مردوں پر ہمہ وقت سیکس کیوں سوار ہے؟ نفسیاتی جائزہ کی اشد ضرورت

Naeem Baig
نعیم بیگ

مردوں پر ہمہ وقت سیکس کیوں سوار ہے؟ نفسیاتی جائزہ کی اشد ضرورت

از، نعیم بیگ

گزشتہ دو ہفتوں سے میں اپنی بچی کی شدید علالت اور ہسپتال میں علاج معالجہ کے باعث بہت کم فیس بک پر آیا، تاہم اس اثناء میں بہت سے ہونے والے سماجی و سیاسی و عالمی واقعات میری نظر سے سرسری طور پر گزرے، لیکن جس طرح زینب کے ریپ اور بعد ازاں بہیمانہ قتل کے المناک شواہد سامنے آئے ہیں وہ انتہائی شرمناک ہیں اور  اس پر ملکی میڈیا اور مقتدر حلقوں کی جانب سے مذمتی بیانات اور عملی طور پر قصور میں ہونے والے مسلسل عوامی ردعمل نے جو صورت پیدا کی ہے، انھیں بارِ دیگر صرف سطحی طور پر نہیں دیکھنا ہے، بلکہ اس ضمن میں چند ایک انتہائی اہم اور ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ کچھ اقدامات ہمیں عوامی سطح پر لیکن زیادہ تر حکومتی سطح پر سنجیدگی سے کرانا ہوں گے۔

مغرب میں رہنے والے دوست اس بات کے شاہد ہوں گے کہ جب اس طرح کے ملتے جلتے واقعات وہاں رونما ہوتے ہیں تو جہاں ان معاملات میں سخت قانونی اقدامات کیے جاتے ہیں وہیں مقننہ اور پارلیمنٹ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کون سے ایسے نئے قانون بنائے جائیں، جس سے ایسے جرائم کی مزید بیخ کنی کی جا سکے۔ اسی کے ساتھ وہاں نجی سیکٹر اور اعزازی سطح پر بنے ہوئے ہیومن رائٹس، چائلڈ ایبیوز  و دیگر ادارے جو اہلِ فکر و علم اور دانشور طبقوں پر مشتمل ہوتے ہیں، ان معاملات کا نفسیاتی جائزہ بھی لیتے ہیں اور یہ تھینک ٹینک اپنی رپورٹس میڈیا پر فوراً جاری کرتے ہیں تاکہ ان سفارشات کی روشنی میں دیگر اداروں کو کام کرنے کی سمت عطا کی جائے۔

میں ذاتی طور پر کئی ایک عالمی اداروں سے منسلک رہنے پر ایسی پروگریس سے مطلع رہتا تھا اور ہوں۔ ہم آج بھی اس پر گفتگو کرتے ہیں۔ مجھے آج زینب کا معاملہ عالمی سطح پر اسی فورم پر اٹھانا ہے۔ تاہم یہ کام اس حد تک بھی ہوتا ہے کہ یونیورسٹیوں کے ڈیپارٹمنٹ آف سوشیالوجی اور نفسیات اس پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں اور اپنی سفارشات کو شائع کرتے ہیں تاکہ ایسے عوامل میں سماجی اور نفسیاتی اجتماعی و انفرادی الجھنوں کو قانونی، عوامی اور لوکل سطح بھی سائیکو انالائسیز کیا جا سکے اور نتجے پر پہنچنے والے قابل عمل حل سے ان کو رفع کیا جا سکے۔

بدقسمی سے اس المیے پر میں نے یہ دیکھا کہ متعلقین سے زبانی پُرسے، سوشل میڈیا پر طویل نظمیں، اخبارات میں مذمتی بیانات، سرکاری مالی امداد اور توڑ پھوڑ کے عوامی ردِ عمل کے بعد چند ہی دنوں میں مٹی ڈال دی جائے گی۔ میڈیا ہائپ کسی اور واقعہ کی جانب متوجہ ہو جائے گی اور سرکاری سطح پر حسب معمول جے آئی ٹی قِسم کے سٹیریو ٹائپ اقدامات سے پورا واقعہ سرد خانے میں منتقل ہو جائے گا۔ عملی طور پر مقننہ اور نہ ہی کوئی دیگر سرکاری ادارہ حرکت میں آئے گا۔

معمول کے مطابق اس کیس میں بھی مقامی پولیس چیف کو صرف اس عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ چند دنوں بعد وہ کسی دوسرے ضلع میں ڈی پی او لگ جائے گا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ والدین چند لاکھ وصول کرکے اپنی زندگی کو معمول پر لے آئیں گے۔ میڈیا اپنی ریٹنگ سے کئی ایک کروڑ کے اشتہارات حاصل کرکے مزے کی نیند لیں گے اور کسی نئے واقعے کی تلاش میں سرگرداں رہیں گے۔

کم از کم میں نے ابھی تک کسی نجی ہیومن رائٹس، چائلڈ ایبیوز کے ادارے، این جی او یا یونیورسٹی کی جانب سے کوئی ایسی خبر نہیں دیکھی جس میں انھوں نے اس المیہ پر عملی اقدامات یا سٹڈی کے لیے کوئی ٹیم بنائی ہو۔ عمرانی، سوشیالوجی اور نفسیات پر معروف اکیڈمکس اور ان کے ڈیپارٹمنٹ اب تک خاموش کیوں ہیں؟

میرے خیال میں سماجی سمت کو متعین کرنے کے لیے جو اقدامات یونیورسٹی لیول پر کیے جاتے ہیں ان کے اثرات نہ صرف دیرپا ہوتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ سرکاری مشینری کو ایک سمت مہیا کرتے ہیں۔

میری ناقص رائے میں وفاقی سطح پر فوری طور پر ملکی دانشوروں (اس کمیشن میں ہر قیمت پر اٹھنے بیٹھے سے معذور ریٹائرڈ اکیڈمکس سے پرہیز کیا جائے) پر مشتمل  ایک مستقل چند رکنی اعزازی کمیشن کے قیام کو ممکن بنایا جائے۔ انھیں صرف کمیشن پر اٹھنے والے اخراجات کے علاوہ کچھ ادا نہ کیا جائے۔ اس کمیشن کا کام ہی یہی ہو کہ وہ ایسے ہونے والے سماجی اور معاشرتی المیوں کا سائنٹفک بنیادوں پر قابل عمل قانونی، عمرانی و سوشل حل پیش کرے۔ اس پر میڈیا میں گفتگو ہو اس کے قابل عمل پہلوؤں پر عمل درآمد کرنے کے لیے حکومت مقننہ کے ذریعہ اسے قانون کا حصہ بنائے۔

بچوں کی تعلیم و تربیت میں سائنسی رحجانات شامل کرنا ہوں گے۔ ملکی سطح پر مخلوط تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیادوں پر مرد و زن کے آپسی تعلقات میں توازن اور گناہ کے بدترین سائیکِیک دباؤ کو دور کرنا ہوگا۔ جس سے لمحوں میں غیرت ایکٹیویٹ ہو جاتی ہے۔

پسِ نوشت: ہمیں اپنے دیگر معاملات میں جن میں سفارتی، جغرافیائی، عالمی دہشت گردی اور ہمسایہ ملکوں سے تعلقات اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں، میں سائنسی بنیادوں پر اپنی سوچ اور طریقِ کار کو بدلنا ہوگا۔ منطقی اور عقلی جِہات کو سامنے رکھنا ہوگا اور فضول کی لپ سروس سے ہٹ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ دن دور نہیں جہاں یہ سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔

About نعیم بیگ 145 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔