مدر رُوتھ فاؤ

مدر رُوتھ فاؤ
مدر رُوتھ فاؤ

مدر رُوتھ فاؤ

تنویر احمد تہامی

تیسری دنیا کے ممالک میں جب کوئی وبا پھوٹتی ہے تو صحت کی ناکافی سہولیات کی بنا پر کچھ ہی عرصے میں سینکڑوں لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے زمانۂ طفل میں یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

50 کی دہائی میں جذام (کوڑھ) ایک موذی مرض کے طور پہ سامنے آیا اور کئی زندگیوں کو نگل گیا. اس مرض کے شکار لوگوں نے موت سے پہلے موت کے نظارے دیکھے۔ ایک تو مرض اتنا اذیت ناک کہ جسم میں پیپ پڑ جاتی اور گوشت اتر اتر کر گرتا ہے؛ اس پر ستم یہ کہ ایسے مریضوں کو، جنہیں عرفِ عام میں کوڑھی کہا جاتا تھا، ان کے اپنے بھی اپنانے سے انکار کر دیتے اور شہر سے باہر ویرانوں میں مرنے  کے لیے چھوڑ آتے۔

تصور یہ تھا کہ یہ مرض خدا کا عذاب ہے اور انہی پر نازل ہوتا ہے جو خدا کے ناپسندیدہ ترین لوگ ہوتے ہیں۔ خدائی قہر سے بھلا کون لڑتا۔ لہٰذا یہ مرض لاعلاج رہا۔ کچھ خدا ترس لوگوں کے دلوں میں خدمتِ خلق کا جذبہ بیدار ہوا تو انہوں نے شہر سے باہر کوڑھیوں  کے لیے کوڑھی احاطے تعمیر کرا دیے کہ وقتِ نزاع چھت کے نیچے گزرے۔

1958 ء میں کسی دل جلے نے پاکستان میں موجود کوڑھیوں پر ایک ڈاکیومینٹری فلم بنا ڈالی. اس فلم کو جب یورپ میں رسائی ملی تو جرمنی کی ایک تیس سالہ ڈاکٹر کی نظر سے بھی گزری۔ انسانیت کا درد ہو تو سرحدیں معدوم ہوجاتی ہیں مذہب مانع نہیں ہوتا۔ وہ کوڑھی جو پاکستان کے ویرانوں میں خاک اڑاتے پھرتے تھے اور موت کے انتظار میں پل پل وحشت کی آغوش میں گذار رہے تھے انہیں اس نوجوان جرمن ڈاکٹر نے ہمدرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ مسیحا کی نگاہ سے دیکھا۔

زندگی سے بھرپور اس نوجوان خاتون نے 1960ء میں کراچی کا رخ کیا تو پھر یہیں کی ہو کر رہ گئی۔ وہ کوڑھی جنہیں ان کے اپنے بھی دھتکار چکے تھے یہی خاتون ڈاکٹر ان  کے لیے نئی زندگی کا پیغام بنی۔ کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔

بارش کا پہلا قطرہ برس پڑے تو باقی بارش بھی جھوم کے نکلتی ہے۔ اس دوران آئی کے گِل نے بھی ان کے قافلے میں شمولیت کر لی۔ 1963ء میں لپریسی سنٹر قائم کیا اور ساتھ ہی پاکستانی ڈاکٹروں، سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا۔ یوں لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا، 1965ء تک یہ سنٹر اسپتال کی شکل اختیار کر گیا۔

یہ خاتون ڈاکٹر رتھ فاؤ تھیں جنہیں 1988ء میں حکومتِ پاکستان نے پاکستانی شہریت دے دی۔ انہوں نے پاکستان میں 156 لپریسی سنٹر قائم کیے اور ساٹھ ہزار سے زائد مریضوں کو حیاتِ نو عطا کرنے کا ذریعہ بنیں۔ انہی کی کوششوں سے 1996ء میں پاکستان کو لپریسی کنٹرولڈ ملک قرار دے دیا گیا۔

میں آج صبح کیفے ٹیریا میں بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا جب ٹی وی پر ڈاکٹر فاؤ کے انتقال کی خبر سنی۔ سوشل میڈیا پر دیکھا تو کچھ جنونی اس بحث میں الجھے تھے کہ ڈاکٹر فاؤ جنت میں جائیں گی یا نہیں۔

جب ایدھی صاحب ہم سے بچھڑے تھے ایسے ابہامات ان کے متعلق بھی سامنے آئے تھے۔ پھر خیال آیا کہ ایدھی صاحب ہوں یا ڈاکٹر فاؤ، یہ تو بے لوث لوگ تھے انہیں ملا کی جنت سے کیا مطلب۔ یقیناً یہ لوگ اس جنت میں نہیں جائیں گے جہاں ملاؤں کو رکھا جائے گا۔

مین سٹریم میڈیا والے اور سوشل میڈیا والے ڈاکٹر فاؤ کو پاکستانی مدر ٹریسا کہہ رہے ہیں۔ اور میں سوچ رہا ہوں مدر ٹریسا کا مقام اپنی جگہ، رتھ فاؤ کا ایک الگ مقام ہے۔ پاکستانی مدر ٹریسا نہیں ڈاکٹر رتھ فاؤ تو پاکستانی مدر فاؤ ہیں۔