شطرنج کا کھیل

Khizer Hayat
خضرحیات

شطرنج کا کھیل

از، خضرحیات

میڈیا یہ چُغلی کھا رہا ہے کہ قصور کی بچی زینب امین کے اغواء، ریپ اور قتل کی تحقیقات کیکے لیے قائم کی جانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کا سربراہ اے آئی جی ابوبکر خدابخش احمدی مسلک سے تعلق رکھتا ہے اور زینب کے والد محمد امین کا کہنا ہے کہ انہیں یہ منظور نہیں کہ ان کی بیٹی کے قتل کی تحقیقات کرنے والا تفتیشی افسر احمدی ہو۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیسا چکر چل رہا ہے۔ زینب کے قتل پر پورا ملک اشک بار ہے، ہر آنکھ نم ہے، ہر دل دُکھی ہے، ہر نفس انصاف کا مطالبہ کر رہا ہے، ہر کوئی احتجاج میں شریک ہے اور پھر ایک دم سے یہ خبر آتی ہے کہ تفتیشی افسر عقیدے کے لحاظ سے احمدی ہے اور ایک نئی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ اس افسر کو ہٹایا جائے اور یہاں سے بحث دو دھاروں میں بٹ جاتی ہے۔

اگرچہ گھناؤنے کھیل کے اس خون آلود میدان پر کئی مذہبی رہنماؤں نے بھی گول کرنے کی کوشش کی ہے جن میں مولانا طاہرالقادری نے مرحومہ کی نماز جنازہ پڑھا کر اپنا حق جتانے اور انصاف کی طالب بچی کی میّت کو اپنے مخصوص مقاصد اور سیاسی داؤ پیچکے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ محترم سراج الحق صاحب نے بھی قصور پہنچ کر قاتلوں کی گرفتاریکے لیے دھواں دار تقریر کر ڈالی ہے۔

پتہ نہیں مولانا اس وقت کیوں خاموش رہے جب ان کے اپنے گھر یعنی خیبر پختونخوا میں نہتے طالب علم مشال خان کو قتل کر دیا گیا اور پھر اس کی لاش کی بھی بے حُرمتی کی گئی۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں جماعتِ اسلامی نے تحریک التواء بھی پیش کی ہے۔ یہ اقدام قابل تحسین ہیں مگر جب ایسے اقدام چند واقعات کے لیے تو اٹھائے جائیں اور باقی ایسے ہی واقعات پر کانوں پر جوُں بھی نہ رینگے تو شک ہونے لگتا ہے کہ کہیں یہ لاشوں پر سیاست تو نہیں کی جا رہی۔

خیر سیاسی اور مذہبی رہنما تو انسانی معاشرے کے آغاز سے ہی لاشوں پر سیاست کرتے رہے ہیں اور مفادات کی دکان چمکاتے رہے ہیں۔ یہ تو آج بھی وہی کریں گے جس فن میں یہ یکتا ہیں اور انہیں جس اکلوتے فن پر دسترس حاصل ہے وہ ہے اپنے مفاد کا دفاع اور اس کے حق میں شعلہ بیانی کرنا۔

مگر یہ ساری صورت حال تو ایک طرف، مجھے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ تفتیشی افسر کے احمدی ہونے کی خبر سامنے آئی ہی کیوں۔ یہ خبر بریک کرنے والے اور اس پر بحث چھیڑنے والے حضرات کون ہو سکتے ہیں؟

ظاہر ہے وہی لوگ جو زینب والے معاملے میں پیدا ہونے والی احتجاجی صورت حال کی شدت پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کو احتجاج کی یہ بھرپور لہر برداشت نہیں ہو رہی۔

ظاہر ہے یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ڈر ہے کہ اس قدر متحد اور جامع مزاحمت کہیں اُنہیں بھی اپنے ساتھ نہ بہا لے جائے۔

ظاہر ہے یہ وہی لوگ ہیں جو تفتیش کے عمل کو کمزور کرکے ذمہ داران کو بچانا چاہ رہے ہیں۔

ظاہر ہے یہ وہی لوگ ہیں جو بحث کا رخ ہی بدل دینا چاہتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ وہی لوگ ہیں جو مذہبی بنیاد پر احتجاج کرنے والوں کو تقسیم کرکے معاملے کی شدت کو گھٹانا چاہ رہے ہیں۔

ظاہر ہے یہ ایسے ہی لوگ ہیں جو مقتول سے زیادہ قاتل کے سگّے ہیں۔

ظاہر ہے یہ ایسے ہی لوگ ہیں جنہوں نے قاتلوں کی طرف داری میں قتل ہونے والے مشال کے کردار اور نظریات پر ہی سوال اٹھا دیے تھے۔

ظاہر ہے یہ ایسے ہی لوگ ہیں جو قاتلوں کے قریب ہوتے ہیں اور عِصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین کے کردار پر سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ وہی لوگ ہیں جو حکومت اور ریاست کو کلین چِٹ پکڑاتے ہوئے ذمہ داری اُلٹا متاثرین پر ہی ڈال دیتے ہیں کہ متاثرین کو ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ گھر سے باہر نکلیں، یا فلاں فلاں طرح کے کپڑے پہنیں وغیرہ وغیرہ

ظاہر ہے یہ اسی طاقتور اور قاتل زنجیر کی ہی ایک کڑی ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر معصوموں کی جان لینے کی عادی ہو چکی ہے۔

ظاہر ہے یہ وہی ریکٹ ہے جس نے معاشرے کو کسی آسیب کی مانند اپنے پنجوں میں بھینچ رکھا ہے۔

ظاہر ہے یہ وہی دائرہ ہے جو سب دائروں سے با اثر ہے اور قانون و انصاف جس دائرے کے اصطبل میں فرمانبردار اور سدھائے ہوئے گھوڑوں کی طرح بندھے جگالی کرتے رہتے ہیں۔

اور ظاہر ہے یہی وہ لوگ ہیں جو انصاف اور عام لوگوں کے درمیان اتنی فصیلیں، راہداریاں، غلام گردشیں، کوٹھریاں اور دروازے کھڑے کر دیتے ہیں کہ کوئی مائی کا لعل انصاف تک پہنچ ہی نہ سکے۔

اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ تفتیشی افسرکے لیے زیادہ اہم قابلیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کس قدر تجربہ کار، پروفیشنل، باریک بین، زیرک، مشتاق اور حاضر دماغ ہے۔ وہ کس ملک کا ہے، کس نسل کا ہے، کون سی زبان بولتا ہے، کس عقیدے پر عمل پیرا ہے، کیسی نماز پڑھتا ہے، مسجد جاتا ہے یا مندر، کسی تفتیش کار کے لیے یہ سب چیزیں تو شاید قابلیت کی کسی ثانوی درجہ بندی میں بھی نہیں آتیں جبکہ ہم اسے اولین قابلیت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

اگر ہمارے ہاں تفتیش کار کی قابلیت کو پرکھنے کا یہی پیمانہ طے پا جاتا ہے تو پھر کوئی کالا، گورا، ہندو، عیسائی، یہودی، بودھ ہمارے کسی کیس کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ ہمیں اپنے معاملات کی چھان بینکے لیے صرف مسلمانی عقیدہ والے ماہرین ہی درکار ہوں گے۔ اور کسی بھی ملک اور قومکے لیے ایسا معیار مشکلات میں اضافہ تو کر سکتا ہے، کمی نہیں کر سکتا۔

زینب امین اور اس طرح کے باقی واقعات کی تفتیش و چھان بین میں نہ تو کوئی مخصوص عقیدہ رخنہ ڈال سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا عقیدہ شواہد تک پہنچا سکتا ہے۔ ایسا عُقدہ تب ہی سلجھے گا جب تفتیش کار پروفیشنل ہوں گے اور انہیں اپنا کام اچھی طرح آتا ہوگا۔ دوسرا کوئی معیار یہاں قابل اطلاق دکھائی نہیں دیتا۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کی خبریں سامنے لائی ہی کیوں جاتی ہیں یا ایسی خبروں کے چھپنے اور موضوعِ بحث بننے کا جواز ہی کیا ہے کہ فلاں کیس کی تفتیش پر مامور شخص فلاں عقیدے کا ماننے والا ہے۔ ایک اُفقی مظہر میں ایک عمودی مظہر کو کیوں گھسایا جا رہا ہے۔ ان دونوں باتوں کا آپس میں تال میل ہی نہیں بنتا۔ میرا دوسرا سوال بھی اس دوسری بات سے ہی جُڑا ہے کہ ایسی خبر میڈیا کو کن لوگوں نے دی ہوگی۔

ظاہر ہے یہ وہی لوگ ہوں گے جو تفتیش کار کے نزدیک ہوں گے اور زیادہ امکان ہے کہ وہ بھی پولیس والے ہی ہوں گے۔ اس بات کا بھی پتہ لگائیں کہ یہی اردگرد کے ساتھی ہی تو کہیں اُن کے ساتھ نہیں جا ملے جنہیں آپ پکڑنا چاہ رہے ہیں اور جنکے لیے آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ پکڑے بنا چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہی آپ کے اردگرد کے لوگ ہی آپ کے اور آپ کے چین سے بیٹھنے کے بیچ میں حائل ہو گئے ہیں۔

ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر اور ہم لوگ انفرادی طور پر شطرنج کی ایک بساط کے کردار بنا دیے گئے ہیں اور ہم میں سے بہت سارے پیادے اب تک پیٹے جا چکے ہیں اور کچھ آگے چل کر پیٹ دیے جائیں گے۔ بادشاہوں اور وزیروں کو بچانےکے لیے ہم مہرے تب سے زندگیاں ہار رہے ہیں جب سے یہ بساط بچھائی گئی تھی۔ اس کھیل کی ترتیب ہی ایسی ہے کہ عام سپاہیوں یا پیادوں نے باری باری مرتے جانا ہے اور بادشاہ کو بچانےکے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے جانا ہے۔

اس بساط پر جاری کھیل میں روز ایک نئی چال چلائی جاتی ہے، روز مُہروں کو اپنی مرضی اور ہدایات کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے، پیادوں کو پیادوں کے آمنے سامنے لاکھڑا کیا جاتا ہے اور پیادوں سے ہی پیادوں کو مروایا جاتا ہے۔ جو آج پیٹ رہا ہے وہ لمحہ بھرکے لیے بھی یہ نہیں سوچتا کہ گیم تب ہی آگے بڑھے گی جب وہ خود بھی پیٹا جائے گا اور یہ لازمی ہے کہ آج نہیں تو کل اُسے بھی پیٹ دیا جائے گا۔

مشال اور زینب جیسا کوئی واقعہ پیش آ جائے جو اگرچہ شاہوں اور وزیروںکے لیے تو کوئی غیر معمولی حیثیت نہیں رکھتا مگر تمام پیادے جب ایسے کسی واقعے پر ضرورت اور معمول سے زیادہ ہی تلمانے لگتے ہیں تو سب سے آخری اور سب سے محفوظ صف میں کھڑے بادشاہ اور وزیر بے چینی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس معمولی واقعے (جسے عوام غیر معمولی سمجھ کے رونا پیٹنا شروع کر دیتی ہے) اور بے چینی کی غیر متوقع فضا کو نارمل کرنےکے لیے شطرنج کی بساط پر نئی چال سوچی جاتی ہے تاکہ غیر ضروری شور و غل سے بادشاہ کے آرام میں کسی قسم کا خلل نہ واقع ہو جائے۔

اب ہم میں سے ہی کچھ مہرے استعمال میں لائے جاتے ہیں اور انہیں باقی ساتھی پیادوں کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ پیادے ایک دوسرے کو مار مار کر لہولہان بھی کرتے رہیں تو کوئی دکھ نہیں، بس کسی بھی خطرے کو بادشاہ سلامت اور وزراء کی صف تک نہیں پہنچنا چاہئیے۔

تفتیشی ٹیم کے سربراہ کا عقیدہ خبر بن کے سامنے آ جانا اور اس پر بحث کا چھڑ جانا بھی ایسی ہی ایک چال ہے کہ انسانیت کی بنیاد پر ایک ہی جگہ اکٹھے ہونے والے پاکستانیوں کو ان کی اوقات یاد کروا دی جائے کہ انسانیت بکواس چیز ہے، عقیدے کی بنیاد پر احتجاج کیا جانا چاہئیے اور ظاہر ہے کہ اب عقیدے میں تو اتنے بے شمار رنگ در آئے ہیں  کہ خود رنگ ساز یہ سب دیکھ کر چکرا جاتا ہے۔

ایسے ایسے شیڈز، ایسے ایسے ادغام اور مختلف رنگوں کو ملا کر ایسے ایسے نئے رنگ بنا دیے گئے ہیں کہ حیرت دنگ رہ جاتی ہے۔ انسانیت کے پلیٹ فارم پر کھڑے پیادوں کے کان میں ہولے سے یہ پھونکا جاتا ہے کہ آپ غلط جگہ کھڑے ہیں، پلیٹ فارم تبدیل کریں اور لائن پھلانگ کر ادھر دوسری جانب جا کھڑے ہوں، نظریئے اور عقیدے والی گاڑی اس طرف آئے گی اور اس میں بیٹھیں۔ بلاوجہ یہاں کھڑے ہوکر انسانیت والی کھکھیڑ میں کیوں پڑنا چاہتے ہیں۔ چلیں شاباش۔

ہمیں یہی سمجھ نہیں آ رہی کہ لائنیں پھلانگنے پر قائل کرنے اور پلیٹ فارم تبدیل کروانے والا یہی بندہ دراصل ہماری انفرادی لاشوں اور اجتماعی قتل عام کا ذمہ دار ہے۔ یہی وہ رانگ نمبر ہے جو مسلسل ہمیں بہکا رہا ہے اور یہی دراصل ہمارے آج تک کے نقصان کا ذمہ دار ہے۔

زینب امین کے کیس میں بھی نئی صورتحال پیدا کرکے جو مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ محض یہ ہے کہ احتجاج کرنے والے، سوال اٹھانے والے، غصہ کرنے والے، لاشوں کا حساب مانگنے والے اور انصاف لینے والے لوگوں کو تقسیم کر دیا جائے۔ کچھ اِدھر کر دیے جائیں اور کچھ اُدھر اور جب سب ادھر ادھر ہو جائیں گے تو معاملے کی سنگینی بھی کچھ کم ہو جائے گی۔

ایک مضبوط اور اجتماعی آواز چھوٹی چھوٹی چیخوں میں بدل جائے گی اور یہی فی الحال مطمعِ نظر ہے۔ اس کے بعد تفتیش میں مزید تاخیر کیسے کرنی ہے یا اور تعطل کیسے ڈالنا ہے یہ اگلی چال ہوگی جس میں میڈیا بہت بڑا کردار ادا کرے گا بلکہ یہ چال ہم میڈیا کے ذریعے سے ہی چلیں گے۔ فی الحال تو احتجاجیوں کو تقسیم کرنے والی چال چل کے دیکھتے ہیں، ہمیں فتح یاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا دیکھتے جاؤ بس۔

ذہن میں یونہی آ رہا ہے کہ شطرنج کے کھیل کا ایک اصول یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی پیادہ نظریں بچا کے ایک ایک قدم بھرتا مخالف محاذ کی محفوظ ترین اور پہلی صف تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اکثر بازیوں کو اُؒلٹا بھی دیتا ہے۔ اچانک ملنے والے اختیارات اور طاقت کا ایسا استعمال سامنے آتا ہے کہ شاہوں اور وزیروں کو چُھپنے کے لیے جگہ ہی نہیں مل رہی ہوتی۔ دھرتی ان پر تنگ ہو جاتی ہے اور وہ ایک ایک کرکے منہ کے بل گرنے لگتے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ جو کھیل آپ نے شروع کر رکھا ہے اس کے سارے ہی اصول آپ کو یاد ہوں گے۔ اس دن سے ڈریں جب پیادے آپ کے محلوں تک پہنچ کے آپ کا جینا حرام کر دیں گے۔