مرے گھر کے راستے میں

معصوم رضوی

مرے گھر کے راستے میں

عشروں بعد موٹر سائیکل پر سفر کیا، واللہ مزا آ گیا کار میں بھلا وہ مزا کہاں، کہتے ہیں ناں مگر وہ بات کہاں مالوی مدن کی سی، کار اور موٹر سائیکل کے سفر میں وہی فرق ہے جو ٹرین اور ہوائی جہاز میں ہے۔ جس طرح ٹرین میں بندہ بیرونی مناظر و اندرونی محافل کی دولت سے حسب استطاعت سرفراز ہوتا ہے اسی طرح ٹریفک کی روانی، سڑکوں کے نشیب و فراز اور شہر کی بو باس جاننے کے لیے موٹر سائیکل پر سفر ضروری ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ گاڑی مکینک کے پاس اور شہر قائد میں کرکٹ میچ، شہر کے بیچوں بیچ نیشنل اسٹیڈیم کے آنے والے اور جانے والے تمام راستے بند، بَل کہ قلعہ بند، اُوبر اور کریم والے دفتر سے گھر لے جانے سے انکاری، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ٹریفک کا کیا عالم ہو گا۔ بیس کلو میٹر کا سفر، تین سے چار گھنٹے تو کہیں نہیں گئے، ایسے میں ایک ساتھی کی موٹر سائیکل پر لفٹ کی پیشکش کسی نعمت سے کم تو نہ تھی۔

موٹر سائیکل پر سنبھل کر ادھر ادھر پکڑ کر بیٹھے، نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں والی کیفیت تھی۔ سنا ہے نادر شاہ نے دلی میں ہاتھی پر بیٹھنے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ لگام اس کے ہاتھ میں نہ تھی، یقین مانیں نادر شاہ کراچی سڑکوں پر ایک بار موٹر سائیکل پر بیٹھ جاتا تو دلی نہ اجڑتا۔

بَہ ہر حال، کچھ ہی دیر میں احساس ہوا کہ گو مولانا خود تو نحیف مگر موٹر سائیکل توانا اور عزائم ستاروں پر کمند ڈالنے جیسے ہیں۔ اس سے پہلے کہ توہین مولویت میں دھرا جاؤں یہ وضاحت اشد ضروری ہے کہ مولانا، مولانا ہیں نہیں، بل کہ ساتھی محبت میں انہیں اسی لقب سے پکارتے ہیں اور کیوں نہ پکاریں، مولانا نے عمر بھر محبتیں ہی تو بانٹی ہیں۔ بَہ ہر حال، مولانا کی سواری فراٹے بھرنے لگی، کبھی کوئی اور موٹر سائیکل اتنے قریب سے نکلتی کے دل اچھل جاتا تو کبھی مولانا اجتہادانہ مہارت کے ساتھ دو ٹریلرز کے بیچ سے ایسی پھرتی سے فراٹا بھرتے کہ بے ساختہ بیوی بچوں کا مستقبل نظروں میں گھوم جاتا، ایک بار تو دل چاہا کہ پل صراط بھی مولانا کے ساتھ موٹر سائیکل پر طے ہو جائے تو کیا بات ہے۔

ٹریفک سے بچنے کیلئے کورنگی انڈسٹریل ایریا کی جانب سے نکلے، ویسے آپس کی بات ہے موٹر سائیکل پر سفر کریں تو آوارہ گرد مُنھ چومتی ہے، کمر اور عقل سکتے میں ہوتی ہے، سڑک کا ایک ایک گڑھا، گوشہ، کنکر، پتھر اچھل اچھل حال احوال دریافت کرتا ہے۔

تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو

تم کو دیکھوں یا تم سے بات کروں

گڑھا خالی ہو یا سیوریج کے پانی سے لبا لب، مولانا کی عارفانہ واقفیت قابل رشک تھی، مجال ہے کہ کہیں رکیں گڑھوں کے بچتے بچاتے ہینڈل نچاتے بڑھے جا رہے تھے خدا کے سہارے، لگا شاید بریک کو بدعت سمجھتے تھے مگر تھوڑی دیر بعد احساس ہوا کہ سب ہی بدعت العام میں مبتلا ہیں مگر جناب کیا قیامت کی انڈر اسٹینڈنگ تھی، یعنی ٹریفک جام میں ہر چورنگی پر ساری گاڑیاں بمپر ٹو بمپر پھنسی کھڑی مگر موٹر سائیکلیں رواں دواں، زاویے، دائرے، زوں زووں زووووں، تنے رسے پر چلتے ادھر ادھر ڈولتے سرکس کے بازی گر یاد آ گئے۔

ٹریفک کے شور میں مولانا کا خطبہ بھی جاری تھا، کہنے لگے کبھی اس پر بھی لکھیے اس حال میں بھلا کرکٹ میچ کی کیا ضرورت ہے، دل میں سوچا خداوند صحیح سلامت گھر پہنچا دے تو یہ منت ضرور پوری کروں گا۔ گفتگو کے دوران مولانا یک بارگی سامنے سے آتی گاڑیوں سے بچ بچا کر رونگ روٹ جا پہنچے تو جانا معرفت کی کس منزل پر ہیں۔

اسی دوران وضاحت فرمائی ٹریفک قوانین توڑ نا پسند نہیں مگر اس سڑک کے کنارے بارش اور سیوریج کا پانی عرصۂِ دراز سے کھڑا ہے تو نصف کلومیٹر ٹریفک جام رہے گا پورا آدھا گھنٹہ بچ گیا، دوسرے کنارے سے آتی بوئے صبا اس کی گواہی دے رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد پھر یکا یک ایک زاویۂِ طائرانہ، چند بریکوں کی چیخیں اور واپس اسی سڑک پر جا پہنچے، بس اسی لمحے سمجھ آ گئی کہ معرفت کے لیے مرشد کتنا ضروری ہے۔

کرکٹ کا شوقین ہوں، دل سے چاہتا ہوں کہ پاکستان میں کرکٹ کے میدان آباد ہوں، مگر یہ بھی تو مسئلہ ہے کہ سندھ اور بالخصوص کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام سرے سے ہے ہی نہیں، حکومت سندھ دھڑلے سے گزشتہ دس برسوں سے ہر تین ماہ بعد پبلک ٹرانسپورٹ کی نوید سناتی ہے اور ہر سمسٹر کے بعد وزیر ٹرانسپورٹ تبدیل کر دیتی ہے۔ ٹوٹی پھوٹی شکستہ سڑکوں، بارش اور سیوریج کا پانی گزشتہ تین ہفتوں سے جمع پانی عذاب سے کم نہیں ہے۔ ایسے میں چند ہزار کرکٹ شائقین اسٹیڈیم میں اور لاکھوں سڑکوں پر خوار ہوتے ہیں، ٹریفک پولیس ندارد سارا نظام اللہ پر چھوڑ رکھا ہے تو بھیا ایسے میں کرکٹ میچ نری عیاشی نہیں تو اور کیا ہے۔

کراچی کو صاف کرنے کی وفاقی و صوبائی مہم سیاسی نعروں کی گونج تلے دم توڑ گئی۔ شہرِ قائد گندگی، غلاظت، تعفن، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، لوڈ شیڈنگ اور انتظامی نا اہلی کا شاہ کار نظر آتا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت، وفاق اور میئر کے تکون میں دو کروڑ کراچی والے شکوَہ، جواب شکوَہ کی گردان سن رہے ہیں۔

دست بستہ معذرت کے ساتھ پاناما، کرپشن، لوٹ مار، جو چاہیں الزام دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پنجاب موجودہ حکومت سے پہلے ہی بدل چکا تھا، بہترین سڑکیں، اورنج لائنز، میٹرو جیسی آرام دہ سفری سہولتیں، سندھ کے شہری خواب و خیال میں بھی نہیں سوچ سکتے۔ مجھے یاد ہے پندرہ، بیس سال قبل لاہور میں تانگوں کا راج ہوا کرتا تھا، مجھے ذاتی طور پر تانگے کی سواری پسند ہے، مگر یقین جانیں اس وقت لاہور میں ٹریفک کا سپاہی بھی گھوڑوں کا محتاج تھا کیوں کہ حتمی فیصلہ تانگے میں جُتا گھوڑا ہی کیا کرتا تھا۔

اگر آپ تانگے کی پچھلی نشست پر براجمان ہیں تو غالب امکان ہے کہ سگنل پر کوئی اسپ تازی اپنے دانتوں سے آپ کا دامن چوم رہا ہو، سو تمام گاڑی سوار حد ادب ملحوظ رکھتے ہوئے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے میں گھوڑوں کی تقلید کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں لاہور کے شہری کراچی سے مرعوب تھے، صاف ستھرا، بلند عمارتیں، وسیع سڑکیں، ٹریفک قوانین کی پابندی، سفری سہولتیں، مگر آج پیپلز پارٹی کا کراچی، ن لیگ کے لاہور سے کہیں پیچھے ہے۔

بات جانے کہاں جا پہنچی شاہ فیصل کالونی سے ہوتے ہوئے شاہ راہِ فیصل اترے تو پتا چلا یوم حشر کیسا ہو گا، ایئرپورٹ کے عقب میں ٹریفک کا وہ حال تھا کہ جو چیونٹیوں کی قطار کا ہوتا ہے۔ بَہ ہر حال، اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا نے چار گھنٹے کا سفر چالیس منٹ میں پورا کر کے فارمولا ون کی یاد دلا دی، گھر پر اترے تو کمر تختہ اور عقیدہ پختہ ہو چکا تھا، ذہن میں میر کی غزل گونج رہی تھی

کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کر ہنس ہنس پکار کے

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روز گار کے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

از، معصوم رضوی