تاریخ کے حرام سے توبہ کیے بغیر

ایک روزن لکھاری
محمد ابو بکر

تاریخ کے حرام سے توبہ کیے بغیر

از، محمد ابوبکر

لوک کہانیوں میں ایک کم فہم لیکن شعلہ مزاج روایتی چوہدری کا کردار ملتا ہے جس کی لوگوں کے سامنے جب بھی سبکی ہوئی تو اس نے پاس کھڑے بے بس کمی کو کسی پرانی بات کا حوالہ دے کر پیٹنا شروع کردیا تاکہ کچھ دبدبہ باقی رہے۔ وطن عزیز (جسے بہ نیت اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جانا تھا) میں احمدیوں کی مثال اسی بے آسرا کمی جیسی ہے جس کی پٹائی کے لیے کوئی خاص وجہ یا سرے سے خود وجہ ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ وجہ تو دور خود معتوب احمدی کے زندہ یا مردہ ہونے سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ کسی دورمیں سنتے تھے کہ فلاں بڑا نیک بندہ تھا جب مرا تو قبرجاگ اٹھی۔ کافروں میں البتہ صرف احمدیوں کی قبریں ہی جاگتی ہیں چنانچہ ہر قبر کو  ایک زندہ احمدی فرض کرتے ہوئے  کتبے توڑے اور نام مٹائے جاتے ہیں۔ اس میں لاہور قبرستان کے عام احمدی اور ربوہ قبرستان کے نوبل انعام  یافتہ احمدی میں فرق نہیں کیا جاتا۔  تمام احمدی قبریں زندہ سمجھی جاتی ہیں۔  ملک ایک کہانی  بنتا جا رہا ہے اور ہم سب مجبور ہیں کہ اس کے صفحات  بس ترتیب سے پڑھتے جائیں حتیٰ کہ کہانی  تمام ہو۔ ہر داستان کا انجام ہی ” سب ہنسی خوشی رہنے لگے” نہیں ہے۔

اس  احمدی  نفرت کی تازہ ترین مثال قومی اسمبلی سے الیکشن  ایکٹ 2017 کی منظوری کے بعد دیکھنے کو ملی جب حکومت کے سیاسی مخالفین نے بحث میں اس نکتہ لطیف کا اجتہاد کیا کہ دراصل  قانون کی اس تبدیلی کا مقصد ختم نبوت پر شہادت کو حلف نامے سے اقرار نامے میں بدل کر قادیانی لابی کو خوش کرنا ہے۔

اس ایک نکتے کی تائید میں بعض احباب نے ریاضیاتی آہنگ میں نکتہ بہ نکتہ ثابت کرنا چاہا کہ  جھوٹ حلف اٹھا کربولا جائے تو اور شے ہے اور اگر اقرار کرتے ہوئے بولا  جائے تو اور شے ہے۔  مولانا اللہ وسایا صاحب کی طرف سے ایک اعلامیہ بھی فیس بک پر گردش کرتا پایا گیا۔ عالمی اسلامی یونیورسٹی  میں شعبہ قانون کے چیرمین ڈاکٹر مشتاق احمد نے دلیل ڈاٹ کام پر ایک کالم بعنوان “آخر ہوا کیا ہے؟” میں اس تبدیلی پر تفصیلی نقد پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے حلف نامے اور اقرار نامے میں فرق  نیز قادیانیوں کے مسلمان ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش  کیا تاہم ایسا کرتے ہی الحمداللہ کہہ کر مقدمے کی نفی کرتے ہوئے بتایا کہ قانونی طور پر اس خدشے کی گنجائش نہیں ہے۔

اس خود متصادم صورتحال کے باوجود پورے کالم میں مفروضہ قادیانی لابی سے ہوشیار باش کیا گیا۔ ( آخر اس درد کی دوا کیا ہے)۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ اس نئے قانون کو نواز شریف کی کرپشن پر پردہ ڈالے بغیر انہیں دوبارہ طاقت میں لانے کا رستہ قرار دینے پر بضد تھے وہ بھی اتنے بےقرار ہوئے کہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ قادیانیوں  کو بھی ملک کا مسئلہ قرار دینے لگے۔  ان دونوں میں ایک اور مماثلت یہ بھی تھی کہ قادیانیوں سے نالاں افراد اقبال کے نثری اقوال جبکہ نواز شریف  کے مخالفین  اقبال کے شعری مصرعے پیش کرکے ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے گئے۔ جواب شکوہ میں خدا نے اقبال سے کہا تھا کہ تم اس قوم سے ہو جو اسلاف کے مدفن بھی صرف منافع کے لیے سنبھال رکھتی ہے۔

عرض حال یہ ہے کہ:

اول تو احمدی آئین پاکستان کے تحت غیرمسلم ہیں اورفی الوقت جہاد کے علاوہ یہی وہ دوسرا مذہبی  موقف ہے جو ریاستی بیانیے میں اس قدر راسخ ضرور ہو گیا ہے کہ  اس کا شمار بھی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں میں کیا جاتا ہے۔ احمدیوں کے لیے  بعض ایسے رسمی کلمات ادا کرنے کی سزا بھی قید اور رہائی کے انتظار میں ممکنہ زیرحراست موت ہے جو کلمات کسی بھی کلچر کی مجموعی کاوش کا اظہار ہوتے ہیں۔ کون ہے جو یہ کہہ  سکے کہ ماں کو پہلی بار ماں میں نے کہا تھا سو اب  اس لفظ پر صرف میرا حق ہے۔ تاہم یہ سب بھی قانونی پر طے کیا جا چکا ہے۔ اب انہیں وہ مقام تو دیا جائے جو ایک اقلیت کا حق ہے۔

وطن عزیز میں  ایک دھائی سے زیادہ طویل دہشت گردی کے طوفان کے پیچھے ہمارے قابل ریاستی اداروں کو کسی قادیانی شدت پسند  گروپ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ الحمداللہ ہم اپنے ملک کے اداروں کو نمبر ون سمجھتے  ہوئے اس سے مکمل مطمئن ہیں لہذا احباب سے درخواست کرتے ہیں کہ جن گروپس سے ملکی امن و سالمیت کو واقعی خطرہ ہے ان سے توجہ نہ ہٹوائی جائے۔

ایمانی جذبوں کی بنیاد بے جا وسوسوں پر نہ رکھی جائے۔  جو غیرمسلم ہیں انہیں اقلیت کا حق دیا جائے اور جن کے ایمان پر عوام میں اختلاف ہے لیکن قانوناً کوئی فیصلہ نہیں ہوا ان کا معاملہ خدا کے حوالے کردیا جائے۔  مذہبی تکفیریت کا جنون کسی ایک فرقے تک محدود نہیں رہتا۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جب ایک کو کافر قرار دیا جائے تو پھر دوسرے کی باری آ جاتی ہے۔

تکفیر صرف زبانی کلامی ہی نہیں رہتی بلکہ قتال  کو جنم دیتی ہے۔ مردم شماری ہوگی یا مردہ شماری اس کا فیصلہ اس سے ہو گا کہ ہمیں  خدا اور بندے کے باہمی معاملات کو دونوں پر بھروسے کرتے ہوئے ان دونوں پر ہی چھوڑنا  ہوگا۔ ملک میں اضافی بحران سہنے کی کوئی سکت نہیں اور مذہبی بحران کی تو ہرگز بھی نہیں۔ لہذا جو معاملات  اب آئینی طور پر بھی طے ہوچکے ہیں ان پر لکیر کو پیٹنا بند کیجیے۔

آخر ہیں کون لوگ جو بخشے ہی جائیں گے
تاریخ کے حرام سے توبہ کیے بغیر