صاحب دلان خدا را

Naseer Ahmed
نصیر احمد

صاحب دلان خدا را

از، نصیر احمد

شہر قصور کی سات سالہ بچی زینب کا بہیمانہ قتل تو ہستی کو ڈگمگا دیتا ہے ۔ اور ہماری قومی ہستی ہی کیا ہے؟ نیستی کی طرف ایک پیہم سفر جسے ہم لوگ ایک بے کردار سی جذباتیت کے سہارے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس سنگ سیاہ، سنگ سرد و سخت خارا سی ہستی میں ہماری امید ہمارے بچے ہیں، ان کے نقش و نگار، ان کی مستی بہار، ان کی قیل و قال ان کا شور و حال اور ان اس بات کی آرزو کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ ان کی زندگی ہم سے لاکھوں درجے بہتر ہو جائے مگر یہ شمعیں، یہ گل، یہ خورشید، یہ مہتاب ، یہ کہکشاں، یہ نئے جہانوں کے مسافر، یہ کائنات کی ترتیب بدلنے والے، یہ زر و جوہرو زمرد کٹے پھٹے کچرے کے ڈبے میں ملیں تو جانیں نقش رویا اور گلگشت فردا جو ہمارے صاحبان حل و عقد ہمیں دکھا کر ہمیں دیوانہ کرتے رہتے ہیں، وہ ہماری اجتماعی بے کردار سی جذباتیت کا ایک اور عکس ہے جو ہمارے سامنے روزانہ آتا رہتا ہے مگر ہم بے حسی اور سنگ دلی کا یہ پیہم سفر اپنی بے کردار سی جذباتیت کے سنگ جاری رکھتے ہیں۔

کوئی کہتا ہے زینب بارہویں ستم رسیدہ ہے، کوئی کہتا ہے زینب دسویں شکار ہے، کوئی کہتا ہے زینب آٹھویں مقتول ہے مگر گنتی ہمیں نہیں آتی. اتنے صیغے، اتنی مدیں، اتنے عنوان ہیں اور ہر صیغے مد عنوان اور ہر مد کے تحت فوت ہونے والے بچوں کی تعداد ہزاروں لاکھوں تک پہنچتی ہے اور یہ سب ہماری بے حسی، سنگ دلی اور بے کردار جذباتیت کا نتیجہ ہے۔

شہر قصور والے اب سرکاری املاک جلاتے ہیں لیکن ایک سوال انھوں نے بھی خود سے بھی پوچھنا ہے کہ ان کے سامنے تعداد بڑھتی گئی، انھوں نے اس کی روک تھام کیوں نہیں کی؟ وہ حکومت پر الزام دیں گے کہ حکومت کچھ نہیں کرتی، حکومت سے پوچھیں تو حکومت کے پاس بھی بہت سی انتظامی وجوہات ہوں گی اور عوام کی جہالت پر شکوہ کناں بھی ہو گی۔ لیکن بات یہیں رک جاتی ہے۔ حکومت جرائم کے خلاف اپنی صلاحیت میں اضافہ نہیں کرتی اور عوام بھی جہالت سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

میڈیا سے تو گلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ریٹنگز سے آگے کا سوچ نہیں سکتے۔ کل دو تین منٹ تک اس سانحے کے حوالے سے ایک چینل کی خبریں دیکھیں۔ خبریں دیکھ کر تو ہمیں تو یہی لگا کہ یہ تو ایک کمزور معاشرے کے کمزور اداروں کو کمزور تر کر رہے ہیں اور بے کردار سی جذباتیت کے فروغ میں اس طرح مصروف ہیں کہ ان سے بات چیت ہی ممکن نہیں ہے۔

ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ بات چیت کسی سے بھی ممکن نہیں ہے ،فرد ہی نہیں ہے، اپنے جیسا انسان ہی نہیں، فرعون و افلاطون کا ایک مجموعہ ہے جس نے بات چیت کو معطل کرنے میں ہی دانائی دیکھنی ہے

مگر دوستو بات چیت تو کرنی پڑے گی۔ اگر پھول سے بچے کچرے کے ڈبے میں ملیں تو گفتگو تو بہت ضروری ہو جاتی ہے۔ اشک بار آنکھیں، غم و غصے میں مبتلا سرکاری دفاتر جلاتے ہوئے جسم و جاں تو بچوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی مستقل نظام کہاں وضع کر پائیں گے؟ بے کردار سی جذباتیت سے آگے جو مرحلے ہیں وہ تو تفکر و تدبر سے جڑے ہوئے ہیں، راڑ کرتے لوگ تو بھٹک جاتے ہیں۔ کیا یہ سب ہم دیکھتے نہیں رہتے؟وہ جو کہتے تھے کہ ماں جیسی ریاست ہو گی، کتنا شور و غوغا،کتنی دھینگا مشتی ہوئی تھی، کتنی جانیں ضائع ہوئیں تھیں، مگر وہ ماں جیسی ریاست کہاں ہے؟

آصف زرداری وہ ریاست تشکیل دے سکتے تھے، نواز شریف وہ ریاست بنا سکتے تھے، اشفاق پرویز کیانی اور راحیل شریف اس ریاست کی تشکیل میں ان سیاستدانوں کی مدد کر سکتے تھے۔ عدالت عظمی کا تو یہ وعدہ تھا مگر عدالت تو آئین و قانون ہی فراموش کر بیٹھی۔ ہم سب شہری بھی اس ریاست کی تشکیل کے لیے اپنے رہنماؤں کی مدد کر سکتے تھے۔ دس سال بڑی مدت ہوتی ہے، دس بارہ سالوں میں ہم نے کئی ملک بہتر ہوتے دیکھے ہیں مگر یہ جو فرعون و افلاطون کا مجموعہ ہے اور یہ جو بے کردار سی جذباتیت ہے اس نے ایک بہتر ریاست کی تشکیل کی سمت گفتگو روک دی اور ہم اپنا مستقبل کچرے میں کاہیدہ و دریدہ دیکھتے ہیں اور راڑ کرتے ہیں۔

اب بھی ایک بہتر معاشرتی نظام کی تشکیل ممکن ہے مگر ہم لوگوں نے بھی شاید تہیہ کر رکھا ہے ک بس دل پکڑ کر غش کھانا ہے اور آئندہ سانحے پر یہی عمل دہرا دینا ہے۔

سب سے پہلے تو زندگی کے بارے میں ناٹزیوں کی یہ نقالی جو جماعت اسلامی نے ہم لوگوں پر نافذ کر دی ہے اس کے بارے میں بات چیت ضروری ہے کہ ناٹزی اور انسانوں کا تحفظ تو دو متضاد باتیں ہیں اور یہ نقالی ہر اصلاحی سوچ اور تجویز کا رستہ روکے کھڑی ہے لیکن اس بے کردار سی جذباتیت میں لپٹی ہے اور تقدس کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اس وجہ سے انسان کی عظمت، انسانی وقار، انسانی حقوق کی طرف پیشرفت ناممکن سی ہو گئی ہے۔

اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کی بنیادیں انسان کو عطا کردہ خرد اور ضمیر پر رکھی ہیں اور جو ہمارا طرز زندگی ہے اس کی فلسفیانہ بنیادیں جماعت اسلامی نے طے کر دی ہیں جس میں خرد اور ضمیر کو ایک بے کردار سی جذباتیت کے ارد گرد شورو غوغا کے ذریعے آسانی سے معطل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن زینب کے ساتھ جو قساوت ہوئی ہے، وہ خرد اور ضمیر کی نا موجودی کا ہی نتیجہ ہے۔ اور اس قساوت کی روک تھام خرد اور ضمیر کی بحالی سے ہی ممکن ہے۔

انھی اصولوں پر اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق پر مبنی ایک میثاق ترتیب دیا ہے جس میں قوموں سے بچوں کے حقوق کے تحفظ کا عہد لیا گیا ہے۔اس میثاق میں بچوں کے زندگی کے حقوق، تعلیم کے حقوق، صحت کے حقوق، معلومات کے حقوق اور جنسی تشدد سے تحفظ کے جیسے حقوق کی نگہبانی، پاسبانی اور پاسداری میثاق پر دستخط کرنے والی ریاستوں کا فرض ہے۔

پاکستان نے اس میثاق پر 1990 سے دستخط کیے ہوئے ہیں لیکن بچوں کے لیے بدترین ملکوں کی فہرست میں پکستان کا نام شامل ہے۔پتا نہیں ایفائے عہد کے حوالے سے ہماری دین داری کو کیا ہو جاتا ہے.

پاکستان کے آئین میں بھی بچوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں اور یہ بھی قوم کے اپنے بچوں سے کیے گئے وعدے ہی ہیں۔اقوام متحدہ سے کیے گئے وعدے کو تیس سال ہونے کو آئے اور آئین کو بنے ہوئے چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال 2014 میں 70،00 بچوں کے خلاف تشدد کی رپورٹ کی گئی۔ پاکستان کے معاشرتی حالات کے بارے میں اگر کچھ معلومات ہوں تو بچوں کے خلاف تشدد کی رپورٹ تو بہت ہی کم کی جاتی ہے کہ رپورٹ کے ساتھ سماجی شرمندگی وابستہ ہے۔ ہم سچی پوچھیں تو رپورٹوں میں درج اعداد و شمار پر کچھ زیادہ اعتبار نہیں کرتے کہ زیادتی کرنے کے ساتھ جو فخر اور زیادتی چھپانے کے لیے جو معاشرتی دباؤ ہے، وہ زیادتی کے سکیل کو محققوں کی رپورٹوں تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔ اگر معاشرے میں رہ رہے ہوں اور آپ کی آنکھیں کھلی ہوں، تو بہت کم بچے ملیں گے جو کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا شکار نہ ہوئے ہوں۔

اور تشدد کے حوالے سے تو بڑوں کی سچ بولنے کی حوصلہ افزائی کریں تو سمجھ لیں توآپ نے ان کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی زندگی اور مشکل کر دی ہے ، اس عالم میں بچوں کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ وجہ یہ ہے تشدد کے خلاف معاشرتی حمایت موجود ہی نہیں ہے۔

اس معاشرتی حمایت کے لیے سچ پر مبنی ایک ثقافت کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔ معاشرے میں سب کو بتانا ہو گا کہ تشدد کا شکار مظلوم ہے اور مظلوم کی حمایت شہریوں کا فرض ہے۔لیکن مظلومی ناتوانی اور غریبی کا ثبوت بن جاتی ہے اور ظلم کرنے کی ایک دعوت عام بن جاتی ہے۔ اور ظلم کرنے والے جب مظلوموں کو ڈرتا سمٹتا دیکھتے ہیں تو ان کے چہرے پر ایک تابانی نمودار ہوتی ہے جسے دیکھ کر ان کے حواری اتنے خوش ہوتے ہیں کہ ظلم فضیلت بن جاتا ہے۔ اور ظلم کو فضیلت بننے سے روکنے کے لیے صداقت اور ضروری ہو جاتی ہے۔

گوربا چوف کی طرح کا ایک پروسٹرائیکا چاہیے جس میں حکومت صداقت کے لیے اپنے عوام کی حوصلہ افزائی کرے پھر دیکھیے گا کہ کیا کچھ سامنے آتا ہے۔ زرداری صاحب ایک صداقتی اور مفاہمتی کمیشن کی بات تو کرتے رہے لیکن وہ کمیشن انھوں نے بنایا ہی نہیں۔

جمہوری قوانین اور جمہوری اصولوں پر معاشرتی تنظیم نو کی ہم زیادہ بات اس لیے کررہے ہیں کہ مضبوط اداروں کے لیے ان کی موجودی ضروری ہے اور اس تنظیم نو کے بعد ہی دیرپا اصلاحات رائج کی جا سکتی ہیں۔ جب یہ کہیں کہ معاشرے میں نہ صداقت ہو اور نہ ہی آزادی پھر اصلاحات بھی نہیں ہو سکتیں اور زندگی جنگ بن جاتی ہے اور جنگ تو ناتوانوں کی سب سے بدترین دشمن ہوتی ہے اور بچے بڑوں کے مقابلے میں ناتوان ہی ہوتے ہیں اور اس جنگ کے نتائج سب سے زیادہ سہتے ہیں۔

یہ جو طاقت، دولت اور شہرت کے حوالے سے جو معاشرتی مقاطعہ ہے اس کے خاتمے کی بھی بہت ضرورت ہے۔ یہ جو غریب دیکھ کر کٹو بیگم جیسا رویہ اختیار کرنے کا رجحان ہے، اس کی بھی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقوں اور پیشوں سے متعلق لوگ اگر ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں گے تو ایک دوسرے کی زندگیوں کے بارے میں ان کی تفہیم بڑھ جائے گی اور شاید کچھ ہمدردی، درمندی، دلداری اور غم گساری کے جذبے بھی پیدا ہو جائیں گے، اس سے بچوں کی زندگیوں پر بہتر اثرات نمودار مرتب ہوں گے۔

اس کے لیے مختلف سکولوں کے بچوں کے درمیان رابطوں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ امیروں اور درمیانے طبقے کے بچوں میں اپنے حقوق کے حوالے سے بہتر آگاہی ہے۔ اگر یہ غریب بچوں کو ان کے حقوق کے متعلق کچھ سکھا دیں گے تو سب کا بھلا ہی ہوگا۔بچے ایک دوسرے سے بہتر سیکھتے ہیں تو اس بات کا ایک اداراتی نظام وضع کرنا تو کچھ مشکل نہیں ہے۔

دوسرا والدین کے لیے بچوں کے حقوق سے آگاہی کے لیے کلاسز بھی شروع کی جا سکتی ہیں۔جن میں بچوں کے حقوق کی نگہبانی کے نتیجے میں بچوں پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات، تشدد کے نقصانات، تشدد سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات، داد رسی اور چارہ جوئی کے لیے قانونی نظام کے بارے میں معلومات پر فوکس کیا جائے۔

بچوں کی ان کے حقوق کی آگاہی کے لیے کورسز مرتب کیے جائیں اور بچوں کو یہ کورسز تعلیم کیے جائیں اور مقامی علاقے میں یا سکول میں بچوں کے تحفظ کے حوالے فعال مراکز قائم کیے جائیں جو شعور و آگاہی کے ساتھ ساتھ انصاف کے حصول کے لیے بچوں اور والدین کے ساتھ تعاون کریں۔

بچوں پر تشدد کرنے والے مجرموں کی نگرانی کے لیے بھی ایک نظام قائم کیا جا سکتا ہے جس میں پولیس ایسے مجرموں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسے مجرم اپنا جرم دہرا نہ پائیں۔

بچوں، والدین، سکول اور حکومتی اداروں کے درمیان تعلقات اور روابط توانا کیے جائیں ،اس کے لیے حکومت نے ترجیحی بنیادوں پر نوآبادیاتی، خلافت، بادشاہی اور آمریت کے ماڈلز مسترد کرنے ہیں۔

طاقت، دولت، شہرت اور علم کے استعمال کے بارے میں سارے معاشرے کی تربیت کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں تاکہ ان سب چیزوں کے ساتھ جڑی ہوئی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی ثقافت کا فروغ دیا جائے۔ طاقت، دولت، شہرت اور علم سب اچھے ہوتے ہیں، ان سے زندگی کا معیار بہتر ہوتا، انسان کی اپنے لیے اور دوسروں کے لیے قدرو منزلت بڑھتی ہے لیکن ان کی اچھائی کا دارومدار ان سب سے متعلق قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر منحصر ہے۔

کچھ اس ہجومی نفسیات کا بھی علاج ضروری ہے جس میں اگر ایک آدمی کوئی پرتشدد بات کرتا ہے تو سارا معاشرہ لمحوں میں تشدد پر اتر آتا ہے۔ اگر ایک غصے میں ہے دوسرے کا یہی کام بنتا ہے کہ تحمل سے کام لے۔

سکول کا نفسیات دانوں سے بھی ایک گہرا تعلق چاہیے۔ ہر سکول میں کم ازکم ایک نفسیات دان یا کونسلر ضرور متعین کیا جائے جو بچوں کی نفسیاتی صحت کا خیال رکھ سکے۔اس کے لیے حکومت بچوں کی نفسیات کی تعلیم پر سرمایہ کاری کر سکتی ہے۔

باقی پولیس، عدالت، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کی بھی اصلاح کی بنیادیں خرد اور ضمیر پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے ایک بڑی سطح پر معاشرتی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ورنہ آہ و بکا کر رہے ہیں ،کرتے رہیں گے۔

ایک زمانہ تھا ہمارے ملک کا جنوبی کوریا سے مقابلہ تھا۔ اچھا مقابلہ تھا مگر ہم نے بھارت سے بدی کا مقابلہ جیتنے کی ٹھان لی اور اچھا مقابلہ ترک کر دیا۔اب مقابلے کی تو بات ہی ختم ہو گئی ہے، ملک میں انسانیت کے تحفظ کا مرحلہ درپیش ہے۔

اس تحفظ کے لیے جمہوریت سے خلوص ضروری ہے، اتنے عرصے سے فرعون و افلاطون کا یہ جو مجموعہ ہے جسے ہم اپنا رہنما کہتے ہیں، اس نے انسانیت ہی چھین لی ہے۔ ہم تو کہتے ہیں مظلوم کی قبر پر شمع جلانے کے لیے خود کو اس کا حقدار ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ حق داری ظلم کی روک تھام کے لیے ایک موثر نظام قائم کرنے کی کاوشوں کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔

باقی یہ عہدے، یہ بڑائیاں، یہ چم چم کرتی گاڑیوں کے قافلے، یہ روزانہ خبروں میں موجودی کس کام کی جب یہ اپنےملک کے مستقبل کے تحفظ کے لیے کچھ بھی نہ کر سکیں۔

مددی گر بہ چراغی نکند آتش طور

چارہ تیرہ شب وادی ایمن چہ کنم

حافظ کا اکلوتا بیٹا مر گیا تھا تو اس طرح سے شکوہ کناں ہوئے تھے۔