کیا ہمارا معاشرہ ہندو دیو مالائی کردار کُم کرن بن چکا ہے؟

فضائی ماحولیاتی آلودگی

کیا ہمارا معاشرہ ہندو دیو مالائی کردار کُم کرن بن چکا ہے؟

کیا ہمارا معاشرہ ہندو دیو مالائی کردار کُم کرن بن چکا ہے؟

از، ڈاکٹر محمود حسن

کوئی بھی باشعور انسان آج اگر پاکستان  میں ہر سو پھیلی ماحولیاتی آلودگی کا بغور جائزہ لے تو بلا تامل ایک ہی نتیجہ تک پہنچے گا اور وہ یہ کہ یہاں  پورے کا  پورا  معاشرہ اور نظام ایک قاتل  کا روپ دھار چکا ہے۔ بالکل اُس ہندو دیو مالائی کردار “کُم کرن”  کی طرح جس کی بھوک  مٹنے کا نام ہی نہیں لیتی، ہمارے معاشرتی “کُم  کرن” کو بُھوک مٹانے کے  لیے روزانہ کے حساب سے  لاشیں اور پینے کے لیے غریبوں کا خون چاہیے۔

آپ ملک میں ہونے والی  اموات کے اسباب کا جائزہ لیں تو  جلد ہی سمجھ جائیں گے کہ اس  ملک کے غریب افراد اپنی طبعی عمر پوری ہونے سے قبل ہی غیر طبعی موت کے مُنھ میں جا رہے ہیں۔ آلودہ پانی ، آلودہ  ہوا، آلودہ زمین  اور آلودہ غذا  ہر روز کئی غریب گھرانوں  کے چراغ گل کر کے ان کی بے وقت موت کا باعث بن رہی ہے لیکن  قدرتی وسائل کو آلودہ کرنے والےمجرمان ھماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اوریوں ہر مقتول کےقاتل کا علم نہ ہونے کے باعث قضائے اِلہی  سمجھ کر دفنا دیا جاتا ہے۔   بقول مصطفٰے زیدی:

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

حال ہی میں شائع ہونے والی ایک بین الاقوامی  تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی سے مرنے والوں کی شرح  جنگ، دہشت گردی، ایڈز یا دوسری وبائی امراض سے مرنے والوں کے مقابلہ میں  16 فیصد زیادہ  پائی گئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے مرنے والے92 فیصد لوگ غریب ملکوں کے  غریب ترین باشندے تھے۔ بد قسمتی سےجنوبی ایشیا کے تینوں ممالک  یعنی پاکستان، انڈیا  اور بنگلہ دیش شرحِ اموات کے لحاظ سے ان ممالک میں سر فہرست ہیں۔ شیر خوار بچوں میں ماحول میں موجود زہریلے مادوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت بالغ افراد کے مقابلہ میں انتہائی کم ہونے کے باعث مرنے والوں میں شیر خوار بچوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ سال 2016 میں  پاکستان میں ایک سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 4 فیصد، جبکہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات 5 فیصد رہی جو  عالمی تناظر میں انتہائی زیادہ ہیں۔

پاکستان میں فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے اموات کی شرح سال 1990 سے بتدریج  بڑھ رہی ہے۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق  پاکستان میں فضائی آلودگی کے باعث سال 2015  میں ایک لاکھ 35 ہزرا  افراد لقمہ اجل  بنے جبکہ  درجہ بندی کے لحاظ سے پاکستان فضائی  آلودگی سے متاثرہ ممالک   کی فہرست میں پانچویں نمبر پر رہا۔  نائٹروجن ، سلفر ، کاربن مونو آکسائیڈ اور اوزون  جیسی گیسوں کے مرکبات کی بڑھتی ہوئی مقدار غریب  پاکستانی افراد کے لیے زہرقاتل بن چکی ہے۔ 1990  سے 2015 تک لگ بھگ  20 ہزارافراد  فضاء میں اوزون کی موجودگی کے باعث موت سے ہمکنار ہوئے۔  لیکن  اگر فضاء میں موجود ذراتی  آلودگی سے ہونے والی اموات کا  جائزہ لیا جائے تو پاکستان دنیا بھر میں 4 فیصد سالانہ شرح اموات  کے ساتھ پچھلے  پچیس سال سے  پہلے نمبر پر  ہے۔ یہی وہ ذراتی آلودگی ہے جو ہر سال نومبر میں سموگ کی شکل میں پاکستان کے ہر خاص و  عام اور  کسی  نہ کسی حد تک حکومت وقت کو بھی اپنی طرف متوجہ کرپاتی ہے۔

سموگ درحقیقت دھند (فوگ) اور دھویں (سموک) کا مرکب ہے۔ ہر سال نومبر کے مہینے میں پنجاب  کے میدانی علاقے دھند میں چھپ جاتے ہیں۔ دھند بننے کی بنیادی وجہ پنجاب کا نہری نظام ہے۔ اگر آپ کو سردیوں میں صبح کے وقت کسی نہر میں نہانے کا اتفاق ہو تو آپ محسوس کریں گے کہ نہر کا پانی قدرتی طور پر گرم ہے۔ نومبر کی سرد راتوں میں زمین کی  حدت (جیو تھرمل انرجی)  نہروں میں موجود پانی گرم رکھتی ہے اور اس کو  بخارات  میں بدل دیتی ہے۔ اس مہینے فضاء کا درجہ حرارت نہ تو اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ یہ بخارات بلندی تک اٹھ  سکیں اور بادل بن جائیں اور نہ ہی اس قدر کم کہ بارش یا اوس کی شکل میں دوبارہ زمین پر گر جائیں۔ یہی معلق  بخارات فضاء میں پہلے سے موجود دھویں کے ساتھ مل کر سموگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

عالمی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سال 2016 میں پاکستانیوں کی غالب اکثریت  کی موت کا موجب بننے والی  امراض  مثلا دل کا دورہ ،  ھائی بلڈ پریشر، نوزائیدہ بچوں کی دماغ کی جھلی کی سوزش، ہیضہ، سانس کی اوپر کی نالیوں کی  مختلف بیماریاں ، پھیپھڑوں کے امراض، تپ دق، اوربچوں کی رِحمِ مادر میں اموات باالواسطہ یا بلا واسطہ ذراتی فضائی آلودگی سے منسلک ہیں۔

فضائی آلودگی اور اس کے نتیجہ میں بڑھتی ہوی شرح اموات کا  موجب قدرتی گیس ، کوئلہ، پٹرولیم اور ان کی دیگر مصنوعات کا بطور ایندھن استعمال ہے۔ ٹرانسپورٹ (49٪) اور انرجی سیکٹر (43٪) میں پٹرولیم ، جبکہ سیمنٹ  (54٪) اور اینٹوں  کے بھٹے (43٪) میں  کو ئلہ کا استعمال ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا منبع اور ماخذ ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق ہُنڈا اٹلس  پاکستان  نے اوگرا پاکستان کو  شیل، ٹوٹل ،  پی ایس  او اور دیگر  آئل کمپنیوں کے متعلق  شکایت  کی ہے کہ یہ آئل کمپنیاں گھٹیا  درجے کے گیسولین کو مصنوعی طور پر بہتر بنانے کے لیے اس میں  تانبے  (لیڈ) اور   مینگانیز کی بھاری مقدار کی ملاوٹ  کررہی ہیں۔ تحقیاتی رپوٹس اور ہُنڈا کمپنی  کی شکایت کے مطابق یہ کمپنیاں ایک لٹر پٹرول میں 1 اعشاریہ 5 سے 2 گرام لیڈ، اور 54 ملی گرام مینگانیز کی ملاوٹ کررہی ہیں جس سے نہ صرف گاڑیوں کے انجن وقت سے پہلے خراب ہو رہے ہیں بلکہ انجن کے آگ پکڑنے کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

میں یہاں سابق وزیر اعظم پاکستان  کے مشہورِ زمانہ جملے میں ذرا سے رد و بدل کے بعد میں صرف اتنا ہی کہوں  گا “حضور یہ ہیں وہ  دھاتیں جن کی پٹرول میں ملاوٹ  بے گناہ انسانوں کو جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہیں۔”سوال یہ ہے کہ کیا  اوگرا کا کام پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں روز افزوں  اضافہ کرنا  ہی ہے؟ اور اگر اوگرا کا  مینڈیٹ پٹرول میں ملاوٹ کو کنٹرول کرنا  نہیں تو کون سا مسیحا اس ملک میں ان آئل کمپنیوں کو عوامی مفاد کے تابع کرے گا؟


مزید دیکھیے: وولٹیئر کو روسو کی کون سی بات پسند نا آئی


سیمنٹ کے کارخانے اور اینٹوں کے بھٹے معدنی کوئلہ بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں جس کے جلنے سے  فضاء میں کاربن، نائٹروجن اور سلفر کے اکسائیڈز اور  کاربن مونو آکسائیڈ  کی مقدار میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کوئلہ کے جلنے سے پیدا شدہ دھواں ایک طرف گلوبل وارمنگ اور  موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے تو دوسری جانب اوزون کی تہہ میں کمی اور تیزابی بارشوں کا موجب بن رہا ہے۔

سیمنٹ اور اینٹ  تعمیراتی انڈسٹری کا بنیادی جزو ہیں ۔ کیا پاکستاں کی کوئ انجنئیرنگ  یونیورسٹی اس بات پر تحقیق کررہی  ہے کہ وہ تعمیراتی صنعت سے اینٹوں اور سیمنٹ کے استعمال کو منہا  کرسکے؟ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو  کسی حد تک محدود کرسکے؟  امریکہ اور یورپی ممالک تو ایک جانب اب تو  انڈیا  اور گھانا جیسے ممالک میں بھی سڑکیں ری  سائیکلڈ  پلاسٹک سے بنائی جا رہی ہیں ۔  ری سائیکلڈ پلاسٹک کی تعمیراتی  صنعت  میں استعمال سے نہ صرف سیمنٹ اور اینٹوں کا استعمال کم ہو گا بلکہ فوسل  فیول پر  انحصار میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی اور بھٹہ مزدوروں میں بانڈڈ چائلڈ  لیبر جیسے  ایشوز بھی کم ہوجائیں گے۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملکی آبادی میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے مستقبل کی کوئی بھی حکومت بجلی کی ضروریات پوری نہیں  کر پائے گی اور اگر ہم  پیدا شدہ بجلی کی  غالب مقداراسی طرح  گھریلو استعمال میں صرف کرتے رہے تو کبھی بھی  صنعتی استعمال کے لیے وافر بجلی پیدا نہیں کر سکیں گے۔  ہمیں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ  بڑھتی ہوئی آبادی کی بدولت ہماری کوئی بھی ترقیاتی سکیم کبھی بھی  کامیاب نہیں  ہونےپائے گی۔ جس تیز رفتاری سے ملکی آبادی بڑھ رہی ہے، کوئی بھی حکومت خواہ وہ عوامی مسائل کو حل کرنے میں کتنی بھی سنجیدہ کیوں نہ ہو، کبھی بھی شرح آبادی میں اضافہ کی رفتار سے  بنیادی سہولیات فراھم  نہیں کر پائے گی اور یوں ہمارے  شہر آلودہ سے آلودہ تر ہوتے جائیں گے۔

ہم یوں تو ہر معاملے میں چین کو آئیڈیلائز کرتے ہیں اور چین کے گن گاتے نہیں تھکتے لیکن  نجانے کیوں ہم نے  چین کی آبادی کے کنٹرول کی پالیسی  کو اب تک سنجیدگی سے ملک میں نافذ کرنے کا  کیوں نہیں سوچا؟ ھمارے ملک میں بچوں کی پیدائش کے عمل کو سراسر تقدیر کا شاخسانہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ جس سے بھی بات کریں وہ اپنی  بحث کو سمیٹتے ہوئے یہی جملہ کہے گا “جی بس جس روح نے دنیا میں آنا ہو اسے کوں روک سکتا ہے؟” لیکن نجانے چین میں ایسی کیا بات ہے جو وہاں ایسی  روحوں کا داخلہ ممنوع قرار پا چکا ہے۔

میرے  مطابق محکمہ بہبود آبادی  کی اشتہاری مہم سے ملک  کو فائدہ کم اور نقصان زیاد ہوا ہے۔  “کم بچے خوشحال گھرانہ” اور “بچے دو ہی اچھے”  جیسی اشہاری مہمات  نے وقت گزرنے کے ساتھ ملک کی تعلیم یافتہ اپر اور مڈل  کلاس کو تو ضرور متاثر کیا لیکن  یہ مہمات غریب اور ان پڑھ طبقہ کو متاثر  کرنے میں بری طرح ناکام رہیں ہیں۔   محکمہ بہبود آبادی کی  ترغیباتی مہمات  کے نتیجے میں وہ  لوگ جو اپنے بچوں کی اچھی نشوونما،  تربیت اور ان کے لیے اعلی تعلیم اور صحت کی سہولیات کا بندوبست کرسکتے تھے، کم بچے پیدا کرنے پر مائل ہو گئے لیکن غریب اور پسماندہ لوگوں نے ان ترغیبات میں کوئی خاطرخواہ دلچسپی نہیں لی اور  بچوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہے۔  جس کا   نتیجہ یہ ہے کہ آج  ملکی آبادی میں تعلیم یافتہ  اور تہذیب یافتہ  افراد کا تناسب  غیر تعلیم یافتہ اور غیر تہذیب  یافتہ افراد سے کہیں کم  ہوچکا ہے اور  سڑکوں پرجدھر دیکھیں  جہالت کا دوردورہ ہے۔

آپ جس قدر چاہے شجر کاری کریں، جب تک ٹرانسپورٹ ،اور انرجی سیکٹر میں  لیڈ اور مینگانیز  سے ملاوٹ شدہ گیسولین استعمال ہوتا رہے گا  فضائی آلودگی پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ اسی طرح سیمنٹ  کے کارخانے اور اینٹوں کے بھٹے جب تک زہریلہ دھواں اگلتے رہیں گے  غریب لوگ  مختلف امراض کا شکار  بن کر ملک عدم روانہ ہوتے رہیں گے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے  تو لامحدود  آبادی والا یہ ملک محدود وسائل کے ساتھ کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے گا۔ ہاں البتہ غیر ملکی ملٹی نیشنل  آئل کمپنوں کے سالانہ   منافعوں اور ان کے ملکی ایجنٹس  اور گماشتوں کے بنک اکاؤنٹس میں  ضرور اضافہ ہوتا رہے گا۔  اور بے بس و لاچار لوگ بیماریوں  سے مرتے رہیں گے۔

About ڈاکٹر محمود حسن 2 Articles
محمو د حسن پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، اور پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ ان انوائرمینٹل مینیجمنٹ، کینیڈا سے حاصل شدہ ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر تدریس و تحقیق سے منسلک رہے ہیں۔ آپ اس وقت مسسی ساگا، کینیڈا میں مقیم ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.