نظریاتی جنون اور نفسیاتی مریض

Naseer Ahmed
نصیر احمد

نظریاتی جنون اور نفسیاتی مریض

از، نصیر احمد

آپ اگر شاعری کا شوق رکھتے ہوں تو دو چار دیوان پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں جنون کو انسانی کردار کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ خرد کی گتھیوں سے بے زاری جتا کر صاحبِ جنون ہونے کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ عشق میں دیوانگی دانائی سمجھی جاتی ہے۔

خرد بے چاری بھٹکتی رہتی ہے اور جنون منزلیں طے کر رہا ہوتا ہے۔ معشوق اگر لفٹ نہ کرا رہے ہوں تو اس کی وجہ جنون میں خامی سمجھی جاتی ہے۔ اور کپڑے پھاڑنا تو ایسی فضیلت ہے کہ اگر گریبان لشکر کا علم نہ بنے تو دیوانگی کے درجے کم ہو جاتے ہیں۔ اور محشر میں تو جنون ایسی حرکات میں مصروف ہو جاتا ہے کہ استغفار پڑھنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ گُم نام سے مجنون جب مٹی میں لوٹتے پوٹتے ہیں تو شہرۂِ عالم ہو جاتے ہیں۔

جنون سے وابستہ خوبیاں انسان کو شان دار بنا دیتی ہیں اور مجنون تو معاشرے کے لاڈلے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن لاڈ پیار صرف نظریاتی جنون تک ہی محدود ہے۔

تصوف کے خیالات کے نتیجے میں جب جنون انتہا پر پہنچتا ہے تو پِیری فقیری کی دکان چل نکلتی ہے۔ مریدوں کے جتھے کے جتھے جنون کی دولت، طاقت اور شہرت بڑھاتے رہتے ہیں۔

پھر ناٹزی Nazi، فاشسٹ اور اشتراکی خیالات کے مجنون ہوتے ہیں جن کی جنون سے وابستگی انھیں رئیس، طاقت ور اور مشہور بنا دیتی ہے۔ ہوتا یہ مرض ہی ہے لیکن دولت۔ شہرت اور طاقت کا حسن کرشمہ ساز اس مرض کو ایک خوبی بنا دیتا ہے اور جب اتنے فوائد جنون سے منسلک ہوں تو دل دیوانہ دیوانہ تر نہ ہو تو کیا کرے اور دل آوارہ کو آوارہ تر ہونے کی وہ ترغیب ملتی ہے کہ سب منطقیں بے اثر ہو جاتی ہیں اور سب سائنسی تجربات بے کار سے ہو جاتے ہیں۔

سیاسی اور مذہبی پارٹیاں بھی ایسے جنون کو فروغ دیتی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں جیالے، مجاہد، پروانے شور و غوغا کے ساتھ توڑ پھوڑ کرتے رہتے ہیں۔

لیکن جب معاملہ نفسیاتی امراض کا آتا ہے جیسے ذہنی توازن کا بگاڑ، ڈیپرشن، ہوش و حواس کا غیاب، سکٹزیوفرینیا Schizophrenia تو جنون کی پرستش اور مجنون سے عقیدت معاشرے سے غائب ہو جاتی ہے۔ انسانیت بھی موجود نہیں رہتی، شہریت بھی نیستی سے ہی لپٹی رہتی ہے۔


متعلقہ:  میگڈا گوبلز، نظریاتی جنون سے بنیادی انسانیت کی کشمکش  از، نصیر احمد

عاشق جنات، ذہنی امراض اور ہمارے سماجی رویے  از، فارینہ الماس


جو رویے ہم نے دیکھے ہیں ان میں تمسخر اور تحقیر بہت زیادہ ہیں، اور اگر مریض غریب ہوں تو یہ تمسخر اور تحقیر اتنے گھناؤنے ہیں کہ انسانیت پر اعتبار قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

نفسیاتی مریضوں پر تشدد بھی بہت کیا جاتا ہے، نفسیاتی بھی اور جسمانی بھی۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے جو نارمل سمجھا جاتا ہے، اس سے مختلف دکھائی دیتے ہیں اور ہمارے ہاں اختلاف سے برداشت کا رشتہ بہت کمزور ہے۔

در اصل مختلف ہونا اجنبی ہونا ہی ہوتا ہے اور اس اجنبیت کو جواز بنا کر انسانیت معطل کر دی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں تشدد جائز ہو جاتا ہے۔ اور تشدد کی عدم موجودگی، کمی یا زیادتی کا فیصلہ بھی معاشی اور معاشرتی حیثیت کرتی ہے۔ مریض کے کنبے والوں کی سمجھ داری بھی تشدد کے معاملے میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔

اور علاج تو تشدد ہی بن گیا ہے۔ نا لائق ڈاکٹر اس تشدد کی ایک اہم وجہ ہوتے ہیں۔ اور ڈاکٹروں کا نہ ہونا بھی ایک طرح سے تشدد ہی ہے۔ پھر پیر فقیر، سادھو سَنَت بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مرض کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اجنبیت کے ذمہ دار جن بھوت، چڑیلیں اور بلائیں ہیں اور ان بلاؤں کا علاج تشدد ہی ہوتا ہے۔وہی نیستی اور ہستی کا جھگڑا کہ جسے پیٹ رہے ہیں وہ تو ہے ہی نہیں اور جو ہے وہ تشدد کا مستحق ہے۔ اس بے وقوفی کے سِرے بھی نظریاتی جنون سے ملتے ہیں، اس لیے یہ موجود ہے۔

معاشرے میں ویسے بھی حقوق کی صورتِ حال بہت خراب ہے اور نفسیاتی مریضوں کے حقوق تو بچتے ہی نہیں۔ جب علاج کا حق ہی حکومت اور معاشرہ مل کر چھین لیتے ہیں تو دوسرے حقوق کا کیوں خیال رکھیں گے۔

اجنبیت کی وجہ سے محبت رخصت ہوتی ہے، پھر تعلیم، صحت،اچھا ماحول، روز گار، ملکیت، رشتے اور دیگر انسانی حقوق کی پاس داری نہیں کی جاتی۔

پھر معاشرے کا ایک دباؤ ہوتا ہے کہ اجنبی نظروں سے دور رہیں جس کے نتیجے نفسیاتی مریضوں کی ایک بڑی تعداد کبھی قید و بند سہتی ہے اور کبھی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہے۔ نظریاتی جنونیوں کی قید اور زنجیر بستگی تو استعارہ اور علامت بن جاتی ہے، لیکن نفسیاتی مریضوں کا پُرسانِ حال کوئی نہیں ہوتا۔

اور حکومت بھی ہر چند ہے کہ نہیں ہے، کی تفسیر بنی رہتی ہے۔ اس کی ساری توجہ نظریاتی جنون پر ہی صرف ہوتی ہے۔ عالمی ادارۂِ صحت کے مطابق ایک لاکھ نفسیاتی مریضوں کے لیے صرف ایک بستر فراہم ہے۔ ملک میں دماغی امراض کے صرف پانچ ہسپتال ہیں۔ اور حکومت صحت کے بجٹ کا صرف صفر اعشاریہ چار فیصد دماغی امراض کے صیغے میں خرچ کرتی ہے۔

نفسیاتی مریضوں کے ساتھ یہ جتنے مظالم ہیں اس کے سلسلے نظریاتی جنون سے جڑے ہیں۔ نظریاتی جنون کی وجہ سے خرد، سائنس، شہریت اور انسانیت کی تعلیم نہیں ہو پاتی۔ جس کی وجہ سے رویوں میں بہتری نہیں آتی۔ نظریاتی جنون کی وجہ سے علاج کی مناسب سہولیات کا انتظام نہیں کیا جا سکتا کہ ملکی دولت نظریاتی جنون پر ہی صرف ہوتی رہتی ہے۔

نظریاتی جنون کی وجہ سے نفسیاتی مریضوں کے خلاف جرائم کی روک تھام نہیں کی جا سکتی کہ کیوں کہ جب آپ خرد کی حوصلہ شکنی کریں گے تو عشق نے کی منزل غلبہ ہے، عشق نے کب کوئی معاملہ دُرُست کرنا ہوتا ہے۔

نظریاتی جنون کا حل ایک معاشرتی تحریک ہے جو خرد، سائنس، منطق، شہریت، انسانی حقوق، فرد کا احترام، تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے کام کرے۔ یہ تحریک ایک سیاسی پارٹی کی تشکیل دے اور وہ پارٹی الیکشن جیت کر ان خوبیوں کے ارد گرد پالیسیاں مرتب اور نافذ کرے۔ یہ سب کچھ تو ابھی منظر پر آیا ہی نہیں۔

ابھی تو یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح خرد کی، منطق کی، سائنس کی، شہریت کی، انسانی حقوق کی، فرد کے احترام کی، انسانیت کی، محبت کی گفتگو کرتے رہیں، شاید کچھ رویے بہتر ہو ہی جائیں۔