہتے ہیں۔

ہندوستان میں ریاست کی مذہبی جانب داری کے زیرِ اثر گائے کے تحفظ کے نام پر لوگ قتل بھی کیے جاتے ہیں جن میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہوتی ہے۔

بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق گائے کے تحفظ کے ارد گرد تشدد میں پچھلے تین سالوں میں چوالیس افرد ہلاک ہوئے ہیں جن میں چھتیس مسلمان تھے۔

ان واقعات کی تفصیلات میں فاشزم کے نتیجے میں پیدا ہونے درد و غم کی تفہیم ہو جاتی ہے۔

بس ایک افواہ پھیلتی ہے، گروہ سا بنتا ہے اور پھر اس افواہ کی بنا پر مار پیٹ ہلاکتوں پر مُنتج ہوتی ہے۔ مار پیٹ کرنے والوں کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور اور قانون سے ان کا تحفظ بھی کیا جاتا ہے۔

 اب تو افواہ کے نتیجے میں قانون، انسانیت، جمہوریت، شہریت اور انسانیت بھولنے والوں سے تو یہ سوال پوچھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کہ گائے کا گوشت کھانا یا اسے بیچنا جرم ہونا چاہیے؟ کچھ مذاہب کے ماننے والوں کی ایک غذائی ترجیح کو ہر کسی پر کیوں نافذ کیا جائے؟ اس لیے کہ گائے ماتا جی ہیں؟

حیاتیاتی صداقت تو یہ ہے کہ گائے ماتا ہیں بچھڑے کی۔ کسی انسان کی نہیں ہیں۔ اب انسان یہ کہنے لگیں کہ گائے ہماری ماتا ہیں، اونٹ ہمارے پِتا ہیں اور سبزیاں باجیاں ہیں تو انسانوں کو اپنی غذا کے حوالے سے انقلابی تبدیلیاں لانی پڑیں گی۔ جو بھی غذا طے کریں گے اس سے کوئی دوسرا فرد پیار کا رشتہ جگا لے گا تو وہ غذا ترک کرنا پڑے گی۔

اب جو ہندووں کے لیے محترم اور مقدس ہے وہ سب کے لیے محترم اور مقدس نہیں ہو سکتا۔ ورنہ دنیا میں اتنے مذاہب ہوتے ہی کیوں؟ اب ہندووں کی دل داری کے لیے کوئی گائے کا گوشت نہیں کھاتا تو یہ انتخاب موجود ہے۔

لیکن جبری پابندیاں غیر جمہوری ہیں۔ جب ریاست مذہبی جانب داری برتتی ہے تو غیر جمہوری فاشسٹ ہو جاتا ہے۔ افواہوں کی بنیاد پر وحشی ہو جاتا ہے۔

فاشزم کی پیدا کردہ اس وحشت سے بچنے کے لیے مذہب کے معاملے میں ریاستی غیر جانب داری، قانون کے سامنے انسانی برابری اور قانون کی خرد پر استواری ضروری ہے۔

ii. دنگے اور فاشزم

جامعہ کے غداروں کو

گولی مارو سالوں کو

پچھلے سال دلی میں ہندو مسلم فسادات بھڑکانے والے بھاجپا کے نیتا جی کو لڑکی نے ان کی ایک ویڈیو دکھائی جس میں وہ یہ بھڑکاؤ نعرہ لگا رہے تھے۔ لیکن وہ مان کے نہیں دے رہے تھے کہ ان کے نعرے کا کچھ اثر ہوا۔

گولی چلی بھی۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق چالیس مسلمان اور تیرہ ہندو جان سے گئے۔ لیکن نیتا جی کی ریٹنگز بڑھ گئیں۔

پھر رپورٹروں نے نیتا جی کو نیتا جی کے سنَّت سادھو کے بھڑکاؤ بھاشن کی داد دینے کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے اس بات کی ذمے داری لینے سے بھی انکار کر دیا۔

فسادات کے شکار ہونے والوں میں وہ صرف ہندو نام لے رہے تھے لیکن مسلمانوں کے خلاف اپنے تعصب کا بھی انکار کر رہے تھے۔ بڑے بڑے جھوٹوں میں دھمکیاں بھی چل رہی تھیں اور ستم زدوں پر الزام بھی دھر رہے تھے۔ غیر متعلق معاملات کو چھیڑ کر اصل بات سے توجہ بھی ہٹا رہے تھے۔

صحافی اچھے تھے۔ یہ پینترے بدل بدل کر انھیں مدافعت کی طرف دھکیلنے پر مجبور کر رہے تھے لیکن انھوں نے نیتا جی کو دنگا بھڑکانے کے معاملے سے بہت زیادہ دور ہٹنے نہیں دیا۔

لیکن اتنے صاف اور سفید جھوٹوں اور اتنے کھلے ڈلے تعصب کے با وجود مقبولیت بڑھ رہی ہے تو دنگے کے ستم زدوں کو انصاف تو نہیں ملے گا۔ انصاف تو کیا، ایک اور رپورٹ کے مطابق پولیس شکایت ہی درج نہیں کرتی۔ جنھوں نے ہمت حوصلہ کر کے کرا لی ہے ان کے پیچھے سَنگھ پریوار کے غنڈے پڑے رہتے ہیں۔

ان دنگوں کا ایک اور استعمال بھی سامنے آ رہا ہے کہ ان کے ذریعے حکومت اپنے ہر قسم کے مخالفین کو ان دنگوں میں ملوث کرتے ہوئے اختلافِ رائے کے حق کو ہی ختم کر رہی ہے۔ نیتا جی کپل مشرا کو پولیس نے بے گناہی کے پروانے جاری کر دیے ہیں۔ ظاہر ہے پولیس بھی ملی ہوئی ہے۔

دنگوں میں مسلمانوں نے بھی تشدد کیا ہے؛ لیکن کیا کم ہے اور سہا بہت ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سادھو سنت، فاشسٹ پارٹیاں، فاشسٹ پارٹیوں سے جڑے ہوئے جتھے، بھاجپا کے تحت کام کرتے سرکاری ادارے اور ارنبھ گوسوامی جیسا میڈیا اور اس سب کی داد دیتے ہوئے ہندووں کی اکثریت ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے زندگی بہت کٹھن کر چکے ہیں۔

اس سب کے با وجود فاشزم کے سنگ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا کھیل بھی چلتا رہا اور بھاجپا ایک دو اور الیکشن جیت گئی تو مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

دنیا کو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ نہ صرف ہندوستان میں بَل کہ جنوبی ایشیا کے اکثر ملکوں میں بربریت مظلومی کا روپ دھارنے کی ماہر ہے۔ اس منافقت کی مذہب اور وطن کے نام پر بہت زیادہ حمایت بھی ہے۔

میڈیا ہندوستان کا ایسا ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے بات کرنے کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔

ڈیکسٹر فلکنز کے مطابق ارنبھ گوسوامی کے ایک پروگرام میں ارنبھ اپنے ایک مہمان وارث پٹھان سے سینما میں قومی ترانے پر کھڑے ہونے کے مجوزہ قانون پر بات کر رہے تھے۔ وارث پٹھان نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ترانے پر کھڑا ہونا ذاتی انتخاب کا مسئلہ ہے۔

ارنبھ نے پھر پٹھان کو بات نہیں کرنے دی۔

تم ترانے پر کیوں نہیں کھڑے ہو سکتے؟ نہیں کھڑے سکتے؟ اس سے تمھارا کیا مسئلہ ہے؟ پٹھان بات کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن ارنبھ چیختے رہے۔

میں تمھیں بتاؤں گا کیوں؟ میں تمھیں بتاؤں گا کیسے؟ میں بتاؤں گا۔ تم کیوں نہیں ٹھہر سکتے، میں تمھیں بتاؤں گا۔ قوم سے غداری مت کرو۔ قوم سے غداری مت کرو۔ قوم سے غداری مت کرو۔

اس طرح کی چیخیں ایسی معاشرتی حقیقت طے کر چکی ہیں جس میں مسلمانوں کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

کانگریس شروع سے ہی اسی پالیسی پر گام زن ہے کہ جمہوریت اور سیکولر ازم کی بناوٹوں کی آڑ میں ہندوستان کے لوگ ایک قدیم ثقافت کی عظمت سازی کرتے ہوئے عدم مساوات سے بندھے رہیں۔

جب سے ہندو برتری کا فاشزم بے باک اور برملا ہوتا جا رہا ہے کانگریس اقلیتوں کے تحفظ پر واضح مؤقف نہیں لے رہی۔ اس ڈپلومیسی کی وجہ سے ان کی مقبولیت کم ہی ہو رہی ہے لیکن وہی مسئلہ کہ نتائج کچھ بھی ہو جائیں حقیقت نہیں ماننی۔ اب تو وہ اپسرا جسے گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں فلمی بات بھی نہیں رہی۔ لیکن چمٹے ہوئے ہیں اپنی اپسرا سے۔

جمہوریت اور ریاست کی مذہب کے حوالے سے غیر جانب داری سے اقلیتوں کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ اکثریت کے لیے بھی یہی بہتر ہے۔ تاریخ اور حالاتِ حاضرہ سے متعلق ذاتی اور اجتماعی انا کی تسکین کرتے بڑے بڑے جھوٹ انسانیت سے ہی تو محروم رکھے ہوئے ہیں۔

ان بڑے بڑے جھوٹوں کے تشکیل کردہ مانُو سائنسی ایجادات کے کرشمے بھی نہیں کر رہے۔ بس ظلم ہی تو ڈھا رہے ہیں۔ اس لیے کچھ بہتر کرنے کے لیے جمہوریت سے تھوڑا مخلص ہی ہونا پڑے گا۔ ورنہ رہیں جعلی روحانیت کے تراشیدہ مانو کے مانُو۔

iii. سادھو سنت اور فاشزم

جگی واسو دیو عرف سدھ گرو؟ بات کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے۔ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ فن کار سچ بول رہی ہے کہ جھوٹ۔ پیچھے پڑ گئے تو ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں فن کار سدھ گرو سے بات کر رہی تھی۔

فن کار کا تو نہیں پتا چلا لیکن سدھ گرو تو جھوٹ بولے جا رہے تھے۔ روحانیت کی آڑ میں نفرت پھیلاتے جھوٹ، آدھے ادھورے سچ، اور منطقی مغالطوں کا سہارا لے کر اپنے ذہن میں قائم تعصب کا اثبات۔

قدیم ہندوستان کے سادھو موجودہ دور کے سائنس دانوں سے لائق تھے۔ مغربی دماغ بھارت کی دانائی کی تفہیم نہیں کر سکتا۔ کائنات کا مرکز فرد کی ریڑھ کی ہڈی میں ہے۔ لبرلز جنونی ہیں۔ مغربی تعلیم صرف چیر پھاڑ سکھاتی ہے۔

دانائی کیا ہے؟ درون میں کچھ ہے جو کائنات سے ہم آہنگ ہے، نیستی پر استوار کائنات سے، یوگا کی مشقیں جس سے شناسا کراتی ہیں اور مکتی مل جاتی ہے۔

دانائی کے مطابق کائنات کے ایک خالق کو ماننا بے وقوفی ہے۔ بات سمجھ آتی ہے کہ کہاں جا رہی ہے۔ لیکن  دانائی ایک قوم بھی چاہتی ہے۔ بنگلہ دیش سے مہاجرین نہیں چاہتی لیکن بنگلہ دیش بھارت کا حصہ بنانے کی آرزو مند بھی ہے۔

گئو رکھشا کے معاملے پر ہوتے قتل و غارت کو ہندوستان کے قومی مزاج کا انصاف بھی کہتی ہے اور پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کی منافقت بھی کرتی ہے۔ اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر احتجاج کرنے والوں کو بدیسی یونی ورسٹیوں کے پڑھے لکھے کہہ کر مسترد بھی کرتی ہے۔

کائنات بے حد ہے انسان کی مکتی بھی جب ہی ہو گی جب آتما شریر کی حد سے بے نیاز ہو جائے گی لیکن مہاجروں کو روکنے کے لیے بھارت کی سرحدوں پر پہرے بھی سخت چاہییں۔

دانائی یہ بھی کہتی ہے کہ دنیا میں محض منتظم ہوئے بھارت میں فطین پیدا ہوئے کیوں کہ یہاں دانائی فرد پر اصرار کرتی ہے لیکن تھوڑی دیر بعد یہ کہنے لگتی ہے کہ انفرادیت کے خاتمے کے بغیر فرد کو شانتی نہیں ملے گی۔

دوسری دنیا گروہوں میں بٹی ہے لیکن ہندوستان میں فرد کی عہدِ قدیم سے ہی بڑی اہمیت ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگتی ہے کہ یہاں تو کروڑوں کو مناسب غذا نہیں ملتی۔

سادھو کی سمادھی کی بات کرتی ہے۔ سمادھی دانش سے شانتی کا نام بتاتی ہے۔ بات تھوڑی بڑھتی ہے تو خبر ہوتی ہے کہ سادھو کی خود کشی کی عظمت سازی ہو رہی ہے۔ پھر ہندوستان میں نو جوانوں میں بڑھتی خود کشی کے گِلے کرنے لگتی ہے جو کہ دانائی کے مطابق مغربی تعلیم کا نتیجہ ہیں ہوتی۔

بھارتی حکومت نے جگی واسو دیو کو پدم وبھوشن جیسا اعزاز دیا ہے۔ مودی سرکار نے دیا ہے۔ وہی سرکار اور جوگ کا پرانا رشتہ جس نے ہندوستان کو ابھی تک پس ماندہ رکھا ہوا ہے۔

مودی کے حامی ہیں، گائے کے گوشت پر پابندی کے حامی ہیں، مسلمانوں کی آئینی برابری کے خاتمے کے حامی ہیں۔

فن کار دلیر اور سچی تو بہت بنتی ہیں۔ لیکن ہمارے خطے کا یہ مسئلہ ہے کہ جہاں سچ کہنا بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے ہمارے ہاں کے لوگ داس اور داسیاں بن جاتے ہیں۔ کوئی سہتی سی ہوتی تو کہتی:

جِویں خصم کپَتڑا رن بھنڈے کیتی گل نوں پیا گھسیٹ دا ای

رناں گنڈیاں وانگ فرفیج کردا توڑن ہارڑا لَگڑی پرِیت دا ای

اکے خیر ہتھا نہیں ایھ راول اکے چیلڑا کِسے پلِیت دا ای

نہ ایھ جِن نہ بُھوت، نہ رچھ باندر، نہ ایھ چیلڑا کِسے اتیت دا ای

لیکن سہتی بھی تھوڑا عرصہ جوگی کی اصلیت دکھانے کے بعد اپنے مفادات کے زیرِ اثر چمت کار کی باندی بن گئی تھی۔

پھر کہتے ہیں مغربی اثر نہ ہوں؟ یہ انسان دشمن فریب، جمہوری تعلیم کے ذریعے ہی کم ہوں گے۔ ہمارے ثقافتی نظاموں میں وہ قوت اور ہمت نہیں ہے کہ اس فریب کاری کا کچھ بگاڑ سکیں۔