بھیّا، بھائی جان، چچا جی، احتجاج کی اپنی گرامر ہوتی ہے

Yasser Chattha

بھیّا، بھائی جان، چچا جی، احتجاج کی اپنی گرامر ہوتی ہے

از، یاسر چٹھہ

احتیاط لازم ہے کہ سیانوں نے کہا تھا پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ کس بات پر احتیاط؟ اس بات پر احتیاط کہ کم زور دل حضرات، عورت مارچ کی خبریں نا سنیں، نا دیکھیں؛ ورنہ ازل سے کچھ صدیاں بعد کا مردانہ خوف اور دیواروں پر جَلی حرُوف سے مَلی کالک میں مردانہ کم زوری کے زیادہ شدت سے برقرار رہنے کا خدشہ ہے۔

تاریخ گواہ ہے: گو کہ لکھنے والے مرد، لکھانے والے بھی مرد، اور جتلانے والے بھی تو مرد تھے۔ تو وہی تاریج پھر بھی گواہ ہے کہ مردوں کی جانب سے نقل کیا گیا، مردوں کی جانب سے تالیف کیا گیا، مردوں کے ہاتھوں کا پیدا واری علمی علاج مرد فُقَہائے کرام، مرد پروہیت، مرد راہب، مردانہ نفیساتی کم زوری کا، اور جسمانی علاج طبی حکیم بھی نا کر سکے۔

اور عورت سے ہم گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی فردیت اور شہریت کا اعلان نہیں کرے، ترس کھاؤ: ایہہ پُتر نے کم زور کُڑے۔

وہ یہی تو بس کہتے ہیں کہ عورت کو اپنے انسان ہونے کا بَہ بانگِ دُہل اعلان نہیں کرنا چاہیے۔

اسے صرف جنگوں میں ریپ victim

سیلابوں میں بیرونی امداد کے لیے پیش کیا جانے والا ہندسہ اور اجڑے چہرے اور بکھرے بالوں کی غربت کی تصویر بنے رہنا چاہیے۔

اور جنگ بندی کے دوران جنت اپنے پاؤں کا چھالہ بنا کر کسی گھر مندر میں داسی بنے رہنا چاہیے۔

اسے حوّا کی طرح اساسی احساسِ گناہ کا سیاہ تمغہ، آدم کو جنت سے نکالے جانے کی راہبانہ ایف آئی آر میں ڈالا قصور قبول کیے رہنا چاہیے۔

وجہ کیا ہے؟

صرف یہ کہ جب وہ اپنے گردے کے اندر جمع فاسد پانی خارج کرتی ہے تو اس کی دھار زیادہ دور نہیں جاتی!

وہ بچہ پیدا کرتی ہے۔ اور ان بچوں میں سے وہ بھی نکلتے ہیں جو لفظ سیکھنے کے بعد، اپنی پیدائش کے حیاتیاتی اسباب پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔

اسے ماہ واری آتی ہے۔ (اوہ، تُھو، تُھو) اور یہ تُھو تُھو ہر چند کہ اپنے چہرے پر ہی گر جاتی ہے۔

یہ کوئی کم اسباب ہیں جو اور وجہوں کے لیے دانتوں میں زبان دبائے انتظار کرتے ہو۔

خطی سوچ linear thinking، اکہرا شعور، انتہائی گہرے کُنویں میں کوٹھیاں، غیرت وغیرہ، ہمارا احتجاج سمجھنے کا شعور بھی چھین لیتے ہیں۔ وسطانی کلاس اور اس کی فہم و فراست عجب مزاج رکھتی ہے۔ بھئی، جس آرٹ میں subversion کا عُنصر نا ہو، اس فن اور اس کے نام نہاد فن کار کو صرف کاتب کی نوکری ہی جچتی ہے۔ باقی وہ دھرتی پر بوجھ ہی ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں کہ جس احتجاج میں، جس کے نعروں میں، جس کے منشور میں مکھن مارکہ “شرافوں” کی حِسّیت sensibility پر ضربِ کاری نا پڑ رہی ہو، اس احتجاج سے بہتر ہے کہ وہ سماجی وسطانیے اور اعتدالیے ساری عمر اور سارا مطالعہ صرف جملے کی ساخت، پر داخت اور  شعر کو موزوں کرتے ہی گزاریں؛ وزن درست کریں، بحر عمدہ چُنیں اور زمانے اور وقت کی خاک میں خاک ہو جائیں۔

باقی اس وسیع آفاق و کائنات بَل کہ آفاقوں اور کائناتوں میں رہیں گے وہ

…unbearable lightness of being that’s what they are!

اے دوست، اے محبت کے پروردگار، احتجاج کی اپنی گرامر ہوتی ہے۔ جان لیجیے، سن لیجیے، فکر کیجیے، امید ہے کچھ وقت گزرے گا تو آپ کی آواز بھی شامل ہو جائے گی۔

اس کے نعرے، اس کے پوسٹر، اس کے سرِ دیوار فسانے، اس کی جانب سے بلند ہوئی آواز پسِ دیوار برپا طربیے پر، قہقہے نہیں ہوتے۔ یہ خوف سے ڈرتے رہنے کے خلاف امید افزاء ساز ہوتا ہے۔

یہ مکالماتی ہوتا ہے؛ یہ سوال نہیں ہوتا، یہ جواب کا لمحہ ہوتا ہے۔

اس کا لحن اونچا ہوتا ہے،

یا بنے بنائے رنگ کو فطرتی ماننے کے متوازی زور دار چیخ ہوتی ہے۔

اس چیخ سے،

اس کی پرانے توازن سے بے زاری،

بے دخل کا،

داخلے کے حق کا نعرہ ہوتا ہے۔

اس کی اپنی سُر ہوتی ہے،

اپنی تال ہوتی ہے۔

یہ پہلے سے جاری قوالی میں

تالی پہ دے تالی نہیں ہوتی۔

عورت مارچ یہ، وہ، اگر، مگر، وغیرہ برادری کہتے نازک مزاج لوگ فرماتے ہیں:

یہ کوئی طریقہ ہے؟

کیسا بھدا احتجاج ہے؟

کوئی عقل مت بھی ہوتی ہے؟

ان کا زندگی کے عام مسائل سے کیا تعلق؟

ہئیں، ہوں، ہننن، ہممم، اینچوں، بینچوں، ٹینچوں بھینچوں، گرڑڑڑ، گرڑڑڑ، ٹائیں ٹائیں ڈائینو سار کا تکہ بوٹی، قلفی کھوئے ملائی دی، پگھل پگھل جاوے… وغیرہ، وغیرہ

ساری عمر با حیا مرد، اپنی بہنوں، بیویوں، بیٹیوں، اور ماؤں کو دوسرے با حیا مردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے حنوط کیے رکھتے ہیں۔

چلو ایس واری تے معافی، اگلی وار لئی عورت مارچ لئی فہمیدہ، سنجیدہ، برگزیدہ، معتدل او پازیٹو گروہ کے افراد کے معتدل مزاج خروش کی اشد ضرورت ہے۔

زندگی مانگنے والوں کو جنازہ نا پڑھانے کی بھبھکی، موت پر کار و باریوں کا خودکش حملہ۔ بھبھکی والے پہلے اپنے بھلے روز گار کی فکر کرو۔

سماجی و سیاسی موضوعات پر طرف داری کا آسان نسخہ:غیر جانب داری، اعتدال اور توازن سب سے مَہان فلسفیانہ جھوٹ؛ empathy سب سے بڑی صداقت۔

… 

اتنی جلدی کسی موہومہ مستقبل سے ڈر جانے کی نفسیات آخر کیوں ہے؟ کیا ہم سب کو لگتا ہے کہ ہم وہ یہودی ہیں جنہیں اپنے اپنے فلسطینیوں کی چمڑی اور باغ چاہییں؟

اتنی جلدی مت ڈریے، انصاف کی آواز بلند کرنے میں آواز شامل کیجیے، زیادہ عمدہ توازن آئے گا۔

توازن کو صرف سٹیٹس-کو کی بر قراری کی عینک سے دیکھنے کی دماغ آسانی سے بچنے کا مشورہ ہے۔

چھوڑیے بھئی مشرق، مغرب… کیا مشرق، کیا مغرب۔ فی نفسہٖ کچھ بھی مغرب اور کچھ بھی مشرق نہیں ہوتا۔ جہاں پہنچ جائیں وہاں سے ایک نیا اور مختلف مشرق و مغرب بنتا ہے۔

اب بات یہ ہے کہ ہم بہ طور اپنی تقدیر کے مختار بننا پسند کریں گے، یا پھر جلتے جلتے دوسرے خود مرکزوں کے لیے روشنی۔ ہر روشنی میں سب کا برابر حصہ ہونا ہی سب سے بڑا سچ ہے۔ اور سچ سے خواہ مخواہ میں دست بردار ہونا مختاری سے انحراف ہے۔ یہ پروردگار کے پروگرام سے انحراف ہے۔

تو خلاصہ ہے کہ تم پوسٹروں کے پوسٹر، پوسٹر نا خدا تمہارا۔

عورت مارچ میں چند ایک پوسٹرز کی بنیاد پر عورت مارچ کو تنقید اور استہزاء کا نشانہ بنانے والے دوستوں پر حیرت ہے۔ (لیکن یہ حیرت، بہ فضلِ خدائے انصاف تا دیر نہیں رہنے والی، طائف کے متوالوں ورژن 2.2K19X کی سمجھ ذرا سست ہوتی ہے۔)

اور یہ پوسٹرز بھی تو چنیدہ ہیں، جن سے ان کو اختلاف ہے جنہیں اس مارچ میں زبر دستی اور ضرور آنے کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ پھر بھی وکالت میں مصروف ہیں کہ وہ خود کو مظلوم کہنے والوں کو بتا رہے ہیں کہ تم کتنے ڈگری کے مظلوم ہو۔

بعضے تو مارچ میں شامل انسانوں کے اسماء النساء کے نئے علم کی بنیادیں بھی رکھنے کی محنت کر رہے ہیں۔ ان کے کپڑے، ان کے روز گار کے مقامات، ان کی گاڑیوں کا شجرۂِ نسب ڈھونڈنے میں معاشرے کے وسیع ترین مفاد میں اپنا قیمتی وقت ارزاں کر رہے ہیں۔

بھئی، اور جان، بَل کہ انتہائی پیارو، پنجابی ہو تو وہ محاورہ یاد ہے کہ تھاپیاں/پاتھیاں ماریاں ویر نئیں مُکدے۔ وَیر یعنی دشمنی صرف emapthy ختم کر سکتی ہے۔ وَیر کی چیخ کی سُروں اور صوتیات کے پیمانے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔

About یاسرچٹھہ 240 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔