یہ معیشت نہیں ہے ، مشیّتِ ایزدی ہی ہے

پانی ڈیم مانگتے ہیں پر!

لکھاری کی تصویر
یاسر چٹھہ
یہ معیشت نہیں ہے ، مشیّتِ ایزدی ہی ہے
(یاسر چٹھہ)
کچھ دن بعد ملک میں مون سون کی بارشوں کا موسم آنے والا ہے۔ بے پناہ بارش ہوگی، جیسا کہ ہر سال ہوتی ہے۔ بے پناہ بارش ہوگی تو جناب پھر کیا ہوا؟ ہونا کیا ہے، ڈیم تو ہم نے بنائے نہیں لہذٰا پانی کسی مفید کام کے لئے ڈیموں کی مضبوط بانہوں میں سِمٹ تو سکے گا نہیں۔ جب یہ منہ زور موسمی پانی ڈیموں کی کسی قسم کی قدغنوں سے آزاد ہوگا تو کھیتوں، کھلیانوں، غریبوں کے مویشیوں، ان کے کچے گھروں اور خود ان کو بہا کر لے جانے پر معروف سرکاری  دفتری اصطلاح “Through proper channel” جیسی پھٹییچر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
پانی جس کو کئی دُور پا افتادہ مریخوں پر زندگی کے بنیادی آثار میں سے ایک اساس کے طور پر جانا جاتا ہے ایک بار پھر سے موت کا پیغمبر بن کر آئے گا۔ دُوسری طرف یاد رہے کہ اب تک اگر مون سون نہیں ہوائیں نہیں آئیں تو وفاقی درالحکومت تک میں پانی کی شدید کمی ہے۔ اس قدر کمی ہے کہ اس بابت ذمے داران کو بار ہا کی شکایتوں کے باوجود انہیں تو وہ پرانے محاورے والا چِلُّو بھر پانی بھی میسر نہیں۔ لیکن مون سون کے آتے ہی یہی پانی سیلاب کا چوغہ پہنے ملک کے گوشے گوشے میں بے لگام زندگی کُش ہلاکو خان کے گھوڑے کی طرح دوڑے گا۔ یعنی کبھی اس کے ہاتھوں ترس کر مرو اور کبھی اس میں ڈوب کر مرو! کیا نرالے رنگ ہیں جن سے غریب اہلیان پاکستان کے ساتھ ہولی کھیلی جاتی ہے۔
جب سیلاب آئے گا تو اہلِ جُبہ و دستار کہیں گے کہ یہ ہمارے بُرے اعمال کا نتیجہ اور تنگ جینز اور فحاشی وغیرہ کا مسئلہ ہے، عین قضائے الٰہی ہے۔ اہلِ نیکٹائی اور ایئر کنڈیشنڈ میٹنگ، میٹنگ کے پانیوں کے سِینچے اِسے انسانی انتظام سے باہر کی قدرتی آفت کی ٹی شرٹ پہنائیں گے، پر درُونِ دل اسے بین الاقوامی امداد اور ڈالروں کے من و سلوٰی کے نُزول کی غیبی مدد جانیں گے۔ سماجی خدمت جن کے اوڑھنے، بچھونے اور ڈکارنے کے لئے آبِ حیات ہے، یعنی این جی اوز، اُن کی بھی دیہاڑیاں لگنے کا اہتمام ہو جائے گا۔ کتنے ساروں کی معیشت و حرص کا پہیہ سیلاب کے اس مظہرِ مکرر در مکرر سے اُس پرانے زمانے کے چوری ڈھونڈھنے والے پِیر کے عدالتی اور سپریم شہادتی لوٹے کی طرح گھوم پڑے گا؛ سب کی گئے گزرے وقتوں کی بے سُر کی قوالیاں اپنی جگہ پر سیلاب کا شکار وہ عام پاکستانی اِسے مشیّتِ ایزدی سمجھتے سمجھتے ہی قربان ہوتا جائے گا۔
لیکن صاحب، جان لیجئے کہ یہ مشیّتِ ایزدی نہیں بلکہ یہ معیشتِ کی کاروکاری ہے۔ یہ مجرمانہ ترجیحاتی، انتظامی اور حکومتی مسئلہ ہے۔ یہ پیش بندیاں کرکے قدرتی آفات سے نبٹنے کی نفسیات سے پہلو تہی ہے۔ اِس پہلو تہی اور مجرمانہ غفلت میں اگر ہم کہہ دیں کہ صرف وفاقی حکومت ذمے دار ہے تو تحریکِ انصاف بہت شاداں ہوگی اور عین ممکن ہے کہ بغیر ڈی جے بٹ کی کسی دُھن کے ہی تبدیلی کے متوالے جھوم جائیں۔ اگر صرف پیپلز پارٹی کو ذمے دار قرار دیا دیا جائے تو “کراچی آپریشن” کے کرتا دھرتاؤں کو پورے سرکٹ میں نئی پِکچر ریلیز کرنے کو مفت کو خیال  دستیاب ہو جائے۔ شہباز شریف کو ذمے دار ٹھہرائیں تو علامہ قادری اسے اپنی خوابوں کی سچائی پر محمول جانیں کہ وہ کہا نہیں تھا کہ “یہ قاتلِ اعلٰی ہیں۔”
بلوچستان والوں کو کیسے ذمے دار قرار دیں؛ ہمیں تو حیا آتی ہے کہ اُن کی زندگی کو تو ہم نے ویسے ہی اور پیش بندی کے طور پر ہی “جُرم” قرار دے دیا ہوا ہے۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو بھی اکیلا ذمے دار نہیں کہہ سکتا کہ انہیں وہاں چوہوں اور خواجہ سراؤں کے قتل کی جفا سے توبہ کرنے کا وقت نہیں، وہ بھلا کیسے ان نازک معاملات پر وقت صرف کر سکتے ہیں کہ سیلاب کیوں آ جاتے ہیں اور موسم اچانک بغیر بتائے کیوں گرج بھی جاتے ہیں اور برس بھی جاتے ہیں۔ کس عقل کی موتیا اُتری آنکھوں والے نے پہلی بار دُنیائے اردو والوں سے کہا تھا:”جو گرجتے ہیں، وہ برستے نہیں”
آتا تو پانی منہ زور فراوانی اور روانی سے ہے۔ لیکن قدرت نے اس کے مزاج میں عجب کا بچپنا رکھا ہے، پختہ پن نہیں آ پایا اس نا خلف میں۔ یہ آ جاتا ہے؛ یہ ظالم، سرکاری افسران اور ذمے داران کی طرح اپنے آنے سے پہلے میٹنگ، میٹنگ نہیں کھیلتا رہتا۔ سیلاب ہر سال آتا ہے، اس سال بھی یہ آئے گا اور (کہنے کو تو) بغیر بتائے آئے گا، پر آتا وہ بتا کر ہی ہے۔  لیکن کیسے پتا چلا کہ بغیر بتائے نہیں آئے گا؟  جناب پتا چل جاتا ہے؛ کیوں کہ وہ بتاتا ہے لیکن ہمارے پاس سننے کو کان نہیں! آپ سوچیں گے کہ کیسی عجیب باتیں کرتے جا رہیں ہم؟ لیکن جناب تھوڑا غور کیجئے۔
سولہ جون 2016 کو موقر اخبار ڈان میں جناب خلیق کیانی کی رپورٹ ملاحظہ کیجئے۔ محکمہ موسمیات کی بے سر و سامنے کے متعلق ہے۔ جی وہی محکمہ موسمیات جس کی آندھی، طوفان اور بارش کی پیشین گوئی آپ کو کبھی درست نہیں لگی۔ ہاں تو آپ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ یہ وہی ہیں جن کے کہنے پر کبھی بارش نہیں ہوئی، اور نا ہی آندھی چلی۔
چند دن پہلے اسلام آباد میں تیز آندھی آئی۔ پندرہ انسانی جانیں چلی گئیں اور کتنے سارے آکسیجن کے پیدا کار درختوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے کر اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی۔ وزیراعظم نے لندن میں بیٹھے اس منہ زور، لیکن، حسبِ دستور محکمہ موسمیات کے ریڈروں کے کانوں اور آنکھوں سے اوجھل رہ جانے والی آندھی پر وہ لے لیا جسے پریس ریلیزوں، ٹی وی کے ٹِکروں اخباری کی زبان میں “نوٹس” کہتے ہیں۔ سیاق بن گیا، سباق کے لئے وزارتِ منصوبہ بندی میں میٹنگ طے کرلی گئی۔ تو یہ تھی وہ میٹنگ جس نے جب راز والا تربوز توڑا تو پتا چلا کہ یہ محکمہ موسمیات کا پیش گوئی کردہ تربوز کبھی بھی “سُوہا لال” کیوں نہیں ہوتا۔
پتا چلا کہ محکمہ موسمیات ہمارے نام نہاد بلاگروں کی طرح غیبی نظر نہیں رکھتا بلکہ یہ کچھ سائنسی اور تکنیکی آلات پر اپنی کہیوں، اَن کہیوں کی بنیاد رکھتا ہے۔ پاکستان میں پہلے موسمی ریڈار 1978 سیالکوٹ کے مقام پر لگائے گئے، دوسری بار 1994 میں ڈیرہ اسمٰعیل خان پر 1994 میں اور سب سے حالیہ منگلہ کے مقام پر 2004 میں لگائے گئے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کسی بھی موسمی ریڈار کی عمر دس برس ہوتی ہے اس کے بعد ان کی تجدید ضروری ہوجاتی ہے بصورتِ دیگر وہ ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ لہذٰا ہمارے محکمہ موسمیات کے پاس موجود سارے موسمی ریڈروں کا وہی حال ہے جو ہمارے دفاعی ریڈروں کا ایبٹ آباد والے اسامہ بن لادنوی والے آپریشن کے دن تھا۔ اس سلسلے میں محکمہ موسمیات نے البتہ سنہ 2010 میں سات ارب رُوپے مالیت کا ایک PC-1 منظور کروایا۔ لیکن اُس کے پیسے ابھی تک نہیں مل پائے کہ کچھ عملی پیش رفت ہو پائے۔
وزیراعظم کی “نوٹس مِلیا” میٹنگ کے دوران اب بھی متعلقہ اعلٰی حکام کی طرف سے محکمہ موسمیات کو وہی ہر وقت کی راگنی سننی پڑی کہ حکومت کے پاس اس سلسلے میں فوری طرح پر سات ارب روپے دینا محال ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب میں اس مالی سال میں لیپ ٹاپ جیسی ضروری ترجیح کے لئے صرف پانچ ارب روپے تھے جو بہ آسانی مختص ہوئے اور صوبہ خیبر پختونخواہ کا پچھلے مالی سال کا آدھے سے زیادہ ترقیاتی بجٹ استعمال ہونے سے رہ گیا اور اب روزِ قیامت کام آئے گا۔
اب بھی پاکستان کے منصوبہ بندی کی وزارت نے محکمہ والوں کو کہا کہ آپ مزید کچھ سال اپنی اُسی طرح کی پیشین گوئیاں جاری رکھیں جیسی محمد حنیف صاحب، جو اب ڈاکٹر محمد حنیف ہو گئے ہیں، پی ٹی وی پر نو بجے کے خبر نامے میں نو بج کر پچیس منٹ پر ہمارے بچپن سے کرتے آرہے ہیں؛ کہ جدید موسمی ریڈار جو کسی سائنسی بنیاد پر موسموں کی پیش گوئی کر سکیں اُن کے سلسلے میں کوئی پیش رفت کئی اور میٹنگ، میٹنگ مشاغل کی محتاج ہے۔ لہذٰا اس سال بھی ساری آندھیاں، طوفان،  بارش اور سیلاب کی وجہ سرکاری کام کرنے کی معیشت اور ترجیحات کی نفسیات نہیں ہونگے بلکہ صرف اور صرف مشیّتِ ایزدی سے ہی ہونگے۔ بس اور سوال مت کیجئے کہ پیمرا آپ کو بھی “بلاگرِ ممنوعہ” قرار دینے سے نہیں چُوکے گا۔
وما علینا الا البلاغ
About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔