انسانی فکر کی تاریخ کے اہم موڑ

Qasim Yaqoob aik Rozan
قاسم یعقوب، صاحبِ مضمون

 انسانی فکر کی تاریخ کے اہم موڑ

(قاسم یعقوب)

انسانی تاریخ کی فلسفیانہ فکری روایت تین ادوار میں بٹی ہوئی دکھائی گئی ہے۔ پہلا دور قرونِ اولیٰ دوسرا دور قرونِ وسطی اور تیسرا دور جدید عہد۔ یہ ادوار کی تقسیم کسی ایک خطے یا کسی ایک نظریے کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ پوری تاریخ کے بنیادی قضیات کی تقسیم ہے۔
قرونِ اولیٰ کی تاریخ پہلے یونانی فلسفی تھیلیز سے شروع ہوتی ہے اور فلاطینوس تک پھیلی ہوئی ہے ۔ یہ دور خالص انسانی فکر کی فلسفیانہ گرہ کشائیوں کا دور ہے۔ اس دور میں انسانی فکر میں منطق حاوی ہے۔ اس دور کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہ کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور اپنے اردگرد سے انسان کے رشتے کی تلاش کرتی ہے۔ مابعد الطبعیاتی حدود میں کم جھانکتی ہے اور انسانی سعی پر اعتماد کرتی ہوئی زندگی (Biology)اور فطرت یا مادہ(Matter) میں تطابق ڈھونڈتی ہے۔ اس دور کے تین بڑے نام سقراط، افلاطون اور ارسطو ہیں۔ یونانیوں نے انسانی فکر کو سوال کرنے کا سلیقہ سکھایا۔زندگی کے ہر میدان میں قدم رکھا اور سوال اٹھائے اُن کے جواب تلاش کئے اور اُن جوابوں کی روشنی میں تھیورائزیشن کی۔اگر ہم مغرب کی نفسیاتی تاریخ سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں تو یونان کی عقلی تحریک کو ذہن میں رکھیں۔
قرونِ وسطیٰ کا فلسفہ اور فکر ،الٰہیاتی فکر کی طرف واپسی ہے۔ قرونِ اولیٰ کا فلسفہ الٰہیاتی فکر کے مقابل پیدا ہُوا تھا جس میں عقیدے اور مائیتھالوجی پر کُلّی انحصار کیا جا رہا تھا۔ یونانیوں نے جب عقل کو فوقیت دی تو عقیدے اور اساطیری رجحانات کو کاری ضرب لگی۔ یونانیوں کی عقل پرستی کی اشاعت کے بعد دو بڑے ماورائی مذاہب ظہور میں آئے جن میں ایک عیسائیت اور دوسرا اسلام ہے۔ ان مذاہب میں اول الذکر نے یورپ کو اور موخرلذکر نے ایشا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو فلسفہ کی آگ بھجنے لگی اس کے ساتھ ہی فکر پر غائی الٰہیات کا غلبہ چھانے لگا۔یہ دور فکر کی مدرسیت(Scholisticism)کا دورہے جس میں مطلقیت یعنی حتمیت(Absolutism)کو دوبارہ زندگی کا بنیادی موضوع بنادیا گیا۔ مگر چوں کہ پیچھے انسانی فکر کا ایک اہم واقعہ یونانی فلسفہ کھڑا تھا اس لیے اس دور میں یونانی منطق(Logic)اور عقل پرستی (Rationalism) سے بچنا ناممکن تھا ۔عقلیت کو جواب دینے کے لیے علم الکلام یا الٰہیاتی غائیت کو جگہ دی جانی لگی۔ہُوا یہ کہ یونانی فلسفہ کی مدد سے روحانیت اور ماورائی عقیدت پسندی کا جواز تلاش کیا جانے لگا۔یونانی فلسفیوں کی کتابوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے تلاش کیا جانے لگا اور ترجمہ کرکے اُسے علم الکلام کی جانب موڑ دینے کی روش پیدا ہونے لگی۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نو فلاطونیت نے تصوف کے راستے جگہ بنائی۔ کائناتی مسائل کے حل کے لیے ارسطو کی منطق نے بے پناہ اثرات قائم کئے۔ قرونِ وسطیٰ کے متکلمین نے مذہبیت کو ایک نئے راستے سے فلسفیانہ فکر کے پہلو بہ پہلو کھڑا کر دیا۔
قرون وسطیٰ کے بعد دور جدید آتا ہے۔ یہ ماڈرن دور قرونِ وسطیٰ کے بنیادی تھیسس کو چیلنج کرنے کا نتیجہ تھا۔اس دور میں ایک دفعہ پھر کلیسائی فکر کے ردعمل میں فلسفے کا احیا ہُوا۔ یاد رہے کہ دورِ جدید اصلاحِ دین یعنی Reformationکی تحریک تھی جو بعد میں احیا ئے علوم یعنی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) بن گئی۔پہلی نشاۃ ،یونانیوں نے پیش کی اور دوسری ڈیکارٹ کے فلسفے سے شروع ہونے والی تحریک ہے۔ دونوں عقیدے اور ماورائیت کے خلاف تھیں اور دونوں کے ہاں عقل پرستی کا تھیسس موجود ہے۔مغرب خصوصاًیورپ نے مدرسیت (Scholisticism)کو اپنی فکری تاریخ سے ہی نکال دیا۔ وہ اسے دورِ تاریک(Dark Ages)کہنے لگے۔ اسلامی تحریکوں کے آغاز کے وقت بھی پہلے ادوار کو دورِ جہالت کہنے کا رواج موجود ہے۔ حالاں کہ انسانی فکر کا بہاؤ کبھی تاریکی اور روشنی میں تقسیم نہیں ہوتا۔ سب فکریں اور ادوار ایک دوسرے کے لیے راہ تراش رہے ہوتے ہیں۔
دورِ جدید کو ہم بڑی بڑی تین فکروں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱: عقیدے کی نفی کی گئی۔ یعنی صداقت کو عقائد یا ماوارئی تصوارات یا متون کی رہنمائی میں تلاش کرنے کی بجائے عقل کے ذریعے تلاش کیا جائے البتہ عقل پرستی میں بھی بعد میں دو رویے پیدا ہو گئے ایک رویہ عقل کو وہبی تصور کرتا تھا ڈیکارٹ، اسپینوزا اور لائبنز وغیرہ دورِ جدید (Modernism) کے بڑے فلسفی ہیں جو عقل کو فوقیت دیتے ہیں یعنی عقل کووہبی طور پر انسان میں موجود تصور کرتے ہیں۔عقل خود بخود سچائی، اخلاق اور خیر کو پہچان لیتی ہے جب کہ دوسرا مکتبۂ فکر تجربیت پسند(Pragmatism) تھا یعنی تجربہ عقل کو پیدا کرتا ہے اُسے اصول سکھاتا ہے اور اُس کی کانٹ چھانٹ کرتا ہے اور اسے کائناتی رشتوں سے ہم آہنگ کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دورِ جدید کے لاک، برکلے اور ہیوم شامل ہیں۔ کانٹ کے ہاں عقل اور تجربے کا مشترکہ میلان بعد میں ظاہرہُوا۔
۲: دورِ جدید نے ہر مسئلے کا حل سائنس کو دے دیا۔کہا گیا کہ سائنس کائنات کو سمجھ سکتی ہے اور یہی ایک راستہ ہے جہاں سے ہم اپنے معروض کو جان سکتے اور اپنے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ عقیدائی فلسفے دھوکہ ہیں اور التباس پر مبنی ہیں۔ کوپر نیکس والی تحقیق نے عقیدائی ضابطوں پر کاری ضرب لگائی کوپر نیکس نے کلیسائی فکر کو پریشان کر دیا ۔اُس کے مطابق سورج کی جگہ زمین مداروں میں محوِ گردش ہے۔ یہ کوئی معمولی ایجاد نہیں تھی۔ فکری حوالے سے مغرب کی ہی نہیں، پوری دنیاکی سائنسی اور سماجی فکر تبدیل ہو گئی۔کلیسائی فکر ایک کونے پہ جا لگی۔ویسے بھی جدید یت (Modernism)کوئی مقامی فکر نہیں تھی یہ عالم گیر اثرات کے ساتھ سامنے آئی تھی۔ اس کے اثرات فوری طور پر پوری دنیا کے فلسفوں کو متاثر کرنے لگے تھے۔ جس طرح عیسائیت اور اسلام نے پوری دنیا کے فکری مزاج کو بدل کے رکھ دیا تھا اسی طرح دورِ جدید میں سامنے آنے والی سائنس نے انسانی فکر کا رُخ تبدیل کر دیا تھا۔سائنس کائنات کو سمجھنے کی کوشش بھی تھی اور اِسے انسانی خوشنودی کی خاطر بدلنے کی کوشش بھی۔ سائنس نے چوں کہ معروضی طور (Objectivism) جنم لیا تھا اس لیے ہر داخلی چیز (Subjectivism)کی نفی ہونے لگی یا اُسے کمزور سمجھا جانے لگا۔
۳: تیسرا ایک اہم رویہ یہ پیدا ہُوا کہ ہر چیز اور ہر فکر کا منبع اور مرکز انسان کو بنا لیا گیا۔ یعنی انسان ہی ہر چیز کا پیمانہ ہے۔’’ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں‘‘؛ یہ کہہ کے ڈیکارٹ نے کائنات کو انسان مرکز بنا دیا۔ دنیا کا ہرجدید فلسفہ انسان مرکزHumanistہو گیا۔

ہم جسے آج فلسفہ جدیدیت کہتے ہیں یہ کوئی ایک لکیر کا فلسفہ نہیں۔ اس کے بنیادی نکات مذکوہ بالایہی تین ہی ہیں ،یعنی سائنسی معروضیت، عقیدائی نفی اور انسان مرکز فکر(Humanism) ____مگر ان بنیادی نکات کی موجودگی کے باوجود اس فکر میں تبدیلیاں آتی رہیں۔
دور جدید کلیت کا فلسفہ ہے یہاں اشیا کو کلیت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ معروضیت کو سب کچھ جانا گیا ہے۔ یہ کلیت انسان مرکزیت اور سائنسی جبریت پیدا کرتی ہے۔ بعد میں اس کے خلاف بھی ردِعمل آنا شروع ہُوا۔ چناں چہ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جدید فلسفے میں سے انھی بنیادی نکات کے اندر سے دو اور فلسفے نکلتے ہیں۔ پہلا مارکسیت ہے اور دوسرا وجودیت پسندی ہے۔
مارکسیت کلیت کا فلسفہ ہے جو جدید فلسفے کا ردعمل بھی ہے اورجدیدیت کی شاخ سے جڑا بھی ہے۔جدیدیت سے جڑا اس لیے کہ اس میں جدیدیت کی بنیادی شقوں کو برقرار رکھا گیا یعنی سائنسی معروضیت اورانسان مرکز۔البتہ انسان مرکزیت(Humansim) کومعیشت سے جوڑ دیا گیا اور معیشت (Economics) کو انسان مرکز یت کی بائنڈنگ فورس(Binding force)کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔
جب کہ وجودیوں نے سائنسی مطلقیت کی قائم کردہ یکسانیت کے خلاف آواز بلند کی ۔سائنس کا تکینیت کی طرف جھکاؤ بہت مہلک ثابت ہُوا۔ سائنسی معروضیت پر زور دینے سے معاشرت بری طرح متاثر ہونے لگی۔ وجودیت دورِ جدید کا ہی فلسفہ تھا جو سائنسی بالادستی کے خلاف پیدا ہُوا۔ اب ایک عام سوچنے والا حیران اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے کہ یہ کیسا رجحان ہے جو سائنسی یکسانیت کے خلاف ہے اور جدید فلسفہ(Modern) بھی ہے۔کیا جدیدیت (Modernism) سائنس کی بالادستی کے حق میں نہیں؟اگر وجودیت سائنس کی معروضیت کے خلاف ہے تو وہ جدیدیت کا فلسفہ کیسے ہُوا؟ اصل میں سائنسی نظری نقطۂ نظر اور عملی نقطۂ نظر میں بہت فرق ہے۔ دورِ جدید(Modernism) اصل میں سائنسی نظری فلسفہ ہے جو سائنس کی نظری (Theoretical)افادیت کو مانتا ہے۔ عملی افادیت یاPractical Science اُس کا دوسرا روپ ہے جس پر بے جا اورغیر ضروری زور دینے سے مغرب میں اس کے خلاف ردعمل پیدا ہُوا۔وجودیوں نے انسان مرکز فلسفے سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ انسان کے وجودی مسائل زیادہ شدومد کے ساتھ سامنے آنے لگے۔
اب تک کی بحث کا تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ
۱: یونانی فکر سے لے کر دورِ جدیدتک سب رجحانات کلیت پسند (Absolutism)تھے۔
۲۔ علم الکلام یا دینیاتی فکر نے بھی کلیت پسند فکر کا احیا کیا یہ اور بات کہ الٰہیات نے فکر وفلسفہ کے ساتھ مطابقت بھی پیدا کی۔
۳۔ قرونِ اولیٰ سے لے کر دورِ جدید تک تمام فکری رجحانات یہ مانتے تھے کہ سچائی (Truth)کو جانا جا سکتا ہے اور وہ انسان کی دسترس میں ہے۔
۴۔ قرونِ اولیٰ اور دورِ جدید میں انسان یا انسانی عقل (Rationalism)کو مرکز کہا گیا جب کہ قرونِ وسطیٰ ،جسے اسلام اور کلیسائی فکروں نے مزین کیا ، میں عقیدہ اور غائیت کو مرکزمانا گیا۔ عقل پرستی اور علم الکلام، دونوں کے ہاں کلیت اور حتمیت(Absolutism)کو جگہ دی گئی۔
۵۔ دورِ جدید کے انسان دوست معاشی فلسفے ’’مارکسیت‘‘ نے بھی کلیت پسند فکر کا نمونہ پیش کیا۔ مارکس کے ہاں معاش(Economics)کو ہر فکر اور مسئلے کی کنجی قرار دیا گیا۔نومارکسیوں کے ہاں بھی حقیقت میں آئیڈیالوجی کا رنگ ہے وہ آئیڈیاجی کے پاس پھر یہی معاش ہی دیکھتے ہیں۔ سچائی سب کچھ آئیڈیالوجیکل تشکیل ہے۔ نَو مارکسیوں کے ہاں بھی معاش کے بغیر سچائی کا تصور محال ہے۔

یہ تمام ادوار اور ان میں قائم کردہ فلسفے کلیت اور حتمیت کے حامی فلسفے تھے۔یہ بیانیے مہا بنانیے تصور کئے جاتے تھے۔ جدیدیت اور مارکسیت دو الگ الگ بیانیے ہیں جو اپنی نہج میں مہابیانیے ہیں اسی طرح مذہبیت خود ایک مہابیانیہ (Meta-Narrative)ہے جو حتمیت کا حامی ہے۔
ان سب فکروں کی تشکیل جن مہابیانیوں سے ہوئی دورِ حاضر میں اُسے چیلنج کر دیا گیا ہے اسے مابعد جدید فکر(Post modern movement)کہا گیا ہے۔مابعد جدید فکر ایک صورتِ حال ہے جس نے ایک باقاعدہ فلسفہ کا روپ دھار لیا ہے۔ اس فکر کا بنیادی قضیہ مہابیانوں کا رد اور عد م یقینیت اور تکثیریت (Plurality)پر اعتماد ہے۔

(جاری ہے)

About قاسم یعقوب 69 Articles
قاسم یعقوب نے اُردو ادب اور لسانیات میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ماسٹرز کیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کے لیے ’’اُردو شاعری پہ جنگوں کے اثرات‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا۔ آج کل پی ایچ ڈی کے لیے ادبی تھیوری پر مقالہ لکھ رہے ہیں۔۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ قاسم یعقوب ایک ادبی مجلے ’’نقاط‘‘ کے مدیر ہیں۔ قاسم یعقوب اسلام آباد کے ایک کالج سے بطور استاد منسلک ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے وزٹنگ فیکلٹی کے طور پر بھی وابستہ ہیں۔