ہم جذبات کے جھپاکے عہد کی مونا لیزائیں ہیں

Yasser Chattha
یاسر چٹھہ

ہم جذبات کے جھپاکے عہد کی مونا لیزائیں ہیں

از، یاسر چٹھہ

“کچھ دیر قبل فیس بک سکرول کرتے ہوئے ایک rape victim کا قصّہ پڑھا، angry کا ردِّ عمل دیا اور آگے بڑھ گیا۔

“پھر اپنے تعصبات کو توڑتی ایک چشم کُشا تحریر پڑھی اور love کا reaction دیا۔

“آگے سکرین پہ سیلاب زدگان کی تصاویر منتظر تھیں، تو دل دکھ سے بھر گیا sadness کا reaction کر کے سکرول کر دیا۔

“آگے ایک سیاسی رہ نما کا بیان پڑھ کے جُگتیہ تبصرہ کیا اور آگے بڑھ گیا۔

“سوچتا ہوں سوشل میڈیا کے وسیع اور متنوّع عالم میں ہی ایسا ہے کہ ہر کیفیت کا لمحہ یا تأثر کا لحظہ مختصر تر ہے یا پھر حقیقی زندگی میں بھی متفرق کیفیات کے لمحات سکڑ رہے ہیں؟”

یہ کہتے ہیں برادر خالد چِھینہ جن کی پوسٹوں پر کم لوگ آتے جاتے ہیں۔ کیا آپ کا بچپن دیہات میں گزرا ہے؟ ایک بابا جی آیا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنا بچہ سینما اپنی سائیکل پر لادا ہوتا تھا۔ دو چار بچے اکٹھے ہو گئے تو انھیں مٹھی دو مٹھی آٹے دانے کی مبادلہ کرنسی کے بدلے میں چلتی تصویروں سے وہ بابا جی چٹکی بھر میں مکے مدینے اور دنیا بھر کی سیر کرا دیتے تھے۔

جانے خالد نے وہ فلم دیکھی ہو گی کہ نہیں، اس راقم نے ضلع گوجراں والا کی تحصیل حافظ آباد کے گاؤں چک غازی میں اپنے بچپنے میں یہ فلم بار بار دیکھی۔ سو اپنی گاؤں میں رہ کر دنیا کی سیر کر چکا ہوں، اور آدھا پَچدّھا حاجی بھی ہوں گا۔

سوشل میڈیا بھی وہی بابا جی ہی لگتے ہیں، مگر بجلی کی رفتار والے بابا جی!

اسی چیز پر اور اسی کیفیت پر کسی دفتری مجلس میں جب وہاں چائے کا وقفہ ہوتا تھا تو ایک دن پورے پندرہ بیس منٹ بات کرتا رہا۔ شکر ہے سامعین جو مجھ سے سینئر تھے اور بہت اہم بھی تھے، وہ سنتے رہے۔

لُبِِ لُباب یہ تھا کہ ہم پر انفرمیشن اووَر لوڈ جس قدر تیزی سے بڑھا ہے ہمارا فہم اس بھار کے مقابل ارتقاء نہیں پا سکا۔

یہ سنہ 2003 یا 2004 کی بات ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا نے اس قدر وسیع تر سرایت نہیں کی تھی، مگر انٹرنیٹ کی سرایت اسلام آباد میں کافی ہو گئی تھی۔ یہ بات اسلام آباد کے بلیو ایریا کے اندر کے ایک دفتر کی ہی ہے۔

وہ بات کیے تو چند ہندسوں بھرے مہینے اور سال بِیت گئے۔

اس کے بعد دیکھا کہ دنیا میں ٹرمپ، عمران اور مودی مظہریات اور متبادل سچ کے ترَنگے رنگے گئے ہیں اور آپ اور ہماری اسی ہمہ شخصی پوسٹ در پوسٹ پہنچنے اور خود کو جذبات کا جھپاکا بننے کا عمل ہے کہ دَم پر لگا ہوے ہیں اور یہ دَم نہیں لینے دے رہا۔

پچھلے چند برس میں کچھ سیکھا ہے، لیکن کوئی رفتار ہے کہ ساتھ دوڑاتے دوڑاتے سانس توڑ رہی ہے۔ امید ہے کہ جیتیں گے۔

 بہ ہر کیف، ہم جو بات کرتے ہیں وہ حساب کے سوال کے اس سیدھے سادے حل اور جواب کی طرح تو ہر گز نہیں ہو سکتی کہ اس پر سننے والے کا فوری طور پر یقین بندھ جائے۔ سوچ کی دنیا میں اور رویے کی مجلس میں تبدیلی نا مانوس اور دھیرے سے جانے کس لمحے ا جاتی ہے اور واپس بھی لوٹنے کے امکان رکھتی ہے۔ بہ ہر کیف بات کرتے خالد کہتے ہیں:

“ممکن ہے مستقبل میں آپ جیسے رجائی فکری رویہ کا اہل ہو جاؤں (کیوں کہ میں آپ سے اٹھارہ بیس برس پیچھے چل رہا ہوں). تاہم، سرِ دست مجھے لگتا ہے ہمارے فہم اور احساس کو صدیوں سے میسر ‘ارتکاز کی سہولت’ رفتار نے ختم نہیں تو محدود ضرور کر دی ہے۔

اب تو ‘ربِّ زدنی علما’ مانگتے ڈر لگتا ہے!”

اب اس پر یہی کہوں گا کہ ارتکاز کی سہولت وقت کی رفتار اور اس کی ترقیوں کی دھول ہی ہے۔ جب پیدل چلتے چلتے گھوڑے کے سوار ہوئے تھے تو ہمارا ارتکاز ٹوٹا تھا، جب گھوڑے سے ہم ٹرین اور بس پر بیٹھے تھے تو ہمارا ارتکاز بکھرا تھا۔ ہم رفتاروں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پر یہ بھی نہیں بھولنا ہوتا کہ ہر چیز کی قیمت اور شرط ہوتی ضرور ہے۔

بکھرے ارتکاز اور جذبات کے زیرِ تربیت ہونے کی اس ذہنی کیفیت کو کئی سطحوں پر رکھ کر سمجھا جا سکتا ہے:

وقت، سائنسی، سماجی اور علمی پیش رفت کے رہ نما کردار leading lights بھلے وہ بہ حیثیتِ مجموعی خطے ہوں، اقوام ہوں، گروہ ہوں، یا افراد ہوں، وہ اپنے ارد گرد کی اوسط رفتارِ ترقی و تبدل سے کہیں آگے ہوتے ہیں۔ اضطراب ان کی دولت ہوتی ہوتا ہے۔

انھیں جو وہ کرنے لگے ہوں، اسے کرتے جانے ہوتا ہے۔ انھیں اسے کرتے جانا چاہیے۔

قوسین کے اندر ایک شرط بیان کرتا ہوں۔

(ہاں، مگر وہ صرف اپنے کیے کرائے اور کارگزاری کے لیے ماحولیات سے ہم آہنگ ضرور رہیں، ورنہ ان کی کارگزاری شر، فتنہ اور فساد کا ذریعہ بن کر ان کی اناء کی تسکین تو ضرور ہو سکتی ہے، مگر وہ شمولیت پسند ترقی نہیں ہو گی۔

(ہمیں وسیع تر انسانی سماج اور برادری کے سب سے بھیانک اور بڑا خطرہ فطرت کے ساتھ غیر ہم آہنگ ترقی کا ہے اور فطرت کے تقاضوں اور سنت کے سامنے آنکھ ریت میں دھنسے شتر مرغ بننے کا ہے۔

(ترقی یافتہ اقوام کی کاربن اخراج کی بے ہنگمی اول شرط کی تشخیص ہے اور ترقی پذیر معاشروں کی سر توڑ ڈویلپمنٹ مافیا کی اپنے منافعے اور پُھرتی کی خاطر ماحولیاتی تناظرات کی علمیات کے شاخسانے Environmental Impact Assessments کے ساتھ خدا جانے کا بَیر ہے اور وہ اس اوزار کو اپنے (‘بیمار’) ترقی کی ترقی دشمنی کا حوالہ سمجھنے میں ہے۔ مشرف کے دور میں اسلام آباد کا زیرو پوائنٹ انٹرچینج اس چیز کا میدان جنگ رہا، لاہور میں لاہور نہر کے کنارے کے درختوں کا کاٹنا اسی کا تسلسل تھا، آج بھی ملک ریاض اور زمینی پلاٹی خدا مارگلہ کا سینہ چیرنے کے در پے ہیں۔ ہمارے یہاں دریاؤں کے اندر کے ہوٹل، سیکٹر ای الیون اسلام آباد، جی ٹین فور، مارگلہ ٹاؤن کے نالے کے اوپر کے پلاٹوں پر گھروں کی تعمیر وہی تو ہے۔ انڈیا میں بھی کئی مقامات پر یہی ڈویلپمنٹ مافیا اور ماحول اور شمولیت پسندی باہم دانت نکوس رہے ہیں۔ )

قوسین کے اندر کی qualification اپنی سوچ اور فکر کی مبادیات میں رکھ کر اِسی اُوپری سطر کو دوبارہ دیکھیے:

انھیں جو وہ کرنے لگے ہوں، اسے کرتے جانے ہوتا ہے۔ انھیں اسے کرتے جانا چاہیے۔

یہ کرتے جاتے ہیں تو ہم ایسے صارف معاشروں کے لوگ بُرّاق کے سُمّوں کی دھول چاٹتے وقت کے رہ نماؤں کے پیچھے پیچھے چلے آتے ہیں۔ اس وقت وہی چیزیں جو انھوں نے کافی عرصہ پہلے کر لی ہوتی ہیں وہ ہماری ذہنی رفتار اور ان سے خلق ہونے والے جذباتی کی رفتار کے آس پاس آ جاتی ہے، اگر چِہ اسی طرح آتی ہے جیسے میں نے، آپ نے، ہم نے ‘قینچی’ سائیکل چلانا سیکھی تھی۔ علاقائی زبانوں کے سلینگ کا فرق تفہیم کے رستے میں مزاحم نہ ہو تو بتاؤں کہ ‘قینچی سَیکل’ ہمارے حافظ آبادی پنجابی لہجے میں سائیکل کے اندر گھس کر ایک ٹانگ اِدھر کے پائے دان اور دوسری ٹانگ اُدھر کے پائے دان پر سائیکل کی کاٹھی کو کھلے آسمان کی دھوپ بارش چھاؤں اور تازہ ہوا کے لیے چھوڑ کر سائیکل کو چلایا کرتے تھے۔

ہماری حالت کسی ماں بندریا (سائیکل) کے ساتھ چپکے ہوئے بچے بچونگڑے جیسی ہوتی تھی۔

اس سیکھنے دوران بہت دفعہ کہنیاں، گوڈے، گٹّے، ماتھے ہونٹ کے کونے پر زخم اور سوجھن رسید ہوتی تھی۔ حق بہ حق دار رسید!

تو ابھی ہم صارفوں کو، ہم سورج اور چاند کے سایوں کو چھڑیوں سے ناپ کر قبلہ رخ متعین کرنے والوں کو سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کی روز افزوں پیش رفتوں کے ہاتھوں چہرے کے تأثرات کی مشق کرتی مونا لیزائیں ہی بنے رہنا ہے۔

 پَر، شاید، ہو سکتا ہے کہ وغیرہ: رام بھلی کرے گا!

ہمارے نو جوانوں کا پیرانہ سالہ رہ نما لاکھ کہے کہ ہم کوئی غلام ہیں، اور بھلے کہتا رہے، غلامی یہ پوچھ کر نہیں آتی کہ میں تمھیں قبول ہوں، قبول ہوں، قبول ہوں؟

یہ غلامی بہ غیر آہٹ کے آس پاس دوڑتے برّاقوں کے سموں کی دھول کے خراج کے طور پر نیند کے لطف لینے سے آتی ہے۔ یہ بے چینی کو لسّی پلانے سے آتی ہے۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔