ازہر ندیم کی کتاب، نظم میرا زینہ ہے، کا ایک جائزہ  

نظم میرا زینہ ہے

ازہر ندیم کی کتاب، نظم میرا زینہ ہے، کا ایک جائزہ

تبصرۂِ کتاب از، سمیرہ رفیق، اسلام آباد

جناب ازہرندیم کا خوب صورت شعری مجموعہ نظم میرا زینہ ہے میں کل ۷۳ نظمیں ہیں۔ جن میں بیش تر نظمیں محبت کے احساسات کے گرد رواں دواں ہیں، اور باطن میں جا گُزیں۔

حقیقتاً یہی وہ بنیاد ہے جو شاعر کے پورے وجود اور شعور سے لپٹی ہے اور اسی کے زیرِ اثر شاعر کے ہاں رنگ، پھول، خوش بُو اور موسموں سے لطف حاصل کرنے اور سرشاری کی کیفیت بیدار ہوتی ہے۔

محبت ہی کے سنگ جستجو اور دریافت کی تمنّا نئی فضاؤں اور کہکشاؤں کے پار لے جانے کے جنون کی وجہ اورجواز ہے، جو محبوب سے کسی طرح وابستہ رہنے سے ہی ممکن ہے کہ تخلیق کار کی تمام تر سچائیوں کا مرکز ہی وہ ایک انسان یا جبلی تقاضا ہے یا ان کے نزدیک فطرت کا اصول ہے، جس سے نور و توانائی حاصل کر کے وہ نمُو پاتا ہے۔

توانائی کا یہ منبع ہی تخلیق کار کے وجود میں ہزاروں پھول کھلانے اورانھیں تا عُمر مہکائے رکھنے کا سبب ہے اور مجموعی طور پر وجود کی تکمیل اور بقاء کا ضامن بھی ہے۔

خود تمہارے لہجے…

میرے اندر نئے موسموں کا باعث بنتے ہیں، اسی طرح جب تم میرے لفظوں کو…

 اپنے اندر اتار کر روشن رکھتے ہو…

تو صرف میرے لفظ ہی معنی سے نہیں بھرتے…

میرا ماضی، حال، مستقبل کے پیمانوں سے آگے پھیلا وجود…

 تحرک اور توانائی سے چھلک جاتا ہے….

اور مجھے یوں لگتا ہے…

 ہر پل یہی کام کرتے رہنا ہے…

 مجھے تم سے کلام کرتے رہنا ہے۔“

(نظم: فطرت کا اصول)

تخلیق کار کی خواہشات، جستجو، تسخیرِ وجود اور فکری سفرکا ایک بنیاد کے ہم راہ آگے بڑھتے جانا ایسا عمل ہے جو تخلیقی وفور کی شدت سے اپنا اظہار قلم بند کرنے کا خواہاں ہے۔

وہ خواب نگر کا باسی بن کر اپنی پلکوں پر کئی سپنے سجاتا، ہجر و وصال کی کہانی سناتا ہے، اپنے ادھورے پن سے تکمیل کا سفر صفحۂِ قرطاس پر سجا کر محبوب اور اس سے ملنے والے اس احساس کی نذر کر دیتا ہے، جسے پڑھ کر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سفر کی بنیاد کا آغاز اور انتہا کیا ہے کب اور کیوں کر نظم نگار کو محسوس ہونے لگا کہ اس ایک کے سبب دریافت کے در کھلنے لگے ہیں۔

پانی کے گیت، اور بارش کی آواز سماعتوں میں گھلنے لگی۔ پتوں اور پھولوں کی باتیں دھیان میں آنے لگیں۔ موسموں سے دوستی ہونے لگی۔ پانے اور کھونے کا فرق سمجھ آنے لگا۔ یہ تمام احساسات اور جذبے اسی مرکز کی دین ہیں جسے جان کر نظم نگار نے سب کچھ جانا۔ اسی لیے شاید ابتدا یا آغاز کے لیے ازہر ندیم نے اسی نظم کا انتخاب کیا ہے:

میں نے تم کو جان کے سب کچھ جانا ہے…

تم نے مجھ کو بتلایا ہے..

پیڑ کہانی کہتے ہیں…

دریا دِل میں بہتے ہیں…

پانا کیا ہے..

کھونا کیا ہے…

ہونا اور نہ ہونا کیا ہے…

میں نے تم کو جان کے سب کچھ جانا ہے۔“

(نظم: تم نے مجھ کو سب بتلایا ہے)

 احساس اور جستجو کا یہ باطنی سفر جب آگے بڑھتا ہے تو ازہر ندیم بیان کے نئے طریقے و سلیقے تلاش کرتے ہیں اپنے من کی بات کہنا چاہتے ہیں تو نظم کے پیرائے میں اپنا احساس انڈیلتے ہیں۔

اس تگ و دو میں وہ نظم کے زینے پر آ بیٹھتے ہیں یوں اس کاوش کی انگلی تھامے نظم ان کے باطنی واردات کی جھلک بننے لگتی ہے۔

پھر شاعری کے زینے پار کرکے وہ ان بلندیوں تک رسائی چاہتے ہیں جہاں وہ چاند متمکن ہے، پر یہ تب ہی ممکن ہے جب نظم کے توسط سے اظہار کے یہ زینے مکمل ہوں گے تبھی ان بلندیوں تک رسائی کا کوئی حق ادا ہو سکے گا مگر ابھی تو تخلیق کار کا یہ پہلا زینہ ہے اور اس زینے سے ابھرتی خواہش انھیں سفر جاری رکھنے پر مائل بَہ جستجو رکھتی ہے۔

بَہ غور دیکھیں تو کتاب کا سرِ ورق اسی خیال کا منظر نامہ پیش کرتا ہے، جو شاعر کا مرکز اور مرکزی خیال ہے، اور باقی سب کچھ اسی خیال سے جنم لینے والے احساسات کا حاصل ہے:

 ”نظم میرا زینہ ہے…

آسماں پہ جانا ہے…

 چاند لے کر آنا ہے…

اس زمیں کے اوپر اِک کہکشاں سجانی ہے…

تاروں اور پھولوں کو یوں بہم مِلانا ہے…

روشنی مہک جائے…

خوش بُوئیں فروزاں ہوں …

تیرے پاؤں کے نیچے ان کو پھر بچھانا ہے۔“

(نظم: نظم میرا زینہ ہے)

 لیکن پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ سب کچھ کہہ دینے کا ڈھنگ تلاش کرنے والا تخلیق کار کہیں نہ کہیں محسوس کرتا ہے کہ اسے محبت بھرے لفظوں اور جملوں کے تخلیق کرنے کی خواہش ہے، ایسی نظموں اور گیتوں کی آرزو، جس سے زبان پر ایک تاثیر پیدا ہو لیکن کچھ اس طرح کہ ان کا تخلیق کردہ ایسا کوئی جملہ ہمیشہ ہر سُو جگمگائے۔

یہ چاہت مختلف نظموں میں جا بَہ جا دکھائی دیتی ہے۔ ایک جگہ وہ واضح طور پر محبوب سے مخاطب ہیں کہ وہی ان کا وقت اور تخلیق کا نہایت خوب صورت عزم ہے۔

 بَہ قول ازہر ندیم:

”مجھے نظم زندگی کی طرح اور زندگی کے سب سے معتبر جذبے محبت کی طرح بے کراں محسوس ہوتی ہے۔ میں نظم کو اپنی محبوبہ سمجھتا ہوں کیوں کہ نظم سے وصال مجھے ادھورے پن اور تنہائی کی کیفیت سے نکال دیتا ہے اور وِصال کے ان لمحوں میں مجھے اپنی ذات تکمیل کا سفر طے کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔“

یوں شاعری اور محبت، اور محبوب اور نظم ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔

اور وہ جملہ ابد تک…

کتاب، خواب، اور فضا میں جگ مگائے…

میں تمھاری روح کے لیے…

 اس جملے کا سنہری لباس ڈھونڈنے کے لیے…

سَر گرداں رہوں گا …

تب تک تم میرا عِجز بھرا اعتراف اوڑھ لو…

اور اس دیے کی لَو کی طرف دیکھتی رہو…

جسے میں اپنی خواہش کہتا ہوں…

محبت سے بھرا ایک جملہ تخلیق کرنے کی خواہش۔

(نظم: ایک جملے کی تلاش)

اب تم میرا وقت بھی ہو …

 اور تخلیق کا عزم بھی ہو …

اور تم ہو پہچان مری…

اب تم میری نظم بھی ہو…

اب تم اپنا نام محبت رکھ سکتی ہو۔

(نظم: اب تم میری نظم بھی ہو)


کچھ اور نذرِ ذوق:

شاعری میں ’عشرہ‘ کی حقیقت  از، رفیع اللہ میاں

منیرہ احمد شمیم کے افسانوں میں بکھری عورت: افسانوی مجموعہ بے گیان گوتم کے تناظر میں  تبصرۂِ کتاب از، سمیرہ رفیق، اسلام آباد


 بات جب جملے سے شروع ہوتی ہے تو بہت سے تأثرات کو بھی اپنے ہم راہ سمیٹتی ہے۔ احساس کی اس دنیا میں پھر وہ مرحلہ بھی آتا ہے جب ایک طرف تخلیق کار اپنے لفظوں اور جملوں کی تلاش میں ہے تو دوسری جانب وہ انفرادی احساس کے لیے اپنی پہچان کا حوالہ محبوب کے التفات کے پہلو بہ پہلو اس کے دیکھنے سے مشروط سمجھتا ہے اس کی آنکھ کی ایک جنبش، ایک تأثر، یا ایک آنسو بھی دل کی دنیا ہلا سکتا ہے۔

اس اپنے کی آنکھوں سے ہی در اصل تخلیق کار خود کو دیکھ، سمجھ اور جان پاتا ہے۔ محبوب کا اندازِ بیان، تأثرحتیٰ کہ آنکھوں سے عیاں ہوتی خفیف سی اداسی اور خفگی بھی دل کے موسموں کو اداسیوں میں تبدیل کر دینے کا سبب بن جاتی ہے۔

اس تناظر میں خواب نگر کے اس باسی کا پورا وجود، خوشی، ہنسی، غمی، دکھ، درد، مکمل حیات، دریافتوں کا جہان محبوب کی وہ آنکھیں ہیں جو تخلیق کار کا اصل آئینہ ہیں۔

رنگوں اور روشنیوں کی زبان…

میں نے اِن آنکھوں سے ہی سیکھی ہے…

اب یہ آنکھیں میرا آئینہ ہیں…

میری پہچان کا واحد معتبر حوالہ…

تم اپنی آنکھوں کا بہت خیال رکھنا…

اب میرا ہونا تمھاری آنکھوں سے مشروط ہو چکا ہے۔

(نظم: اب میرا ہونا)

پھر احساس کے اس سفر میں جب  امتحان کے موسم آتے ہیں تو ضبط کے سبھی بندھن بھی ٹوٹ جایا کرتے ہیں اور چارہ گر سے پھر استدعا ہوتی ہے کہ وہ خوابوں میں بسنے والے اس تخلیق کار کی شکستگی کو بھی دیکھے اور ان خواب زاروں میں دفنائے گئے جذبوں کو بھی تلاشے، اور آ کر سانس بَہ حال کرے۔

ایسے بھی حالات میں وہ پُر امید ہے اور محبت کایقین پختہ ہے کہ اس جہاں میں احساس ہر پل زندگی سے بات کرتا ہے اور اپنے تمام تر امکانات کی راہوں پر خواب اور وجدان کی ہم راہی میں چلتا ہے۔

تخلیق کار احساس کی نظروں سے دنیا دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ رنگوں کی آوازیں اور لفظوں کی خوش بُو اسے اپنی اور بلاتی رہتی ہے، اور محبت ہر پل محوِ رقص لگتی ہے یوں کہ اسے وہی محبوب چہرہ دکھائی دیتا رہتا ہے۔

ایسی کیفیات کے عالم میں محبوب سے وِصال اور اسے حقیقتاً دیکھنا ایک اور نئی زندگی پا لینے جیسا ہے۔ ایک نئی دُنیا کی دریافت کا عمل __ لطافتوں کے احساس کے زیرِ اثر شاعر خواب ناک ماحول میں جیتا ہے۔ حقیقت میں تخیل کو ملاتا ہے اور اپنے تصور کا جہان آباد رکھتا ہے، جس سے تخلیق کار کو نئی حیرتوں کا سامنا ہے۔

ہوا ہوں میں کوئی بادل کہ پھر کوئی پرندہ ہوں …

اگر ہوں تو فقط اِک خواب کے منظر میں زندہ ہوں۔

(نظم: میں اِک احساس کی نظروں سے دنیا دیکھتا ہوں)

لطافتوں کے احساس کے سنگ، نظم نگار پرجب ادراک کے دَر وا ہوتے ہیں تو وہ محسوس کرتا ہے کہ فطرت کی جملہ خوب صورتیاں اور نیرنگیاں جب کسی قید کو نہیں مانتیں تو محبت کا احساس بھی اس بات کا روا دار نہیں ہے کہ اس کے مخصوص معنی متعین ہوں۔

نہ ہی کوئی ایسی تشریح ہو سکتی ہے جو اس کی وسعتوں کو قید کر ے اور نہ ہی اسے کوئی معروض درکار ہے۔

گر ہوا، روشنی، پھول، دریا، مگن اپنے ہونے میں ہیں …

گر فضا، رنگ، موسم، پرندے کسی قید کو بھی نہیں مانتے …

تو یہ احساس چاہت بھرے نام کا …

کیوں روا دار ہو…

اس کے معنی مفاہیم طے ہو سکیں۔

(نظم: کیا محبت کو معروض درکار ہے)

اس لیے پورا اور مکمل عشق تہذیب کے انتہائی محدود سانچوں میں نہ سما سکتا ہے، نہ ہی روایات اور رسم و رواج کی مکمل اور پورے عشق کے آگے کوئی حیثیت ٹھہرتی ہے، حتٰی کہ تاریخ ایک ادھورا حوالہ لگنے لگتی ہے۔

ایسے افراد کا حوالہ جو عمومیت کے دھندلکے میں یوں غائب ہوئے کہ کوئی ان کا نام بھی نہ سننا چاہے گا کیوں کہ احساس کے منکر دلوں کے تار کو کوئی گیت نہیں چھوتا۔

یہ فطرت کی آواز کبھی نہیں سن پاتے۔ محبت کے معنی سے بھی نا آشنا ہیں یہ لوگ۔ حرف و سخن، علم و دانش سے شاکی یہ لوگ مردہ اور بے کار رسموں کی پاس داری میں میکانکی انداز میں جیے چلے جا رہے ہیں اور پھر بھی خود کو زندہ کہلوانے پر مُصر ہیں۔ جب کہ عشق میں فنا ہونے والوں کے نام، کہانیوں اور گیتوں کے ذریعے آج بھی زندہ ہیں۔

یہ رنگوں کا موسم جہاں بھی اُترا …

زمیں اِک عجب دل کشی میں نہائی …

 یہ نغمہ فضاؤں نے جب بھی  چھیڑا ہے …

یہ ایک لفظ سارے زمانوں میں زندہ ہے …

(نظم: یہ ایک  لفظ سارے زمانوں میں زندہ ہے)

کیسے لوگ ہیں چابی بھرے کھلونوں جیسے …

ناک کی سیدھ میں چلنے والے …

ایک ہی جیسی باتیں کرتے اپنے کرّ و فَر میں غلطاں ان کو بادل کچھ نہیں …

ان کو موسم کے رنگوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا …

پھولوں اور پرندوں کی یہ آوازیں سن نہیں پاتے …

ان کے دلوں کے تاروں کو کوئی گیت نہیں چھوتا …

یہ احساس سے منکر ہیں …

کیسے  لوگ ہیں …

لفظ محبت سے نا واقف …

حرف سے نالاں …

سوچ کے دشمن …

مردہ رسموں کے رکھوالے…

خود کو زندہ گنواتے ہیں …

(نظم: ان کو بادل کچھ نہیں کہتے)

نظم، ان کو بادل کچھ نہیں کہتے کو پڑھتے ہوئے اسی نظم کی تِھیم پر مبنی ابنِ مسافر کا افسانہ گُم راہ یاد آ گیا  جس میں کردار ایسی ہی ناک کی سیدھ میں چلتی بھیڑ سے اپنا راستہ الگ کر کے چلتا ہے تو صعوبتیں جھیلتا مسافر سفرِ نا تمام کی ڈگر پر چل نکلتا ہے۔

سوچ و فکر کی دشمن، مردہ رسموں کے رکھوالوں کی بھیڑ سمجھ بوجھ سے عاری ہے۔ یہی وہ turning point ہے جب کسی سنجیدہ تخلیق کار کا سوچ کا سفر اسے بہت آگے لے جاتا ہے جہاں پہنچ کر وہ بھیڑ میں کھڑا مگر اس سے منفرد و مختلف سوچنے سمجھنے والا انسان بن جاتا ہے۔

اس فکر تک پہنچنے کے بعد کی کڑی وہ مقام ہے جب ازہر ندیم کا تخلیقی self ان سےان کو بادل کچھ نہیں کہتے، اس موسم کے حسن کے پیچھے، اور یوں بھی ہو سکتا ہے جیسی خوب صورت نظمیں لکھواتا ہے۔ اور یہ استعاراتی نظمیں اپنے بیان میں symbolic بن جاتی ہیں۔

یوں فکری اور تخلیقی سفر میں آگے بڑھتے ہوئے نظم نگار کی فکر ایک ایسے مقام پر جا کے ٹھہر جاتی ہے جہاں وہ سوچنے لگتا ہے کہ زندگی شاید کسی خواب کا عکس ہو، اور شاید وہ خواب سی حقیقت زندگی کے بعد ہو۔ فطرت کے سبھی مظاہر محض اس عکس کی علامتیں ہوں۔

اس ازلی اور حقیقی حسن کی جسے ثبات حاصل ہے اور یہ زندگی اور مظاہرِ فطرت اس کا ایک پرَتَو ہیں؛ اور شاید فہم حاصل کرنے کے سبھی اُصول دھوکا ہیں یہاں۔ محبت کا عمل سب تبدیل کر دے اور قت کا بہاؤ کبھی رک جائے۔ جہاں پہنچ کر سب کچھ محبوب کی آنکھ میں رُک کر لا زوال عشق اور ابدیت کی جانب لے آئے۔ جسے سوچ کر پھر کائنات مزید پُر اسرار نظر آنے لگتی ہے۔

اس لیے جو کچھ دِکھ رہا ہے ان سب کی بنیاد میں اور بہت کچھ پوشیدہ ہے جو کچھ کہ عیاں نہیں ہے۔ خواب سی اس زندگی کے پسِ پردہ اس ابدی زندگی کا سچ پوشیدہ ہے جو اس زندگی میں ہمیں خواب سا لگتا ہے۔ لہٰذا اس لا زوال عشق کی آنکھیں حیرت سے دیکھتی اور سوچتی ہیں:

سطحِ آب پر روشنیاں سی تیرتی ہیں …

اِک مہتاب بھی لیکن زیرِ آب چھپا ہے …

 عشق کی آنکھیں حیرانی سے سوچ رہی ہیں …

کیا کیا یہ اسباب چھپا ہے…

خواب کی تہہ میں خواب چھُپا ہے …

(نظم: اس موسم کے حسن کے پیچھے)

زندگی کسی خواب کا عکس ہو سکتی ہے …

وجود کسی لطافت کا مظہر ہو سکتا ہے …

چاند، ستارے، سورج علامتوں کا نام ہو سکتے ہیں …

تفہیم کے اصول دھوکا ہو سکتے ہیں …

محبت کا عمل سب کچھ تبدیل کر سکتا ہے …

وقت کا بہاؤ تمھاری آنکھوں میں رُک سکتا ہے …

کائنات اور پُر اسرار نظر آ سکتی ہے …

زندگی کسی خواب کا عکس ہو سکتی ہے۔

(نظم: یوں بھی ہو سکتا ہے)

تلاش اور جستجو کے اس سفر میں، ازہر ندیم کے فکر کا یہ مقام اپنی بلندیوں پر نظر آتا ہے کیوں کہ یہی وہ مقام ہے جو در اصل ان کے مرکزی خیال کی وہ extension اور سوچ کی بڑی جَست ہے جس سے نہ صرف جستجو، تلاش اور دریافت کا فکری سفر آگے سے آگے بڑھتا دِکھائی دیتا ہے بل کہ یہاں قاری کو محسوس بھی ہوتا ہے جیسے ازہر ندیم سامنے کی دنیا سے ما وَرائی جہانوں کی بات کرتے ہیں، تو یہ حوالہ افلاطون کے نظریے کی بازگشت معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں یہ نقل ہے اُس اصل کی جو عالمِ اَمثال میں پڑی ہے۔

ازہر ندیم کے فکری سفر اور شعری منطق کی اس بنیاد کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے گویا وہ کہہ رہے ہوں کہ محبوب ازلی حسن کا پَرتَو ہے۔

ازلی حسن اور اس کی حقیقت کسی اور جہان میں ہے، اور اصل میں ہم اس ازلی حسن کی کشش کی طرف کچھے چلے جاتے ہیں۔ محبوب کا حسن اس ازلی حسن کی کشش کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

جب تخلیق کار پر ازلی حسن کی بارگاہ تک رسائی کا فہم حاصل ہوتا ہے تو ان پر کھلتا ہے کہ محبوب حسنِ ازلی کا استعارہ ہے۔ جو حقیقت کا نشان، پتا اور وسیلہ بن کر سامنے آتا ہے۔

اس تناظر میں ظاہری حسن یا کائنات کا ظاہری حسن ہی، اصلی و ازلی حسن تک رسائی کا زینہ بہ زینہ سفر اور داستان ہے۔

ذہن کے اُفق پر جب یہ سوچیں جھلملاتی ہیں تو نظم کی صورت ڈھل کر اپنے اظہار کی راہیں استوار کر لیتی ہیں اور کچھ وقت کے بعد تخلیق کار کی سوچ اور فکر پھر سے محبت کے گہرے احساسات کے ساتھ وابستہ ہو کر محبوب کو نئے نئے زاویوں سے سوچنے، دیکھنے اور دعائیہ کلمات کہنے لگتی ہے۔

نہایت عقیدت سے سلام اور نذرانے پیش کرتی ہے۔ گو نظم نگار کے نزدیک عمومیت کے دھندلکوں میں گم ہونے سے بہت سی اچھائیوں، بھلائیوں، لطافتوں، محبت کے خزانوں اور سچائیوں سے بھر پُور زندگیاں وقت کی اجتماعی یاد داشت سے فراموش ہو گئیں مگر ان کا عکس اور خوش بُو محبوب کے ساحلوں سے اَن گنت گیتوں کی صدا کی صورت آتا ہے۔

ایسے محبوب کو ملنا اور جاننا نئی دُنیا کی دریافت کا عمل ہے۔ اس لیے شاعر کی عاجزانہ دُعا ہے کہ محبوب کا ہر سفر کومل سُروں کے گیت کی شفاف لہروں پر طے ہو۔

وہ جہاں بھی جائے اس کی دست رَس میں ایسی اقلیمِ محبت ہو کہ ہر پل اس کے قدموں تلے لطافت ہی لطافت ہو۔ وہ کیسے کہے اور کیسے بتائے اور بہت کچھ جو نظم میں ڈھل کر اپنے اظہار کی تکمیل کو پہنچے۔

خواب نگر کے باسی کے سب خواب کاغذ پر مختلف رنگوں کی صورت اتریں تو اندر کے احساسات کی خوش بُو باہر پھیل سکے۔ تو شاید خالی سی کوئی شام مکمل ہو جائے، کہیں ریاضتِ حس کی تسکین ممکن ہو اور اس مقام پر عبادت جیسے لفظ کا گماں پیدا ہو …

یہ جو ساری بات ہے …

گر یہ نظم کی صورت ڈھل جائے…

یہ جو لفظ ہیں ان میں گر ترتیب کا منظر پیدا ہو …

یہ جو خواب ہیں کاغذ پر اپنا رنگ بکھیریں تو …

یہ اندر کی خوش بُو باہر پھیلے تو …

یہ سَر مستی اپنا رقص دِکھائے تو …

وقت کا پہیہ آگے کو جا سکتا ہے …

اک خالی سی شام مکمل ہو سکتی ہے۔

(نظم: یہ اندر کی خوش بُو باہر پھیلے تو)

جہاں دعائیں اور نیک تمنائیں محبوب کی سلامتی چاہتی ہیں وہاں کرافٹ اور آرکِی-ٹَیکٹ کی عمدگی لیے یہ نظمیں خیال کی چاشنی، قرأت کا لطف، احساس کی لطافت، عجز و انکسار، ادب اور خوب صورتی کا احساس دِلاتی ہیں…

اے لبِِ گویا! اے میرے نغمہ گر!

اے مثالِ حسنِ صوت!

اے جمالِ خوش کلام!

تیرے حرف و لہجہ مجھ پر قرض ہیں

قرض ہے مجھ پر تیری آواز کا

قرض مجھ پر تیرے ہر انداز کا

میرے لفظوں پر تیری موسیقیت واجب ہوئی۔

اے لبِ گویا! تری باتوں کے رنگ

جیسے جھرنوں کی صدا

جیسے بجتے جَل تَرنگ

اے لبِ گویا! اے میرے نغمہ گر!

تیری باتوں سے میرے گیتوں کو ایک راستہ ملا۔

(نظم: اے لبِ گویا)

اے جمالِ یار تیرے چشم و لب کی خیر ہو

خیر ہو ان موسموں کی جن کا سر چشمہ ہے تو

یہ ہوائیں جن میں تیرے رنگ ہیں چلتی رہیں …

اے جمالِ یار تیرے قُرب کی ہر ایک ساعت کو سلام

سچ تو یہ ہے ہجر تیرا بھی کسی اعزاز سے کچھ کم نہیں

تیرے حُسنِ ظاہر و باطن سے مہکی ان فضاؤں کی قسم

تیرا ہونا سر خوشی، تیرا ہونا تازگی، تیرا ہونا زندگی

اے جمالِ یار تیرے چشم و لب کی خیر ہو۔

(نظم: اے! جمالِ یار)

اور یوں محبت کے اظہار کا نظم کی صورت یہ پہلا زینہ، نہایت عجز و انکساری لیے بیاضِ عشق سے ہوتا، کتاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ایک ایسا شعری مجموعہ جس میں آغاز یا اختتام تک ایک ایسی روانی اور ٹھہراؤ ہے جو برسوں کی ریاضت اور تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔

اسی ٹھہراؤ نرمی اور مدھم پن کے حصار میں تخلیق کار کے جذبات، احساسات اور فکر کا بہاؤ ایک تسلسل سے نہایت شفاف انداز میں بہتا اور نظم کے قالب میں ڈھل جاتا ہے کہ ابلاغ بھی بَہ آسانی ہو جاتا ہے اور ان کا احساس اور فکر ایک ایسی ندی کی لہر کی صورت ہم تک ترسیل ہوتا ہے کہ ندی کا پانی ہولے ہولے رواں رہتا ہے، جس میں کہیں شدت کا اُتار چڑھاؤ نہیں۔ بل کہ جسے محسوس کر کے دھیمے پن کا احساس ہوتا ہے اور ادب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

کبھی کبھی احساس اور فکر محض لفاظی اور گنجلگ خیالات سے بننے والی تہوں کے نیچے دب یا چھپ جاتے ہیں۔ یوں اظہار نہایت پیچیدہ اور مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن ازہر ندیم کے ہاں کوئی ایسی شعوری یا غیر شعوری کاوش معلوم نہیں ہوتی کہ جس پر کوئی اور رنگ نظر آئے یا ایسا بیانہ معلوم ہو جو عمومی طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس شعری مجموعے میں فکری و فنی حوالے سے اُسلُوب کی ایک ایسی خوب صورتی موجود ہے جسے جاننے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ازہر ندیم کے ہاں متن کی تشکیل یا لفظوں کا چناؤ احساس کو ابھارتا ہے اور ان کی ہر نظم، ہر بات ہر سطر ان کی باطنی دنیا کا واضح عکس بن جاتی ہے، جس میں کوئی ملاوٹ نہیں۔ یوں ان کے تمام فن پاروں میں خالصتاً ان کی اپنی ذات اور احساسات کی چھاپ ہے، اور یہی تحریر کی سب سے بڑی کام یابی ہے۔

اس حو الے سے ایک خوب صورت اور genuine اظہارِ خیال صفحۂِ قرطاس کے سپرد کر کے سب کے ساتھ بانٹنے کے لیے محترم ازہر ندیم صاحب کو ڈھیروں مبارک باد، اور نیک تمنائیں۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔