ہم فلسفے میں پیچھے کیوں ہیں؟

Khizer Hayat aik Rozan
خضر حیات، صاحبِ مضمون

ہم فلسفے میں پیچھے کیوں ہیں؟

خضرحیات

فلسفے کی تاریخ پڑھتے یا مرتب کرتے ہوئے اس کمی کا احساس شدت کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہماری اس سر زمین (برّصغیر پاک و ہند) کا کردار فلسفے کی ترویج و ترقی میں شروع سے ہی محدود رہا ہے حالانکہ معلوم تاریخ کے مطابق دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں ہڑّپہ اور موہن جوداڑو کا مسکن یہی خطہ رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہاں فلسفے کا بالکل نام ہی نہیں لیا گیا۔ بھارت میں بھی ایک طرح کا فسلفہ تخلیق ہوا مگر ہندوستانی فلسفے کو تاریخ میں خالص فلسفے کے طور پر نہیں قبول کیا جاتا، اسے فلسفے سے زیادہ مذہبی اور وجدانی فکر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اگر تاریخ کو ایک خاص انداز سے چھانا پھٹکا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فلسفے کے لیے یہاں کی آب و ہوا کچھ بہت زیادہ سازگار نہیں رہی۔ اگرچہ یہ خطہ مذہبی اور فلسفیانہ بحثوں کی قدیم تاریخ کا امین ہے مگر حقیقی اور خالص فلسفہ (جس کا تعلق عقل سے ہے) یہاں کبھی بھی جڑ نہیں پکڑ سکا۔

علم کے مآخذ کے طور پہ یہاں ہمیشہ عقل سے زیادہ وجدان معتبر قرار پایا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں لگ بھگ 4000 سال قبل مسیح میں جب ہڑپہ اور موہن جو داڑو کی تہذیبیں بستی تھیں؛ تب بھی یہاں مذہب کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا۔ ہڑپہ کی کھدائی کے دوران بھی ایک ایسی دیوی کی مورتیاں ملی ہیں جسے پیداوار کی دیوی کے طور پر پوجا جاتا تھا۔ اور پھر کم و بیش 1900 قبل مسیح سے یہاں ویدک مذہب کی ابتداء ہوئی۔ برصغیر پاک و ہند کی فضاء کا مزاج شروع دن سے ہی مذہبی تھا جبکہ یورپ نے حقیقت کو عقلی پیمانے پر پرکھنے کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا۔ یہی وجہ ہے کہ خالص فلسفے میں جتنا بھی قابل ذکر اور قابل قدر کام ہوا ہے وہ مغرب میں ہی ہوا ہے۔

ایک ایسا وقت جب برصغیر پاک و ہند میں ہندومت، بُدھ مت، جین مت کے پیروکار اپنے اپنے عقیدوں کو درست قرار دینے کی غرض سے دنیا جہان کے دلائل دینے میں جُٹے ہوئے تھے، کم و بیش اسی عہد میں فلسفے نے آنکھ کھولنے کے لیے یُونان کی سرزمین کا انتخاب کیا۔

سدھارتھ گوتم بُدھ جس زمانے میں حق کی تلاش میں جنگلوں میں پھر رہے تھے یونان کے علاقے میلیتس کی سر زمین پر پیدا ہونے والے تھیلیز نامی ایک غیر معمولی شخص کی نیند اس سوچ میں غارت تھی کہ یہ کائنات کہاں سے وجود میں آئی ہے۔

اگرچہ تھیلیز کے زمانے کا یونان بھی فرضی دیو مالائی داستانوں میں جکڑا ہوا تھا اور مظاہر فطرت کی تشریح کے لیے عقل سے زیادہ روایات اور داستانوں سے مدد لی جاتی تھی، مگر فرق یہ ہے کہ تھیلیز نے خاموشی کو توڑتے ہوئے تالاب میں پہلا پتھر پھینکنے کی جرات کی اور سوچ کو ایک نیا راستہ دکھلایا۔ یہی وہ فرق تھا جو مغرب اور ہمارے درمیان آج تک برقرار ہے۔

فلسفے کو پنپنے کے لیے بہترین حالات مغرب نے دیے جبکہ ہمارا خطہ مذہبی بحثوں، اپنی ذات کی کھوج اور مذاہب کی روشنی میں حق کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگا۔ یونانی فلسفی تھیلیز سے کوئی 2000 سال بعد ایک بار پھر فلسفے کا شاہین مغرب کی ہی منڈیر پر جا بیٹھا اور فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ سے شروع ہونے والے اس دوسرے دور میں مغرب نے فلسفے کو اوج کمال تک پہنچا دیا۔

تارہخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ درست لگتا ہے کہ ہمارے خطے کی فضا فلسفے سے زیادہ مذہب کے لیے سُودمند ثابت ہوئی ہے۔ برصغیر کا باشندہ شروع سے ہی عقل پر وجدان کو فوقیت دیتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغرب نے فلسفے میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے جبکہ دنیا کے کئی بڑے بڑے مذاہب کا آغاز برصغیر کی سرزمین سے ہوا۔ اور یہ تمام مذاہب جو برصغیر کی سرزمین سے شروع ہوئے وہ الوہی یا خدا کی طرف سے نازل کردہ نہیں تھے، بلکہ انسان کے اپنے بنائے ہوئے تھے۔ یا یوں کہیں کہ مقامی انسانی سوچ نے ہی ان مذاہب کی بنیاد رکھی۔ جس میدان میں ہم مہارت رکھتے تھے اسے ہم نے کمال تک پہنچایا اور جس میں یورپ کو دسترس تھی وہاں انہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

اگرچہ آج تک جتنے پیغمبر خدا کی طرف سے انسانوں کو راہِ ہدایت دکھانے کے لیے مبعُوث کئے گئے ہیں ان کی اکثریت مشرقِ وسطیٰ کے لوگوں کے لیے بھیجی گئی اور برصغیر جہاں معلوم تاریخ کے مطابق ایک بھی نبی مبعوث نہیں ہوئے، یہاں کے جغرافیائی، سماجی اور معاشرتی حالات ہی سب سے بڑی وجہ بنے کہ ایک سے زیادہ مذاہب کی کونپلیں اسی سرزمین سے پھوٹیں۔ ہندو مت اپنی ابتدائی صورت میں آج سے کم و بیش 3900 سال قبل اسی خطے میں موجود شمالی بھارت کے علاقے میں ظہور پذیر ہوا اور اسی وجہ سے یہ دنیا کا قدیم ترین مذہب بھی گردانا جاتا ہے۔

یہ ہمارے خطے کی امتیازی خصوصیت ہے کہ دنیا کا قدیم ترین مذہب یہیں سے شروع ہوا تھا۔ (میرے خیال کے مطابق دنیا کے قدیم ترین مذہب کا آغاز ہونا بھی یہیں سے چاہیے تھا کیونکہ آزاد مذہبی سوچ کی ترویج کے لیے یہاں سے زیادہ سازگار فضا اور کہیں موجود نہیں رہی)۔

ہندومت کے بعد جو دوسرا مذہب یہاں سے شروع ہوا وہ جین مت ہے اور یہ مذہب بھی انسان کا اپنا پیدا کردہ تھا۔ کوئی 600 قبل مسیح میں وردھمانا مہاویر نام کے ایک شہزادے کو ویدک (ہندو) مذہب کی بعض تعلیمات سے اختلاف پیدا ہوا اور اپنا تخت و تاج چھوڑ کر بارہ سال جنگلوں میں پھرنے کے بعد اسے جب نروان حاصل ہوا تو اسے مہاویر یا فاتح یا جین قرار دیا گیا اور یہیں سے جین مت کا آغاز ہوا۔ جین مت ایک زندہ مذہب کے طور پر آج بھی موجود ہے۔

اس کے بعد جو مذہب اس سر زمین سے شروع ہوا وہ بدھ مت کہلایا۔ آج سے لگ بھگ 2500 سال قبل (500 قبل مسیح میں) شہزادہ سدھارتھ حق کی تلاش میں جنگلوں کو نکل گیا۔ اگرچہ وہ خود کسی نئے مذہب کو شروع کرنے کے حق میں نہیں تھا مگر ان کے وصال کے بعد معتقدین نے بدھ مت کے نام سے ایک مذہب کا آغاز کیا اور گوتم بدھ کی تعلیمات کا پرچار شروع کر دیا۔

تیسری صدی قبل مسیح کے دوران راج کمار اشوک جو کہ ہندوستان کے راجہ تھے اور جین مت کے پیرو شہنشاہ چندر گُپت موریا کے پوتے تھے، نے بُدھ مت کی ترویج میں مثالی کردار ادا کیا۔ اشوکا نے بُدھ مت کو بھارت کا سرکاری مذہب بنا دیا اور بعد میں ان کی اولاد نے بھی اسی مذہب کی اشاعت میں زندگی بسر کی۔ یہ وہی دور تھا جب یونان میں سقراط، ارسطو اور افلاطون عقل اور منطق کی روشنی میں فلسفے کی بنیاد پر پوری عمارت کھڑی کر چکے تھے۔ اُس زمانے میں یونان کی سرزمین پر فلسفے میں کیا گیا کام آج تک دنیا بھر کے فلسفیوں اور دانشوروں کے لیے مشعلِ راہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔

چوتھا بڑا مذہب جس کی آبیاری اس سرزمین نے کی وہ سکھ ازم ہے اور یہ بھی انسان کا اپنا بنایا ہوا مذہب ہے۔ سولہویں صدی عیسوی کے آغاز میں (1500ء میں) بابا گُرونانک نے جس مذہب کی بنیاد پاکستان اور بھارت کے علاقے پنجاب میں رکھی وہ سکھ مذہب کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہم ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر رہے کہ تمام مذاہب ہی برصغیر سے شروع ہوئے۔ ہمیں ادراک ہے کہ دنیا کے دیگر خطے بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔ مثال کے طور پر 550 قبل مسیح میں کنفوشیئس نے چین میں جس مذہب کی بنیاد رکھی وہ کنفیوشییئس ازم کہلایا۔

مشرق وسطیٰ میں واقع فلسطین اور اسرائیل کے علاقے میں یہودیت کی ابتداء تقریباً 3000 سال قبل ہوئی۔ بعد میں اسی سر زمین پر آج سے 2000 سال قبل حضرت عیسیٰ کے ظہور سے عیسائیت کا آغاز ہوا۔ اور پھر آج سے 1400 سال قبل عرب سرزمین پر حضرت محمد ﷺ کے ذریعے سے اسلام کا آغاز ہوا۔

مگر دیگر علاقوں اور برصغیر سے شروع ہونے والے مذاہب میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اکثر مذاہب جو دوسرے علاقوں سے شروع ہوئے وہ الوہی تھی۔ خدا نے عوام الناس کی اصلاح کے لیے نبی اور پیغمبر بھیجے جن میں سے کئی نبیوں پر آسمانی کتابیں بھی نازل کیں۔

مگر برصغیر سے جو مذاہب شروع ہوئے ان کی بنیاد انسانی غور و فکر نے رکھی اور اس غور و فکر کی ترویج اسی دھرتی پہ پیدا ہونے والے کسی نہ کسی انسانی ذہن میں ہوئی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی ایک ہی سر زمین سے اتنی بڑی تعداد میں مذاہب کا آغاز صرف برصغیر سے ہی ہوا اور یہ تمام مذاہب الوہی بھی نہیں ہیں۔

اس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ جس سر زمین پر آج ہم بستے ہیں اس کا مزاج شروع سے ہی صوفیانہ رہا ہے۔ معاشرتی نظام کو بھی ہر دور میں کسی نہ کسی طرح مذہب کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے بلکہ قدیم ترین مذہب ہندومت کو تو مذہب سے زیادہ ایک معاشرتی تحریک کا ہی نام دیا جاتا ہے۔ تلاش حق کے لیے اپنی ہی ذات کی کھوج کو پہلا اصول قرار دیا جاتا رہا ہے۔ جین مت، بدھ مت اور سکھ ازم اسی اصول پر قائم ہے۔

بعد میں آنے والے مسلمان دانشور بھی عقل کے بہت بڑے مداح نہیں بن سکے۔ شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان اور علامہ اقبال جیسی شخصیات بھی خالص فلسفے کی پیداوار میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔

ان کے نزدیک بھی عقل سے زیادہ وجدان ہی معتبر ذریعۂ علم ٹھہرا۔ سرسید احمد خان کی کوشش رہی کہ فلسفے اور مذہب کو اکٹھا کر کے کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکے، جبکہ علامہ اقبال کی سوچ اس ضمن میں خاصی منقسم رہی۔ شاید ہم لوگ خالص فلسفے جس کی بنیاد عقل پر رکھی جاتی ہے، کے لیے ذہنی طور پر کبھی تیار ہی نہیں تھے۔ ہڑپہّ اور موہن جو ڈارو کے باشندے سے لے کر آج تک ہمارا مزاج اور رویہ تو کم از کم یہی بتاتا ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہم فلسفے میں باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

(قابل اجمیری)