جسٹس فائز عیسٰی اور نیا پاکستان کے ریاض حنیف راہی

Asad Ali Toor aik Rozan writer
اسد علی طور، صاحب مضمون

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وزیر اعظم کا حال کسی ریاض حنیف راہی والا ہو گا

از، اسد علی طور 

 آپ حیران ہوں گے ایسا کیوں لکھا؟ 1 کروڑ 68 لاکھ ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں 156 نشستوں کی نمائندہ تحریکِ انصاف کے وزیراعظم عمران خان کا حال ایک مشکوک اور بد کردار پیٹشنر ریاض حنیف راہی والا کیوں ہو گا؟ سمجھانے کہ کوشش کرتا ہوں۔

پہلے سپریم کورٹ کی سنیارٹی لِسٹ میں پانچویں نمبر پر موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو تو جان لیں جو موجودہ 17 ججز میں ریاست کے ہاتھوں ڈنڈے سے ہانکے جانے والے صوبہ بلوچستان کے واحد جج ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اگر بہ طورِ سپریم کورٹ کے سینئر جج 25 اکتوبر 2024 کو ریٹائر ہو جانا ہوتا تو شاید اتنا مسئلہ نہ ہوتا لیکن جو چیز جسٹس قاضی فائز کو اختیارات کی جنگ میں مستقبل کی منصوبہ بندی پر ریاست کی غیر معمولی اجارہ داری کے لیے خطرناک بناتی ہے وہ اِن کا 17 ستمبر 2023 کی صُبح چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لینا ہے۔

اگر تحریکِ انصاف کی حکومت نے مُدت پوری کی تو 2023 پاکستان میں عام انتخابات کا سال ہو گا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ ستمبر 2023 ہی وہ مہینہ ہو گا جِس کی دوسری شش ماہی میں جہاں ایک طرف پاکستانی عوام قطاروں میں لگے ووٹ دے رہے ہوں گے تو دوسری طرف بلوچستان کا بیٹا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدرِ مملکت عارف علوی سے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لے رہا ہو گا۔

جی ہاں یہ افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر وہی صدرِ مملکت عارف علوی ہوں گے جنہوں نے دو دن قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا ہے۔ اب اس منظر کو تھوڑی دیر کے لئے آنکھوں کے سامنے لا کر اس کی ریاستی منصوبہ سازوں کے لیے ہولناکی سمجھیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اگر سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی مانند صرف چار ہفتوں تک چیف جسٹس آف پاکستان رہنا ہوتا تو شاید ریاست خون کا گھونٹ پی کر صبر کر لیتی لیکن وہ 13 ماہ کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر براجمان رہیں گے اور طاقتور حلقوں کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ اتنا ڈراؤنا خواب کہ چار سال پہلے ہی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔

کبھی ایک مشکوک پیٹشنر کے ذریعے اُن کی 5 اگست 2009 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تعیناتی کو چیلنج کروایا جاتا ہے۔ دال نہیں گلتی تو پنجاب بار کونسل کے کچھ ممبران سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز قرارداد پاس کروا کر اُن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کار روائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ وکلا برادری سے ردِ عمل آتا ہے تو سوری سوری کہہ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن اندر کا خوف ہے کہ صبر نہیں لینے دیتا اور اب ایک ریفرنس کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے نام مبینہ بیرونِ ملک اثاثوں کا ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔

سپین میں پیدا ہونے والی 33 سال سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رفیقِ حیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے زمیندار بلوچ کھوسہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ دونوں میاں بیوی ججز کالونی کا مثالی با اخلاق اور سب سے پیارا جوڑا ہیں۔ ججز کالونی میں ہی ایک ساتھ جِم کرنے جاتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جج بننے سے پہلے بھی کارپوریٹ سیکٹر کےایک کامیاب وکیل ہونے کی وجہ سے قاضی فائز عیسیٰ صاحب مالی طور پر مستحکم تھے۔ اِس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جب وکیل تھے تو اُن کی لا فرم 2004 میں پاکستان کی سب سے زیادہ ٹیکس دینے پر ستارہ امتیاز دیا گیا تھا۔ خاندانی ورثے میں بھی انہیں کوئٹہ اور پشین میں بڑی جائیداد ملی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے زرعی رقبے سے امیر ہونے والے نو دولتیے نہیں ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی قیامِ پاکستان کی تحریک میں قائدِ اعظم کے انتہائی بااعتماد ساتھی قاضی عیسیٰ کے صاحبزادے ہیں جنہیں بانی پاکستان محمد علی جناح نے خود بلوچستان میں مُسلم لیگ کا صوبائی صدر بنایا جب کہ قاضی فائز عیسیٰ کے دادا قاضی جلال الدین ریاستِ قلات کے پہلے وزیراعظم رہے۔

اتنے با وقار خاندانی پسِ منظر کے باوجود جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے مزاج میں کسی قِسم کی رعونت نہیں ہے اور درویش صفت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عموماً سکیورٹی اور پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ججز کالونی سے پیدل ہی سپریم کورٹ چلے جاتے ہیں۔  آئین اور سپریم کورٹ کے ججز کے لئےکوڈ آف کنڈکٹ کی اتنی پابندی کرتے ہیں کہ جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ میں پاکستان کو درپیش آبی چیلنجز پر منعقد ہونے والی کانفرنس کا دعوت نامہ تھرڈ فلور سے گراؤنڈ فلور پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اُن کے چیمبر میں بھجوایا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس ثاقب ںثار کے سٹاف کو دعوت نامہ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ وہ سپریم کورٹ میں صرف انصاف دینے کے لئے بیٹھے ہیں۔

اِسی طرح جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ایک سیاسی جماعت کے عہدے داروں کے ہم راہ دُنیا بھر میں گھوم رہے تھے، سیاسی تقریریں کر رہے تھے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برطانوی یونیورسٹی میں لیکچر کے بعد میڈیا نمائندوں سے یہ کہہ کر گُفتگو سے انکار کردیا کہ یہ اُن کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہو گا۔

مشہور مقولہ ہے کہ ججز نہیں اُن کے فیصلوں کو بولنا چاہیے تو اِس کا عملی نمونہ دیکھنے کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ لیجیے۔ تا کہ آپ سمجھ سکیں کہ جس جج کی رگوں میں قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے باپ کا خون دوڑ رہا ہو وہ اب ریاست کے نشانے پر کیوں ہے؟ جِس جج نے میمو کمیشن میں ریاستی بیانیے کے مطابق امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حُسین حقانی کو غدار لکھا وہ ریاست کی آنکھوں میں کیوں کھٹکنے لگا؟ جناب اِس جج نے فیض آباد دھرنا کیس میں ریاست میں زیرِ زمین قائم ایک متوازی حکومت کے غیر آئینی اور غیر قانونی کردار پر ایسی قاری ضرب لگائی ہے کہ پوری ریاست بِلبلا اُٹھی ہے اور تین سیاسی جماعتوں سمیت چھ ریاستی ادارے نظرِ ثانی کی اپیل دائر کر چکے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاست تھوڑا صبر کر لیتی، اگلے آٹھ، دس ماہ میں جب یہ نظرِ ثانی اپیلیں سماعت کے لئے مُقرر ہوتیں تو ممکن ہے فیض آباد دھرنا کیس میں نظرِ ثانی اپیل سُننے کے لیے ایک لارجر بینچ بنا کر اُس میں مزید ججز شامل کر دیے جاتے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اقلیت میں بدل کر اکثریتی فیصلہ ریاست کو ریلیف دے دیتا جیسا کہ ماضی میں تلور کے شکار پر جسٹس جواد ایس خواجہ کے فیصلے کے ساتھ کیا گیا تھا اور تلور کے شکار کو پاکستانی خارجہ پالیسی کا اہم ستون مان لیا گیا تھا۔  لیکن اِتنا صبر کہاں؟

مُجھ جیسے تاریخ کے طالب علم اور ایک معمولی صحافی کے لیے جو بات باعثِ مایوسی ہے وہ تحریک انصاف حکومت کا اِس تمام محلاتی سازش میں کردار ہے۔ عمران خان کو شاید معلوم نہیں جمہوری حکومت کا فلسفہ کیا ہوتا ہے۔ ایک جمہوری حکومت وہ ہوتی ہے جو عوام کی عوام کے لیے منتخب کردہ حکومت ہوتی ہے۔ عوام اُس کو اپنے مفاد میں کام کرنے کے لئے مُنتخب کرتے ہیں نہ کہ غیر مُنتخب شخصیات اور اداروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے۔ لیکن جب عام آدمی کے ووٹ سے مُنتخب ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت پر عام آدمی کی فلاح کے لیے اقدامات کی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو وہ سستی بِجلی، گیس، ادویات، اشیائے خورد و نوش کو آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے قُربان کر کے عوام کو مہنگائی کی گرم لُو جھیلنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے لیکن جب بات بھاری بھر کم ریاستی اداروں کے مفادات کی آتی ہے تو وہ تیزی سے مقبول ہوتی پختون تحفظ موومنٹ کو بھی آنکھیں دکھاتی ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجتے ہوئے بھی شرمندہ نہیں ہوتی۔

  14 جنوری 2013 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام بہ طور گورنر بلوچستان تجویز کرنے والے عارف علوی آج مولوی اقبال حیدر، شاہد اورکزئی اور ریاض حنیف راہی والے پیٹشنر کا کردار ادا کر رہے ہیں جِن کا کام ہی ریاستی ایماء پر ایسی مشکوک پیٹشنز دائر کرنا ہے۔ تحریکِ انصاف کے مُرشدین سے لے کر تحریکِ انصاف کے زُعماء تک سب جانتے ہیں اِس ریفرنس سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گھر نہیں بھیجے جاسکتے لیکن پھر بھی مقصود ہے کہ باقی 16 ججز کو پیغام دیا جائے ریاست کے سکرپٹ سے ہٹو گے تو فلاح نہیں پاؤ گے۔

بات لمبی ہو گئی۔ بات شروع ہوئی تھی کہ میں ایسا کیوں سمجھتا ہوں عمران خان کا حال مشکوک پیٹشنر ریاض حنیف راہی والا ہو گا؟ تو اِس کے لیے میں آج آپ کو ایک ایسا واقعہ بتانے جا رہا ہوں جو آج تک کہیں رپورٹ نہیں ہوا۔ قصہ یوں ہے کہ ایک مشکوک ساکھ کے حامل پیٹشنر ریاض حنیف راہی نے2016 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کے خلاف دائر کردہ پیٹیشن کو رجسٹرار آفس کی طرف سے اعتراض لگا کر واپس کردیا گیا تھا۔ لیکن دو سال بعد اچانک مارچ 2018 میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اِن چیمبر سماعت کی اور ریاض حنیف راہی کی پیٹیشن پر اعتراضات ختم کر کے سماعت کے لیے اپنی ہی عدالت میں لگا لیا۔

لیکن جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اِس اقدام پر بالخصوص بلوچستان/کوئٹہ بار اور بالعموم پاکستان پاکستان بھر کی بارز (ماسوائے لاہور ہائی کورٹ بار) کی طرف سے شدید ردِ عمل آیا جبکہ میڈیا نے بھی پیٹشنر کے مشکوک پسِ منظر کو کھنگالنا شروع کیا اور پیٹشنر کی نیت پر سوال اُٹھانا شروع کیے تو بہ قول شخصے قاضیِ وقت جسٹس ثاقب نثار کے ہاتھ پیر پھول گئے اور انہوں نے کُچھ روز بعد ہونے والے دورہِ کوئٹہ سے قبل پیٹیشن کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی کیوں کہ وہ جانتے تھے کوئٹہ میں بلوچ وکلا کی طرف سے اُن کو شدید ردعمل کا سامنا ہو گا۔

سماعت سے ایک رات قبل پولیس نے راولپنڈی میں رات گئے پیٹشنر ریاض حنیف راہی کے بیٹے سے یقین دہانی حاصل کی کہ ان کا باپ صبح عدالت میں پیش ہو کر اپنی درخواست پر دلائل دے گا جب کہ پیٹشنر ریاض حنیف راہی کے رحیم یار خان میں واقع آبائی گھر بھی اُسی رات ایک سیشن جج نے خاندان کے افراد کو بھی پیغام دیا کہ وہ صُبح ریاض حنیف راہی کی سُپریم کورٹ میں حاضری کو یقینی بنائیں۔

 ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی پیٹشنر کو کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنی درخواست پر سماعت سے کسی صورت غیر حاضر نہیں ہو سکتا۔ جی ہاں ریاض حنیف راہی ایڈوکیٹ پیٹشنر تھے، کسی کیس میں مطلوب ملزم نہیں۔ اگلی صبح سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پہلی ہی سماعت پر پیٹیشنر راہی اور لاہور ہائی کورٹ بار کے فریق وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بہ طور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی کے وقت کی گئی مشاورت کا ریکارڈ طلب کرنے کی درخواستوں کے با وجود پیٹیشن مسترد کر دی۔ اس تمام واقعہ میں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو یقین نہ آئے تو ریاض حنیف راہی زندہ ہیں۔ اُن کو ایک فون کر کے یہ واقعہ اُنہی سے سُن لیں اور عبرت حاصل کر لیں۔


یہ تحریر ایک روزن سے پہلے نیا دور شائع ہوئی۔ بہ شکریہ اسد علی طور

About اسد علی طور 14 Articles
اسد علی طور، براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں، ان دنوں اے آر وائی چینل کے ایک پرائم ٹائم حالات حاضرہ کے پروگرام کے پروڈیوسر ہیں۔ لیکن آزاد منش فکر اور انسان دوستی ان کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔ سوال کی اجازت نا دینے والی طاقتوں کو بھی سوال زد کرنا اپنا فرض جانتے ہیں۔