شادی اور فوتیدگی کی رسمیں

Munazza

شادی اور فوتیدگی کی رسمیں

از، منزہ احتشام گوندل

تم بھی کوئی آدم ہو جس نے بہن کی مرگ پہ لوگوں کو آلو مٹر کھلائے ہیں۔ ارے مجھے دیکھو مجھے۔ میں نے چالیس دن بکرا کھلایا ہے لوگوں کو۔

یہ طعنہ اکبر نے نواز کو دیا اور نواز بے چارہ مارے غیرت کے ڈوب ڈوب گیا۔ کیوں نہ ڈوبتا کہ اتنا تیرا ہوا تو پہلے بھی نہ تھا۔ تین ایکڑ زمین کا مالک ایک غریب کسان، اوپر سے دس سال بیمار بہن کا علاج معالجہ کرتا رہا۔ اب خدا خدا کرکے اس بھلی لوک نے مٹی اوڑھی تھی کہ خلقت طعنے دینے آ گئی۔

تین لاکھ قرضہ پہلے چڑھا ہوا تھا۔ کہاں سے بکرے لاتا اور برادری کو کھلاتا۔ کسی میرے جیسے نے مشورہ دیا کہ آلو مٹر پکا لو۔ اسے ڈر تھا کہ برادری طعنے دے گی۔ اور وہی ہوا۔

ہماری فوتگیوں پہ بکرے کھاتے رہے ہو اور اپنی دفعہ سبزیاں پکا کے مُنھ پہ مار رہے ہو؟

نواز کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے؟

نواز کی شکل کچھ اور نمانی ہو گئی۔ مجھے باجی کہتا ہے۔ مجھ سے اپنے دکھڑے رو لیتا ہے۔ میرے کالج میں ملازم ہے۔

میں نے تسلی دی اور ساتھ شاباش بھی دی کہ سبزیاں پکا کے اچھا کیا، زیادہ اچھا تھا کہ مسور یا مونگ کی پتلی دال پکاتے، اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ فوتیدگی پہ کھلانے پلانے کا سلسلہ ہی ختم کیا جائے۔

میں نے اس سوچ کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ کہ مرگ پہ لاکھوں کے مجمع کا پیٹ بھرنے کی رسم کا اختتام کیا جائے۔ مرنے والا کبھی منصوبہ بندی کر کے نہیں مرتا۔ موت اچانک آتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ مرنے والے کے گھر میں بھڑولے گندم سے بھرے پڑے ہیں یا شام کی روٹی کا آٹا بھی نہیں۔

اوپر سے اظہار افسوس والی خلقت بنا دعوت کے آتی ہے۔ ایسے میں کوئی تُک ہی نہیں بنتی کہ ان تمام لوگوں کو کھانا کھلایا جائے۔ ہم پنجابی شادیوں میں پیسے، کپڑا لَتّا اور برتن بھانڈے دیتے ہیں۔ جسے ہم “بھاجی” اور کچھ لوگ “نیوندرا”کہتے ہیں۔ اگر چِہ اس بھاجی کا بھی ایک پس منظر ہے۔


مزید دیکھیے: وہ مقامی کھیل اور رسمیں جو متروک ہو گئیں از، ذوالفقار علی


کسی زمانے میں جب زرعی سماج تھا گاؤں کے لوگ مل جل کر ایک ایک برتن جوڑ کے کپڑا لِیڑا ملا جلا کے ایک لڑکی بیاہ دیتے تھے۔ ہر ایک فرد کی طرف سے جو بھی چیز دی جاتی وہ بیٹی یا بیٹے والے کی طرف “بھاجی” ہوتی۔ جس کا مطلب تھا کہ آج ہم دے رہے ہیں کل یہ ہمارے بیٹے بیٹی کی شادی پہ ہمیں دُو گنی یا اتنی ہی ملے جتنی ہم نے دی ہے۔

یہ ایک طرح کی کمیٹی ہوتی تھی۔ اس کے با وجود کہ شادی با قاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ شادی کا کھانا دینا یا مہمانوں کو دعوت کھلانا بھی ایک سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ ایک ایسی تقریب جس کے ہونے کا ہمیں پتا ہے اور جسے ہم با قاعدہ طے کر کے کرتے ہیں۔

وہاں جا کے ہم پیسے دے آتے ہیں۔ چلیں پہلے زمانے کی مجبوریاں کچھ اور تھیں۔ مگر اب ہر شخص انفرادی سطح پہ کم یا زیادہ چیزیں خود مہیا کر لیتا ہے۔

دوسری طرف مرگ ہے جو کبھی پوچھ کے نہیں آتی۔ اچانک دھاوا بولتی ہے۔ آنے والے مہمانوں کی تعداد بھی متعین نہیں ہوتی۔ دن بھی مخصوص نہیں ہوتے۔ بعض اوقات تو چالیس چالیس دن تک سوگ چلتا ہے۔ اور کھانے میں ہم بکروں اور مرغوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔

کیا ہم پیدا ہی کھانے کے لیے ہوئے ہیں؟

کیا ہم بیاہ بھی کھانے کے لیے کرتے ہیں؟

کیا ہم مرگ پہ بھی کھانے کے لیے جاتے ہیں؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ مرگ پہ کھانے کا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ جسے افسوس کے لیے جانا ہے وہ گھر سے ناشتہ کر کے دو پہر کا کھانا کھا کے جائے۔

مرحوم کی روح کو ایصالِ ثواب کرے اور اپنے گھر لوٹے۔ اور اگر فرض کیا کچھ دور دراز کے عزیز ایسے ہیں رکنا جن کی مجبوری ہے تو وہ گھر کی سادا دال روٹی پہ اکتفا کریں۔ اور مرگ کے صدمے میں دبے ہوئے اہل خانہ کو قرض کے بوجھ تلے نہ دبائیں۔

خدارا مجھے بے وقوف کہنے کی بہ جائے آپ خود ہوش کے ناخن لیں۔

(پس تحریر یہ کہ میرے برادر خورد کو اسی تبلیغ پہ کچھ بہ زُعمِ خود عقل مندوں نے طعنے دیے ہیں سو امید ہے کہ مجھے بھی بے وقوف کہا جائے گا)۔