مسلمان پانی اور ہمارے کافر آنسو

Nasim Syed aik Rozan
نسیم سید، لکھاری

مسلمان پانی اور ہمارے کافر آنسو

نسیم سید

مسلمان پانی کی تفصیل میں جا نے سے پہلے ذرا اس حالت زارکو مسلمانوں کی ایک نظر دیکھیں۔۔۔ ہم کہاں کھڑے ہیں اس وقت ؟ کس عالم میں ہیں؟ دنیا میں ہماری کیا توقیرہے؟ ہمارے ممالک یا تو چپ کا روزہ رکھ مست ہیں اپنے حال میں، یا برباد ہوچکے ہیں۔
عراق؟ تباہ وبرباد، افغانستان؟ تباہ وبرباد لیبیا؟ تباہ وبرباد۔، صومالیہ ؟ تباہ وبرباد، شام؟ تباہ و برباد، یمن ؟ تباہ و برباد، ایران، شام اورقطرپر نگاہیں گاڑ رکھی ہیں جس کی لاٹھی اس کی پھینس کے مقولے پرصادق آ نے والوں نے۔

پاکستان؟ جس حال کو پہنچ چکا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان کے ِگدھ صفت سیاست دان اس کی بچی کھچی سانسوں کو بھی نوچ نوچ کے کھا رہے ہیں۔ اورعوام؟ تعلیمی ادارے؟ یونیورسٹیز؟ کالج ؟ سب ہاتھوں میں پیڑول کے کنستر لیے توہین رسالت کے دفاع میں سینہ سپربوسونگھتے پھ ررہے ہیں کوئی اس شک میں ہاتھ آ جائے کہ اس جرم کا مرتکب ہواہے اور اسے یہ غول زندہ جلا دے۔

لکھنے اوربولنے والوں پرسکتہ طاری ہے وہ یا تو اٹھا لیے جاتے ہیں یا پھرمشعال خان کی طرح مذہب کی شراب میں دھت ہجوم ان کو دھجی دھجی کرکے فضاؤں میں اچھال دیتا ہے۔

ہیبت ناک بات یہ ہے کہ پہلے یہ سب کچھ طالبان نامی درندوں کے کا وطیرہ تھا لیکن اب با جماعت قتل کا رواج یورنیوسٹی کالج اور اسکولوں تک میں عام ہوگیا ہے اوراب یہ واقعات روز کی ایک چھوٹی سی خبرکی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ توہینِ رسالت تو دورکی بات نوبت یہان تک پہنچ گئی ہے کہ سکول میں دن دھا ڑے طالب علموں کا ہجوم ایک انیس سال کے لڑکے کو تشدد سے قتل کردیتا ہے اورسب چپ چاپ یہ تماشہ دیکھتے ہیں یہاں تک کہ انیس سالہ  شیرون مسیح کے اندوہناک قتل کا واقعہ میڈیا کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکا۔

مسلمان پانی اور ہمارے کافر آنسو

معصوم شیرون مسیح کے حوالے سے پہلی خبریہ ملی کہ اس نے مسلمان پانی کو چھو لیا ہے۔ بس پھرکیا تھا۔ اس کو نفرت کے پتھروں سے کچل کچل کے دھجی دھجی کرکے  پھینک دیا گیا۔ اس تعلیمی ادارے کے سارے سربراہ یہ تماشہ دیکھتے رہے کہ جنونی طالب علموں کا غول کس طرح اس کوکچل رہا ہے مگروہ چپ رہے۔

یہ سارا منظر وڈیو پر بھی کلیجہ تھام کے دیکھا۔ میڈیا پر کوئی خبرنہیں دکھائی گئی اس حوالے سے۔ دوسری خبر یہ تھی کہ اسکول کے بچوں کا آپس کا جھگڑا تھا۔ وڈیو پراس کی موت کا جو وحشت ناک  منظر تھا وہ ہو بہو مشعال خان کے قتل جیسا تھا۔

مشعال خان کی موت کے بعد دوسرا بالکل ویسا ہی سانحہ کہ طالب علموں کا اپنے سا تھی طالب علم کی سارے اسکول کے سامنے جان لے لینا ۔ کسی ایک طالب علم کا اپنے ساتھی کو بچانے کے لیے کسی قسم کا ردعمل نہ دکھانا۔  اساتذہ کا سارے واقعہ کو چپ چاپ دیکھنا۔ یہ مناظر کیا یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ نوجوان نسل کی سوچ، ان کے عمل میں کون سی تربیت کام کررہی ہے؟ نفرت کا بیج نئی نسل کی جڑوں میں کس چالاکی سے  بو دیا گیا ہے؟  مذہبی جنوینت کیا کردار ادا کررہی ہے معاشرے میں؟  کیا یہ معمولی سوالات ہیں؟

وجہ خواہ کچھ بھی مسلمان پانی کو ہاتھ لگانے کی یا اس کے کمتر ذات کا ہونے کی یا آپس کی چپقلش کی۔ سوال اس سانحہ  کا اسکول کے تمام طالب علموں اوراساتذہ کے سامنے پیش آنے کا ہے۔ مشعال خان اور شیرون کو بچانے کے لیے ایک استاد ایک طالب علم آ گے نہیں بڑھتا۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ رٹا دیا گیا ہے جو ہمارے جیسا ہوبہو نہیں ہے جو ہمارے جسے عقائد نہیں رکھتا جو ہم سے کسی بھی سبب سے مختلف ہے اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔

شیرون کے حوالے سے یہ تفصیلی رپورٹ آئی تھی۔ شیرون مسیح کا ایم سی ماڈل بوائزگورنمنٹ ہائی اسکول واقع ماڈل ٹاؤن بوریووال ضلع کی نہم کلاس میں داخلہ ہوا۔ استاد نے سب کے سامنے اسے ’’چوہڑا ’’ کہہ کے مخاطب کیا۔ شیرون کے پورے خاندان کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ کلاس فیلوز نے اسے اپنے ساتھ بٹھانے سے انکار کردیا ذلت اورنفرت کا سا منا کرتے کرتے  شیرون نے تنگ آ گے اسکول آ نا چھوڑدیا۔ مگر باپ کی زبردستی سے پھر اسکول آ نا پڑا۔

شیرون کو مستقل نفرت اور طنز کا سامنا تھا اوپرسے پانی پیتے ہوئے غلطی سے اس نے اپنے الگ گلاس کے بجائے دوسرا مسلمان گلاس اٹھا لیا۔ اورایک ٹولی نے لڑکوں کی اس بات پر اسے مارنا شروع کردیا، اوراتنا مارا کہ نیم مردہ حالت میں اس کے ماں  باپ جب اسے اسپتال لے کے پہنچے تو اس نے دم توڑدیا۔

اس خبر کوظاہر ہے دبا دیا جائے گا جیسے ہزاروں قتل دبا اور چھپا دیے جاتے ہیں، لیکن اس سے پہلے ہم ایک مسیح جوڑے کو زندہ جلتے ہوئے اورلوگوں کو ان کو جلا نے کے بعد بھنگڑہ ڈالتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ ہم مشعال خان کوابھی رو کر بیٹھے ہیں اس کی دردناک موت کا منظر نگاہ میں ہے۔ کیسے مان لیں کہ یہ بہت چھوٹا سا بچوں کی آپس کی چپقلش کا معاملہ تھا۔

بچے اورایسے خونی؟ ایسے قصائی؟ ایسے وحشی؟ جب یہ وحشت یونیورسٹی کالج اوراسکولوں تک پر اپنا قبضہ جما لے جب اساتذہ قصائی کی جون میں ڈھل جائیں۔ جب میڈیا ایسے واقعات کو نظرانداز کرنے لگے تواس قوم کا انجام کیا ہوگا؟ جواب ہم نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن تاریخ اور وقت اس کا جواب رقم کرچکے ہیں۔

اے خوش فہمی ترا آ سرا! ہمارے لیے تو ماشا اللہ سب ٹھیک ہے۔ سب اچھا ہے۔ اونچا رہے ہمارا توہین رسالت کا نعرہ اور سلامت رہیں ہمارے قربانی کے اونٹ، گائے بکرے ہم ان کی رسیاں تھامے جنت میں چلے جائیں گے انشا اللہ۔ رہے ہمارے اہم مسائل؟ تو وہ ہماری نگاہ  میں ہیں۔ جیسے: کیا  مردوں سے تین طلاق کا حق چھینا جا سکتا ہے؟ حجاب والی عورت کے سرکا بال کتنا نظرآ سکتا ہے؟ روزہ کھولنے کے بعد کتنی کھجوریں کھانی چاہییں؟ کیا عورت نماز کی امامت کرسکتی ہے؟ کیا احمدی اور شیعہ کا فر نہیں ہیں؟ ایک سُوئی کی نوک پر کتنے فرشتے آ سکتے ہیں؟

یہ اوراس جیسے مسا ئل میں گُتھے شیوخ اوران کے پیروکار جاہل عوام کو بڑی چالاکی سے مذہب  کی بھنگ پلا کے مدہوش رکھنے میں مصروف ہیں۔ تعلیم ذہنوں کے بند دروازے کھولتی ہے سو اسلام کے کرتا دھرتا جہالت کی افیون کی فصلیں اگا رہے ہیں تاکہ ان کے غلاموں کی تعداد میں اضا فہ ہوتا رہے۔

مسلمان ممالک میں تعلیم کی شرح تینتالیس فیصد ہے۔ سو ہو! جنت تو ہماری ہے اللہ میاں تو ہمارے ہیں۔ سوسال میں ہمارے حصہ میں کتنے نوبیل پرائزآئے اور یہودیوں کے حصہ میں کتنے؟ ہمیں کیا، دینا بھر کی چھوٹی بڑی ایجادات میں ہمارا کیا حصہ ہے؟ صفرنا؟ تو ہوگا!  ہمیں اس دینا سے کیا لینا دینا؟
ہاں، مگر ان ایجادات سے فا ئدہ پوری طرح اٹھانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہاتھوں میں معمولی سیل فون سے لے کے کلاشنکوف تک، ساری کی ساری مسیحی ایجادات پراپنا حق سمجھنے والے اگر معصوم شیرون مسیح کو بوٹوں سے لاتوں سے پتھروں سے مارمار کے کچل ڈالتے ہیں، اپنے مسلمان پانی کوہاتھ لگا نے پر تو حیرت کیا ہے؟ صدمہ کس بات کا؟ جنت تو ہماری ہوئی۔