ذہنی تناؤ اور انفرادیت کے اظہار پر پہرے

فرح اکبر
فرح اکبر

ذہنی تناؤ اور انفرادیت کے اظہار پر پہرے

از، فرح اکبر

ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جو کہ complexly oriented ہے۔ معاشرتی نا ہمواریوں، تفاوتوں اور  غیر برابری کے نتیجے میں ایک ایسی معاشرتی زندگی وجود میں آئی ہے جس نے انسان کو ذہنی طور پر بہت زیادہ متأثر کیا ہے۔ حضرتِ انسان نے اپنے حافظے (تاریخ اور تاریخیَّت کے ادراک) اور فکر کی بناء پر اپنے “ماحول” کو سَر تو کر لیا لیکن مادیت (materiality) کو اپنے سر پر بہت زیادہ سوار کر لیا۔ اس کے بہت زیادہ معاشرتی اور ذہنی نتائج برپا ہوئے۔

ذہنی دباؤ، depression اور anxieties جدید معاشروں میں با قاعدہ ایک بیماری کا درجہ رکھتے ہیں اور میڈیکل کالجز اور یونی ورسٹیاں میں ان فیلڈز میں بہت زیادہ ریسرچ کر رہی ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں پہلے تو ان مسائل پر بات کرنا ہی ممنوع ہے اور دوسرا اسی شخص کو مُوردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے جو اس طرح کے ذہنی تناؤ کا شکار ہو۔

ہمارا خاندانی نظام اور قبیلی جبلت ہمیں ایک خاص قسم کے ادبی اور مسلط فرماں برداری کے ماحول میں رہنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔

مزید بَرآں ہمیں ماحول کے ساتھ “نبھا” کرنے کی پریکٹس بھی کروائی جاتی ہے۔ اگر چِہ یہ ماحول مرد اور عورت میں اتنی کوئی خاص تمیز نہیں کرتا، لیکن عورت کو بَہ طورِ خاص ایک “standard pattern” کے مطابق تراشا جاتا ہے۔


دیگر زاویوں سے متعلقہ تحریریں:

زیادہ زبانیں جاننا دماغی صحت اور ذہانت کی ضامن

عاشق جنات،ذہنی امراض اور ہمارے سماجی رویے

نظریاتی جنون اور نفسیاتی مریض


یوں انسان جو اپنی “انفرادیت” اور “وجودی اکائی” کی وجہ سے معاشرے کے لیے ایک زرخیز اثاثہ بن سکتا ہے، اس سے اس کے اظہارِ شخصیت کے تمام تر ذرائع واپس لے لیے جاتے ہیں۔ اس خاندانی و معاشرتی تسلط نے ایک خاص قسم کے اذہان ترتیب دیے ہیں جو کہ فطرتاً “compliant” ہوتے ہیں۔

 لیکن جوں جوں معاشرے نے ترقی کی ہے اور تعلیم کا لیول بڑھا ہے اس “compliant” حیوان نے سوچنا شروع کر دیا ہے چُوں کہ یہ سوچ “قبیلی طریقۂِ حیات” سے ایک طرح کی بغاوت تھی تو اس طرح کی حرکات کو مختلف سماجی طریقوں سے ختم کرنے کی_ یا کم از کم_ دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

اس تناو کی وجہ سے ہماری نو جوان نسل میں ذہنی دباؤ اور تناؤ کے رویے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارا مذہب اور ہمارا معاشرہ ہمیں ایک خاص قسم کی “انفرادی آزادی” اور انفرادی جواب دہی” کا درس دیتے ہیں۔ مگر جب بات آتی ہے روز مرہ زندگی کے معاملات کی پھر ایسا لگتا ہے ہر انسان بے حس ہے اور اس جذبے کو سمجھنے سے قاصر ہے، بات اور عمل میں تضاد کی یہ صورتِ حال مختلف ذہنی اور سماجی مسائل کو جنم دیتی ہے۔

دوسروں کی انفرادیت کو تسلیم کرنا تو دور کی بات ہے، ایک انسان کو اس کی موجودہ شخصی خصوصیات کے ساتھ قبول ہی نہیں کیا جاتا۔

آزادانہ طور پر رائے دینے کا حق تو سبھی رکھتے ہیں مگر دوسرے کی رائے کا احترام کرنا بھی لازم ہونا چاہیے۔

بَہ حیثیتِ قوم اس بات کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم سب اپنی سماجی ذمے داری نبھا رہے ہیں؟

انسانی رویے اور عادتیں اس انسان کی انفرادی شخصیت کا اظہار ہیں۔

ہمیں اپنی سماجی ذمے داری پوری کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہر انسان کو اس کی موجودہ شخصی خصوصیات کے ساتھ قبول کر سکیں اور ہم معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل پر قابو پا سکیں۔

“خاموش کیوں ہو؟

“تم بولتی کیوں نہیں؟”

“تم بولتی بھی ہو؟”

“تم بہت زیادہ بولتی ہو!”

“ہاں یہ شروع سے ہی ایسی ہے…”

یہ چند ایسے جملے ہیں جو ہمیں اکثر سننے میں ملتے ہیں، اور ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم انسان ایک دوسرے انسان کی انفرادیت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔

آخر ہم انسانوں کو ان کی موجودہ شخصی خصوصیات کے ساتھ قبول کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں رکھتے؟

انسانی رویوں کی غیر متوازن تقسیم نے انسانوں کو بہت ہی پریشانی اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

ایسے سماجی رویوں کی وجہ سے بہت سے انسانوں نے خود کو جینا چھوڑ دیا ہے اور ہر انسان اس کوشش میں ہے کہ وہ معاشرے سے approval یا acceptance حاصل کر سکے تا کہ وہ اپنے دوستوں اور رشتوں کو خوش اور مطمئن کر سکے۔

کیا ذہنی دباؤ میں مبتلا افراد اس کوشش میں ہمیشہ مصروف رہیں گے تا کہ وہ اس جنگ میں کام یابی حاصل کر سکیں؟ یا پھر ہم بَہ طورِ معاشرہ ایسے افراد کا ساتھ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

یہ فیصلہ اب ہمیں کرنا ہو گا کہ ہم کیسے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔