لیکن اس بار صورت کچھ اور ہے

Farooq Ahmed aik Rozan writer
فاروق احمد، صاحبِ تحریر

لیکن اس بار صورت کچھ اور ہے

از، فاروق احمد

آج کل میں حنیف عباسی کو سزا سنا کر نا اہل کیا جائے گا؛ کیوں کہ شیخ رشید کے لیے حلقے کا میدان صاف کرنا مقصود ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ سامنے آنے سے پہلے ہی مشتہر ہو چکا ہے۔ کوئی انہونی نہ ہو گئی تو کل خود کی دیکھ لیجیے گا۔

کینگرو کالونی کا چار کا ہیجانی ٹولہ ہر سیاسی کیس خود سنتا ہے اور باقی انسانوں کو پیچھے رکھتا ہے۔ نمبردار اپنی مرضی کے بنچ بنواتا ہے، اور یہ ہم نے نہیں اسلام آباد ی عدالت کے حضرت صدیقی نے معاملہ اٹھایا ہے۔ خود ہی دیکھ لیجیے کہ ہر سیاسی نوعیت کے کیس کے ہر بنچ میں مخصوص چار ہی نام نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔ ان کی پی ٹی آئی سے وابستگی اور نواز شریف خاندان سے ذاتی دشمنیوں کے معاملات بھی سامنے آ چکے ہیں لیکن ان کی پشت پر مالک ادارے کی حمایت ہے، اس لیے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

مالک ادارے کا نواز شریف اور مسلم لیگ نون کو راستے سے ہٹانے کا یہ کھیل انتہائی بلند درجے کی عُریانی و فحاشی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ ممکن ہے کہ اس میں وقتی کامیابیاں مالک ادارے کو مل بھی جائیں جیسا کہ نظر آ رہا ہے لیکن مالک ادارے کی ساکھ بحیثیت ادارہ اور بحیثیت مجموعی برباد ہو چکی ہے۔

یوں نظر آتا ہے کہ مالک ادارے نے اپنے معاشی مفادات اور معاشی مفادات کے ضامن اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو قائم و دائم رکھنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے، چاہے اس کے عوض کوئی بھی قیمت ادا کیوں نہ کرنی پڑ جائے اور چاہے پاکستان کو اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ مالک ادارے نے ملک کے طول و ارض میں پھیلے ہوئے اپنی لا محدود تجارتی کوٹھیوں کو قائم رکھنے کے لیے اس مرحلے پر اپنے سارے وسائل، کل اثاثے، تمام اختیارات پوری طرح اور بھرپور انداز میں جھونکنے کا تہیہ کر لیا ہے۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ سویلین بالا دستی کے خلاف اس حالیہ جنگ میں مالک ادارے نے اپنی ساکھ، اپنی آن، اپنا احترام، اپنی عزت، اپنی کھال، اپنی بنیان، اپنے کَچّھے بھی داؤ پر لگا دیے ہیں اور یہ منظر نامہ ہے ڈو اور ڈائی والا۔ اس میں دشواری یہ ہے کہ جلد یا بدیر مالک ادارے کو بدترین پسپائی، ہزیمت اور شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو ٹکراؤ کے اس نہج پر پہنچنے اور آزاد سوشل میڈیا کے سر چڑھ کر بولنے کے سبب اب نوشتۂِ دیوار ہے۔

سب جانتے ہیں کہ مالک ادارے کی تربیت اپنے محاذ پر اس وقت تک پیش قدمی جاری رکھتے رہنے کی ہوتی ہے جب تک اسے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ ورنہ چلے چلو، چلے چلو۔ دنیا بھر میں لڑنے بِھڑنے والوں کو شکاری کتوں کے گینگ کی مانند ہر حال میں اپنے ٹارگٹ تک پہنچنے کی تربیت دی جاتی ہے۔


مزید دیکھیے: 1۔ پانامہ لیکس ، قومی ہیجان اور دانش وری ٹیوے

نواز شریف، نواز شریف ہی رہیں گے


لیکن اس تربیت کا سائیڈ ایفیکٹ یہ ہوتا ہے کہ ہاؤنڈز کو صرف اپنے ٹارگٹ سے غرض رہتی ہے۔ ان کا دماغ سنگل ٹریک ہو جاتا ہے۔ ایک ہی راہ پر سوچتا ہے اور اپنی کامیابی کے اطراف کی دنیا سے قطعی لا تعلق اور unconcerned۔ یعنی مالک ادارے یہ تو سوچ لیتے ہیں کہ نواز شریف کو بے دست و پا کر دیا جائے، لیکن اپنی تربیت کے طفیل نواز شریف کو نیچا دکھانے کے سیاسی اثرات کو سمجھنے سے پوری طرح قاصر رہتے ہیں۔

مالک ادارے کے اسی myopic اور tunnel ویژن کی سزا پاکستان نے سقوطِ بنگال کی شکل میں بُھگتی۔ لیکن بنگال، سندھ ، بلوچستان اور کراچی پر سیاسی جنگ مسلطی کے مواقع پر ہر جگہ اور ہر مرتبہ بِلا ناغہ ہمیشہ پنجاب مالک ادارے کے ساتھ کھڑا رہا اور مالک ادارے کو نہ صرف moral سپورٹ دیتا رہا، بل کِہ اس کی پیٹھ بھی ٹھونکتا رہا اور مالک ادارے کا قلعہ اور دارالخلافہ بنا رہا۔ ہر جگہ حملہ کرنے کے لیے بطورِ مورچہ پنجاب نے اپنی خدمات پیش کیں اور اس طرح وہ کہاوت صادق آتی رہی کہ سویلینز کے خلاف ہر جنگ میں لڑاکے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ اسے دیگر کسی سویلین گروپ کی حمایت مہیا نہ ہو۔

لیکن اس بار صورت کچھ اور ہے۔

وہ یوں کہ یہ پہلی دفعہ ہے کہ مالک ادارے بقابلہ سویلین لڑائی پنجاب میں ہوئی ہے اور مالک ادارے پنجابی سویلین کے خلاف صف آرا ہیں اور یہ بھی پہلی دفعہ ہے کہ مالک ادارے کو پنجاب کے خلاف دیگر زبانیں بولنے والے سویلینز کی حمایت میسر نہیں ہے۔

سب ہی مالک ادارے کے ڈسے ہوئے ہیں اور حالاں کہ پنجاب ہر بار ان صوبوں کے عوام کے خلاف مالک ادارے کی pimp گیری کرتا رہا ہے لیکن پنجاب کی اس ازلی کمینگی کے با وجود کوئی بھی صوبہ اس وقت پنجاب کے خلاف سیاسی توپ کاری میں سورماؤں کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔

جس قدر بھی پولیٹیکل انجنیئرنگ کر لی جائے، لیکن پولیٹیکل اکانومی کا ہر اصول ہمیں یہی بتا رہا ہے کہ بس اب اور نہیں۔ سیاسی انجینئر پنجاب سے بے آبرو ہو کر نکلیں گے۔ پنجابی سیاست دانوں سے ٹکراؤ کے نتیجے میں لگے زخموں کی سیاسی انجینئر تاب نہ لا سکیں گے۔ اس لیے سیاسی انجینئرز کو چاہیے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھیں۔ عزت و ساکھ تو خیر گئی، کم از کم بنیان اور کَچّھے ہی بچا لیں۔ کھال تو کوآپریٹو مارکیٹ صدر بالمقابل صدر ڈاک خانے سے بھی سِلی سَلائی مل جاتی ہے۔ ہمارے دوست کی دکان ہے وہاں سے رعایتی نرخوں سے دلوا دیں گے۔ ایک سورما کی کھال کے ساتھ ایک مرغ باد نما کی کھال مفت۔