نواز شریف ، نواز شریف ہی رہیں گے

Naseer Ahmed
نصیر احمد

نواز شریف ، نواز شریف ہی رہیں گے

از، نصیر احمد

نہ تو نواز شریف معمولی مجرم بن پائیں گے اور نہ ہی مسیحا۔ وہ نواز شریف ہی رہیں گے۔ نواز شریف جو ایک بد ترین آمر کے معمولی درباری تھے۔ اور وہ نواز شریف جن کو پنجاب کی عوام کی ایک بڑی تعداد پسند کرتی ہے، نواز شریف جن کے پاس طاقت ہو تو اپنے مرشد کی طرح بد ترین آمر بننے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور طاقت سے باہر جمہوریت کی بحالی کے لیے بات چیت کرنے لگتے ہیں۔ نواز شریف جو وزیر اعظم کے حقوق کے لیے سر گرم رہتے ہیں، مگر وزیر اعظم کی ذمہ داریوں سے غافل رہتے ہیں۔

نواز شریف جن کے پاس ضیا کے پروردہ صحافی ہیں جو ان کو اچھے اچھے نعرے گھڑ دیتے ہیں اور نواز شریف جو پڑھی لکھی بات سنتے ہی خراٹے لینے لگتے ہیں۔ نواز شریف جو جمہوریت کے لیے ڈٹ جاتے ہیں، مگر جمہوریت ان کے ذہن میں ان کی ذاتی آمریت ہے جسے لوگ بھی پسند کرتے ہوں۔ نواز شریف جن سے زیادتیاں ہوئی ہیں اور نواز شریف جن کی کی گئی زیادتیوں کی فہرست بھی مختصر نہیں ہے۔

نواز شریف جن کے پاس معاشرتی اصلاح کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور نواز شریف جو معیشت میں کاروباری دوستوں کے حامی ہیں۔ نواز شریف جو اسٹیبلشمنٹ سے مل جاتے ہیں اور نواز شریف جو اسٹیبلشمنٹ سے بگڑ بھی جاتے ہیں۔ نواز شریف جو پنجاب سے باہر اپنے ووٹ بڑھانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرتے، مگر قومی لیڈر بننے کے تمنائی ہیں۔ نواز شریف جو پارلیمنٹ کی بالا دستی چاہتے ہیں، مگر پارلیمنٹ کے سامنے خود کو جواب دہ نہیں سمجھتے۔

نواز شریف جن کا خاندان ان کے اقتدار کے زمانے میں اتنا امیر ہوا ہے کہ اقتدار اور بد عنوانی کے تعلق کو مٹانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ نواز شریف جن کی زندگی غیر جمہوری حرکتوں کی کہانی ہے، مگر وہی نواز شریف دو تین جمہوری اصولوں سے وابستہ بھی ہو گئے ہیں۔ مگر چوتھے اور پانچویں جمہوری اصول کا ان کے سامنے ذکر ممکن ہی نہیں رہا۔ نواز شریف جو اقتدار کے لیے ضیا سے سیکھا ہوا ہر ہتھکنڈا آزمانے کے لیے تیار بھی رہتے ہیں۔

نواز شریف جو وزیر اعظم کے اختیارات کے لیے اصولی مؤقف بھی اختیارات کر لیتے ہیں اور اس مؤقف پہ استوار بھی ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف جو غیر منصفانہ انتخابات سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور نواز شریف جو الیکشن میں دھاندلی کے مخالف بھی ہیں۔

نواز شریف جن کو دیکھ کر لگتا ہے ان سے شاید انسانی رشتہ بنانا ہی ممکن نہیں ہے اور نواز شریف جو عوام کی ایک بڑی تعداد کے پسندیدہ بھی ہیں۔ نواز شریف جن کے دہشت گردوں سے تعلقات کی خبریں ہر وقت گردش کرتی رہتی ہیں اور نواز شریف جن کے دور میں دہشت گردی میں کمی بھی ہوئی۔ نواز شریف جو انصاف کے متنمنی بھی ہیں اور نواز شریف جن کے حواری ملک کی سب سے بڑی عدالت پر حملہ بھی کرتے ہیں۔ نواز شریف جو آمروں کے حلف یافتہ ججوں کو نا پسند بھی کرتے ہیں، مگر آمروں کے حلف یافتہ ججوں کے لیے ایسے بھی مارچ کرتے ہیں جو حکومت بھی گرا دیں اگر آمروں کے حلف یافتہ جج بحال نہ کیے جائیں۔

نواز شریف جنھیں صوبوں کے سیاسی حقوق سے ہمدردی ہے، مگر سیاسی سہولت انھیں سوئے ہوئے پنجابی کو جگانے کے رستے پر بھی لے جاتی ہے۔ نواز شریف جو سیاسی مخالفوں کے خلاف چھچھوری کرتے رہے اور نواز شریف جن کے خلاف چھچھوری ہوتی بھی رہی۔


مزید دیکھیے: 1۔ پانامہ کیس اور لڑکا لوگ

اتائی قیادت اور جذباتی ووٹر


نواز شریف کی سیاست کے جس پہلو کی طرف بھی دیکھیں وہ ایسے بیان کی طرح نظر آتا ہے جس میں بیان کا ایک حصہ دوسرے کی تردید کرتا ہے۔ بیان کی یہ نوعیت آئین میں بھی ہے اور معاشرتی گفتگو میں بھی مسلسل ہے۔ معاشرتی بیانات میں اس تضاد کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک اصلاحی پیکج کی ضرورت ہے۔ جیسے نواز شریف نے خود کہا ایک عظیم قومی مکالمے کی ضرورت ہے، مگر یہاں بھی ایک عظیم مکالمے کی بجائے دو تین نعروں تک محدود ہو گئے ہیں۔ اور یہ اختصار عوامی مفاد کی بجائے ان کے ذاتی مفاد کی زیادہ ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔

ووٹ کو عزت دو۔ اس بات کی تفصیلات کیا ہیں؟ ووٹ کیا ہے؟ عزت کیا ہے؟ یہ باتیں تو آئینی اصلاحات تک پہنچتی ہیں جن میں خصوصی طور پر ضیا کے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے، لیکن وہ تو ضیا کے خلاف بات بھی نہیں کرتے، اس کے قوانین تو اس سے بعد کی بات ہے۔

ایک طرح سے نوازشریف اس شخصیت کا نمائندہ ہیں جو ہمارا تعلیمی، سیاسی، معاشرتی نظام ترتیب دیتا ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس کا پتا ہی نہیں چلتا کہ آ رہی ہے کہ جا رہی ہے۔ ایسی ایک شخصیت جو کہکشاں کی باتیں کرتے کرتے اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھوں میں گر جاتی ہے۔ ایک ایسی شخصیت گھنا بھرشٹا چار کرتے ہوئے بھی اپنی معصومیت اور مظلومیت کے شکوے بھی کرتی جاتی ہے۔ لیکن بھرشٹا چار ایک ایسا سچ ہوتا ہے یہ شخصیت اس کا اعتراف نہیں کرتی اور مظلومیت ایک ایسی حقیقت ہوتی ہے جو اس کے مخالفین نہیں مانتے۔

سیاسی رہنماؤں سے ہماری ہمدردیاں ہیں۔ اگر آپ کہیں مشرف بہتر تھے کہ نواز شریف، ہم نواز شریف کا نام ہی لیں گے، حالاں کِہ روشن خیالی اور رندی کی وجہ سے شاید ہمیں مشرف کو زیادہ پسند کرنا چاہیے، مگر عوام کا منتخب کردہ رہنما اور اس کو منتخب کرتے عوام ہماری نظر میں ہر صورت میں ایک بہتر آپشن ہیں۔

لیکن سچ کو ہم زیادہ پسند کرتے ہیں اور ہمیں نواز شریف میں جمہوریت کم ہی نظر آئی۔ جو تھوڑی بہت ہے، وہ بھی پیپلز پارٹی والوں کا اثر دکھائی دیتی ہے یا نواز شریف کے ذاتی مفادات کے لیے ایک عارضی سہولت نظر آتی ہے۔ اب شاید ڈھلتی عمر میں وزیر اعظم کے اختیارات کے معاملے پر ڈٹ گئے ہیں۔ اچھی بات ہے، ڈٹے رہے، تو ان کی سیاست بچ جائے گی، نام بھی اونچا ہو جائے گا اور شاید مستقبل میں ان کی اس کوشش کی وجہ سے ہمیں بھی ایک با اختیار وزیر اعظم بھی مل جائیں مگر اختیارات کے ساتھ  جو ذمہ داریاں ہیں، ان کی بات تو نواز شریف اب بھی نہیں کر رہے۔

‘ایک با اختیار وزیر اعظم جس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے’
‘ایک با اختیار وزیر اعظم جس کا احتساب نہیں کیا جا سکتا۔’

یعنی اپنی ہی تردید کرتا بیان موجود رہے گا۔ معانی کا حقائق سے رشتہ نہیں بنے گا۔ اور بات جمہوریت میں بہتری کی طرف بھی نہیں بڑھے گی۔

تو پھر یہ سب ہنگامہ کس لیے؟