قسم چُک تے دَس، توں کون ایں

سلمان حیدر
سلمان حیدر

قسم چُک تے دَس، توں کون ایں

از، سلمان حیدر 

جانے ماضی مستقبل تھا، یا مستقبل حال تھا، یا حال مستقبل تھا۔ بَہ ہر حال کچھ تھا سہی جبھی تو کوئی نظر فکر والے کہتے ہیں کہ کسی اگلے وقت میں پنجاب میں اسلامی حکومت آ گئی تھی۔ گلی گلی ناکہ لگا کر لوگوں سے ان کے عقیدے کے بارے پوچھ گچھ ہو رہی تھی۔ ایک آدمی کو ناکے پر روک کر پوچھا گیا کہ قادیانیوں کے بارے تمہارا کیا عقیدہ ہے؟

اس نے لرزتے ہونٹوں سے آنکھیں بند کر کے، رفتار بَہ راکٹ کہا:

قادیانی کافر ہوتے ہیں کیوں کہ وہ ختمِ نبوت کو نہیں مانتے، ان کی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہنا چاہیے، اور اگر کوئی قادیانی تبلیغ کرے، یا قرآنِ پاک پڑھتا نظر آئے تو فوری طور پر پولیس کو اطلاع دینی چاہیے۔

سوال کرنے والے نے اتنا تفصیلی جواب اور سُرعت رفتاری کے اِس عالم سے سن کر کہا، ذرا سَیڈ تے ہو نا باؤ، مجھے شک اے تم قادیانی او، اور تم نے اپنِیں جان بچان لَئی یہ جواب رَٹّا لگایا ہوا ہے۔

یہ سنا تو بندہ گبھرا گیا۔ اب بندہ کیا سَر مَنڈوانے سے پہلے موسمیات والوں سے پوچھتا کہ اولے پڑنے کا کیا امکان ہے؟ کہنے لگا، مولوی صاحب لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ، قرآن پاک دی قَسمے محلے وِچ کِسے نوں پچھ لَئو میں کرِسٹان آں۔

اس کے بعد کیا ہوا، راوی خاموش بھی ہے، اور خشک بھی…! بَہ ہر حال، عقیدوں کی چھان پھٹک نہ تو نئی ہے، نا ہمارے خطے تک محدود، کچھ سو سال پہلے یورپ میں پادری بھی ایسی ہی حرکتیں کیا کرتے تھے۔ ہر عقل کی بات کرنے والا مذہب کا گستاخ اور مُوجبِ سزا قرار پاتا تھا۔

عورتوں پر عام طور پر چڑیل ہونے، یا چڑیل کے زیرِ اثر ہونے کی تہمت لگتی تھی کہ پادری عورتوں کے مقابلے چڑیلوں سے عقل کی بات کی توقع زیادہ رکھتے تھے۔

عورت چڑیل ہے، یا نہیں اسے جاننے کا طریقہ یہ تھا کہ اسے پتھر سے باندھ کر دریا میں ڈبو دیا جائے۔ اگر وہ ڈوب جائے تو اس کا مطلب وہ چڑیل نہیں تھی، اور اگر وہ بچ جائے تو اس کا چڑیل ہونا ثابت ہو گیا۔

اب اس ثبوت کے بعد اسے آگ میں زندہ جلا دیا جاتا تھا کہ دنیا کی جان اس چڑیل سے چھوٹے۔

اس طریقۂِ امتحان میں مسئلہ صرف یہ تھا کہ خُود کش حملے کی طرح ایمان کی پختگی صرف جان دے ثابت کی جا سکتی تھی۔ جان بچنے کا تو امکان نہ ہونے کے برابر تھا یوں جنہیں عزت پیاری ہوتی تھی وہ پتھر سے بندھے بندھے ڈوب مرنے کو ترجیح دیتی تھیں کہ بعد میں خلقِ خدا اسی پادری کی سربراہی میں بڑا روتی پیٹتی تھی کہ ہائے ہم نے ایک معصوم بے گناہ عورت پر چڑیل ہونے کا شک کیا۔

جب وقت اپنے ہونے اور اپنے ساتھ ہونی کے متعلق کنفیوژ تھا اور پوچھتا پھرتا تھا بُلّھیا مِینوں کوئی دَسّے میں کون، یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ اساتذہ قتل ہو چکے تھے، کسی شہر کی اسسٹنٹ کمشنر تجدیدِ ایمان کر چکی تھیں، سپہِ سالار میلاد کی تصویریں چھپوا چکے تھے، اور جیّد بریلوی مُلّاں سے اپنے بیٹے کا نکاح پڑھوا چکے گورنر قتل ہو چکے تھے۔ تھے اور ہے کے امدادی افعال ایک دوسرے سے دُبک کر کونوں لگے بیٹھے تھے، کیا پتا کون زیادہ بڑا مسلمان، یا پھر، ثنویتی نظام، مطلب binary کو دوسرا جگر پارہ، کون بڑا کافر تھا…

کیا کہیں، اور کہاں مُنھ میں گھنگھنیاں ڈال کر چاقِ لب سِیے رہیں؟ ہم کسی سانحے کی طرف نہیں بڑھ رہے، سانحہ ہماری طرف بڑھ چکا ہے؛ یا شاید، آنکھیں کھولیے اور دیکھیے، ہم جہاں ہیں یہی سانحہ ہے۔ بَل کہ ایک نہیں، شاید ایک سے زیادہ سانحے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اسے سانحہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں؛ دوسرا یہ کہ ہم خود کو اس کا حصہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔

ہمیں لگتا ہے کہ جہاں ہم ہیں وہاں سانحہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم تو نیک شریف خدا ترس لوگ ہیں، ایسے لوگ سانحوں کا شکار نہیں ہوتے۔ ہم نیک شریف خدا ترس ہیں تو بد قماش جھوٹے بے حس اور کالے دَھن والے کون ہیں جن کی وجہ سے سانحہ ہونا ہے، وہ سانحہ جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔

About سلمان حیدر 10 Articles
سلمان حیدرفاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں؛ با معنی اور جرات اظہار سے تابندہ شاعری کرتے ہیں؛ سماجی اورتنقیدی شعور سے بہرہ ور روشن خیال اور ترقی پسند آدرشوں کے حامل انسان ہیں۔ اس سے پہلے ڈان اردو کے لئے بلاگز لکھتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تنقید ڈاٹ آرگ کے اردو سیکشن کے مدیر ہیں- "تھیئٹر والے' کے نام سے ایک سنجیدہ تھیئٹر گروپ کا اہم حصہ ہیں۔ اعلی درجے کی سماجی و سیاسی طنز ان کی تخصیص ہے۔