خواتین کا عالمی دن اور مسائل کی حقیقت 

محمد حسین چوہان

خواتین کا عالمی دن اور مسائل کی حقیقت

 از، پروفیسر محمد حسین چوہان

 آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن دنیا بھر میں اتفاق رائے اور پاکستان میں مناظرہ بازی کی پُر انتشار فضاؤں میں منایا جاتا ہے، جس میں خواتین کے مسائل اور حقوق پر بات کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ ایک صدی سے چلتا آ رہا ہے، مگر عورت آج تک کما حقہ اپنے تمام حقوق اور مراعات حاصل نہیں کر سکی جس کی وہ حق دار تھی۔

یہ فرق ترقی یافتہ ممالک میں بھی کسی حد تک آج بھی موجود ہے، یعنی تعلیم ترقی و کار و بار اور ملازمتوں میں اس کا تناسب اب بھی مردوں سے کم ہے۔ لیکن اس کو بہ طور صنف کافی حد تک کام یابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔

انیسویں صدی میں جب مغربی دنیا میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا، شہروں کی آبادی بڑھنے لگی، روز گار کے مواقِع پیدا ہوئے، سرمایہ داروں کی آمدن میں اضافہ ہوا، قدرِ زائد نے نہ صرف خواتین بَل کہ مردوں کا بھی استحصال شروع کر دیا، تو اس وقت آزادیِ حقوق نسواں کی تحریکوں نے جنم لینا شروع کیا۔ جس میں ان کے بنیادی سیاسی و معاشی حقوق سرِ فہرست تھے۔

سنہ 1908 کو امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی کی سر براہی میں پندرہ ہزار خواتین نے احتجاجی ریلی نکالی جس میں اپنے بنیادی حقوق، حق رائے دہی اور مردوں کے برابر تنخواہوں کا مطالبہ کیا گیا۔

اسی دورانیہ میں امریکہ میں ایک سو چالیس کام کرنے والی خواتین فیکٹری میں ناقص انتظامات ہونے کی وجہ سے جل کر خاکستر ہو گئی تھیں۔ عورتوں کی یہ تحریکیں صرف امریکہ تک محدود نہیں رہیں بَل کہ ان کا دائرۂِ کار دنیا بھر تک پھیل گیا۔ لندن میں احتجاج کی تیاریوں کے سلسلہ میں اس تحریک کی روح و رواں رہ نما سلون کو چیئرنگ کراس پر گرفتار کر لیا گیا تا کِہ قریب ٹریفالگر سکوائر میں یہ جلسہ نہ کر سکیں۔

اس سے عورتوں کی معاشرے میں کم تر حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو اپنی آواز بلند کرنے کا حق برطانیہ میں بھی نہیں تھا باقی دنیا کے ممالک میں بھی حالت ایسے ہی تھی۔ برطانیہ میں جب پہلی بار سنہ 1919 کو خاتون ممبر پارلیمنٹ کا انتخاب ہوا تو ان کا تعلق بھی ورکنگ کلاس سے نہیں تھا بَل کہ وہ ایک جاگیر دار خاتون تھیں، مگر خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے چلنے والی تحریکوں میں روس کے سوشلسٹ انقلاب نے اہم کردار ادا کیا۔

سوشلسٹ انقلاب میں عورت اور مرد کو ایک کھاتے میں ڈالا گیا، سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ورکنگ کلاس کو استحصال زدہ قرار دیا گیا جسم یں عورت مظلوم بہ طور ایک صنف نہیں تھی بَل کہ بہ طور ایک طبقہ تھی۔

سوشلسٹ انقلاب نے خواتین کے بنیادی حقوق بہ طور ایک طبقہ شروع سے ہی حاصل کر لیے تھے اب وہاں خواتین بہتر زندگی گزارنے کے لیے بہ طور ایک طبقہ مردوں کے ساتھ جد و جہد کر رہی تھیں۔ اس عرصہ میں عورتوں نے سوشلسٹ تحریکوں کے زیرِ اثر دنیا بھر میں اپنے حقوق کے لیے جد و جہد کی اور ان کو ان میں نمایاں کام یابیاں بھی حاصل ہوئیں۔

سرمایہ دار مغربی ممالک میں خواتین کے احتجاج کرنے کا انداز قدرے مختلف تھا۔ یہ بہ طور طبقہ احتجاج نہیں کرتی تھیں بَل کہ بہ طور ایک صنف کے حق رائے دہی برابر تنخواہ، یک ساں معاشی مواقِع کے حصول کے لیے جد و جہد کرتی تھیں جب کہ مزدور کلاس کا بہ طور طبقہ ہر جگہ استحصال ہو ا اور ہنوز جاری ہے۔

مگر خواتین کا نہ صرف بہ طورِ طبقہ بَل کہ بہ طورِ صنف استحصال مختلف شکلوں میں ہوا اور یہ سلسلہ کم و بیش دنیا بھر میں جاری ہے۔ مغربی ممالک میں خواتین اپنے حقوق لینے میں کام یاب ہوئیں، مگر ان کی صنفی کم زوری کا فائدہ ابھی تک مرد اٹھا رہے ہیں۔

اب ان کو حقِ رائے دہی بھی مل چکا ہے، یک ساں معاشی ترقی کے مواقِع بھی مل چکے ہیں، آزادیِ رائے کا حق بھی مل چکا ہے۔ اپنی مرضی سے عائلی زندگی گزارنے کے لیے بھی راہ ہم وار ہو چکی ہے، جنسی اور گھریلو تشدد سے بھی نجات مل چکی ہے۔ سماجی سرگرمیوں اور کلچرل اِیونٹس میں بھی ان کی شرکت یقینی ہو چکی ہے، جائیداد میں بھی برابر کی مالک ہیں اور یہ حقِّ ملکیت مسلمان معاشروں کی طرح صرف کتابوں میں درج نہیں یے، بَل کہ عملی طور پر ان کو حاصل بھی ہے۔

سرمایہ دار معاشروں میں سیاسی اور سماجی ارتقاء نے عورت کو بعض امور میں بَر تَری بھی دلائی ہے، جس کے بعض جگہوں پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ مساوی ترقی کے مواقِع کی فراہمی نے ان کو ایک بازاری جنس بھی بنا دیا ہے، جہاں جنسی تشدد و استحصال سے محفو ظ رہنے کے لیے قانون سازی اور ریگولیشن ہو چکی ہے۔

اب جسم فروشی ایک اخلاقی مسئلہ نہیں رہا بَل کہ اس کو سیکس ورکر کا نام دیا گیا کہ یہ بھی ایک روزی کمانے کاذریعہ ہے۔ اب جہاں یہ بَہ طور جنس بھی متعارف ہوئی ہے اگر چِہ اس کا ایک طویل تاریخی تسلسل بھی ہے۔ مگر بَہ حیثیتِ مجموعی عورت روایتی قبائلی و جاگیر دارانہ معاشرے کے جبر سے آزاد بھی ہوئی ہے اور ان کو بہ طور ایک صنف کے حقوق بھی حاصل ہوئے ہیں۔ جب کہ پسماندہ سماج میں یہ آج بھی ہر طرح کی سماجی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔

ثنا خوانِ تقدیس مشرق عورت کی آزادی اور ان کے حقوق کی باز یابی کو بے حیائی اور بے غیرتی سے تعبیر کرتے ہیں جس میں ان کی اپنی انا اور ذاتی فائدہ، لالچ اور بر تَری کا زُعم نمایاں ہوتا ہے۔ مُلّا و صوفی کا دین ذاتی تسکین و فائدہ تک محدود ہے۔ جاگیر داری و قبائلی روایات و پسِ منظر رکھنے والے عورت کا جائیداد میں حصہ دینے کے لیے تیار نہیں اور چادر و چار دیواری کے پائمال ہونے کا رونا روتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر ترقی یافتہ معاشروں میں عورت کا وُجُود خطرے کی زَد میں ہے۔

معاشرہ کُلی طور پر سائنسی ترقی کے نظم میں نہیں ڈھلا ہے، جہاں اس کی آزادانہ نقل و حرکت کو خطرات لا حق ہیں۔ مگر چادر و چار دیواری کا قدیم روایتی تصور جدید ٹیکنالوجی کے ہاتھوں پائمال ہو چکا ہے۔ اب لٹھ  لے کر کوئی اس کے جذباتی و نفسانی اظہار پر پہرے نہیں بٹھا سکتا۔ اب اگر اس کو احسن انداز سے آزادی نہیں دی جا سکتی تو یہ ریت کی دیواریں ٹیکنالوجی کے سیلاب کے آگے خود بَہ خود ڈھیر ہو جائیں گی۔

اسلام نے بھی عورت کو پہلی بار تاریخِ عالم میں برابر کے حقوق دیے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ حقوق عورت کو حاصل ہیں۔ مجھے تو کہیں نظر نہیں آتا کہ خواتین کو وہ تمام تر قانونی حقوق کی باز یابی ایک عادت کی طرح حاصل ہے۔ اس کے کچھ مظاہر شہروں میں نظر آتے ہیں، مگر عورت قبائلی و خاندانی رسم و رواج کے اندر رہنے پر مجبور ہے۔ ان کی بڑی وجہ قانون کا سقم نہیں، معاشرے میں وسیع طبقاتی تقسیم، بورژوازی کلچر، مذہبی انتہا پسندی، فرسُودہ نظامِ تعلیم اور معاشی ترقی کے مواقِع کی عدم دست یابی ہے۔

ہمارے جاگیر دارنہ نظام میں عورت کی تمام تر زندگی بھائیوں کی جائیداد اور ان کی ناک کی بھینٹ چڑ جاتی ہے۔ جب تک جاگیر دارانہ نظام باقی ہے عورت تو کیا مرد بھی بد ترین استحصال کا شکار رہیں گے۔ یہاں صرف عورت کے حقوق اور آزادی کا مسئلہ نہیں، بَل کہ مرد اور عورت کو ایک ہو کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے۔ بہ طور ایک استحصال زدہ طبقہ، استحصالی طبقے کے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہے، کیوں کہ پاکستان میں جاگیر دار سیاسی طبقہ کا ہر جگہ مکمل کنٹرول ہے۔ سیاسی رہ نما اپنے مفادات کے لیے کہیں لبرل اور کہیں ترقی پسندوں کی شکل میں اکھٹے ہوئے ہیں۔

یہ صرف خواتین کا نہیں بَل کہ عام ورکنگ کلاس کا بھی استحصال کرتے ہیں۔ موڈریٹ مذہبی طبقہ کی فکر تصوراتی حقوق دینے تک محدود ہے، یا ماضی کا کوئی ایک واقعہ بیان کر دیتے ہیں۔ مسلمانوں نے ابھی تک عورت کو وہ حقوق نہیں دیے جو اسلام چودہ سو سال پہلے دے چکا تھا۔

سعودی عرب میں بَہ مشکل اب عورت کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت دی ہے۔ اب ترقی یافتہ دور میں سورج سے آنکھیں ملاتے ہوئے ان کی آنکھیں چندھیانے لگی ہی جو عورت کے سماجی تفاعل اور سرگرمیوں کو تہذیب اور عائلی زندگی کی شکست سے تعبیر کرتے ہیں۔ قانون کی کتاب میں عورتوں کے حقوق متعین کرنے سے ان کو آزادی نہیں مل سکتی جب تک معاشی اور قانونی نظام میں وسیع انقلابی سطح پر اصلاحات نہیں کی جا سکتی۔

معاشی ثمرات کے حصول کے بَہ غیر عورت کی با اختیار وجودی آزادی کا تصور نا ممکن ہے۔ یہ آزادی کا تصور ایک احساسِ ذمے داری کے دائرے کا بھی متقا ضی ہے۔ مشرقی تہذیبی اقدار اور سماجی ڈھانچہ کی تشکیلِ نو اس کے اندر رہ کر کرنا ہو گی۔ نہ  کہ ہر معاملہ میں مغرب کی نقالی۔ کیوں کہ تصادم اور انتشار وہاں پیدا ہو رہا ہے جہاں ہمارا نام نہاد لبرل طبقہ اپنی اقدار کو یک سر بھول جاتا ہے۔

مغرب میں عورت مکمل طور پر اپنے خاندان سے بغاوت کر کے رہ سکتی ہے۔ ان کو سماجی تحفظ حاصل ہے، جب کہ ہمارے ہاں سماجی تحفظ جاگیر دار، سرمایہ دار، قدامت پسند اور قبائلی طبقہ کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ جہان اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میں پہلے اپنی شہادت دینی پڑتی ہے۔

اس سسٹم میں صرف عورتیں استحصال کا شکار نہیں بَل کہ مرد بھی برابر سطح پر متاثر ہو رہے ہیں۔ صنفی امتیاز بھی اگر چِہ قائم ہے مگر یہ جد و جہد بہ طور ایک طبقہ کی جانی چاہیے نہ کہ بہ طور ایک صنف کے۔

موجودہ حکومت بھی جاگیر دار اور سرمایہ دار زادوں کے نر غے میں ہے، مگر اس کی ترقی اور آگے بڑھنے کاامکان موجود ہے، کیوں کہ تحریکِ انصاف کا سیاسی فلسفہ اصلاحات کے ساتھ ردِ تشکیل کی طرف گام زن ہے۔ جسے فرسودہ ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہو رہا ہے۔

تحریکِ انصاف میں بھی خواتین کا ایک طبقہ منصۂِ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے، جس کے مظاہر ایک نمائشی جنس سے زیادہ کچھ نہیں مگر پھر بھی ان سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ متموّل خواتین کا طبقہ شہروں سے زیادہ دیہی خواتین کی محرومیوں، غربت، گھریلو تشدد، بے روز گاری کا خاتمہ، جبری شادیاں، آبادی میں اضافے، جنسی امتیاز، ہراساں کرنے کا رجحان، وراثت میں حقِّ جائیداد سے محرومی جیسے مسائل کے لیے نہ صرف جد و جہد کریں گی، بَل کہ دیہی علاقوں میں اس موضوع پر خواتین کا ایک الگ پلیٹ فارم بھی بنائیں گی۔ ان کے حقوق کی باز یابی کے لیے متحرک بھی ہوں گی۔

تبدیلی یک سر نہیں آتی۔ اس کا عمل سست رو اور بہ تدریج ہوتا ہے۔ پہلے اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں ان کو تو یقینی بنایا جائے۔ مغربی عورت کی آزادی کے تصور اور جد و جہد کو مُوردِ الزام ٹھرانا تو بعد کی بات ہے۔ مرد اور عورت کی جنسی اور فطری تفریق سِرے سے ایشو نہیں ہے اور نہ ہی ایک کی دوسرے پر بر تری کا سوال۔ کیوں کہ تمدنی ترقی میں دونوں کا یک ساں کردار ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے حصول کے لیے جد و جہد بھی کی جاتی ہے کہ نہیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات سے میڈیا کا پیٹ بھی بھر دیا جاتا ہے۔ جنسی تشدد پر قانون بھی حرکت میں آ جاتا ہے۔ جائیداد میں اس کا حصہ بھی متعین کیا جاتا ہے۔ قانونی طور پر صِنفی امتیاز کا بِل بھی منظور ہو جاتا ہے۔

مذہبی طبقہ اس کو ایک مقدس تصوراتی صنف کے طور پر بھی متعارف کرا دیتا ہے، جو ایک رِیت کے طور پر پہلے سے چلا آ رہا ہے بَل کہ یہ لوگ تو اس کی شناخت مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ تو کیا عورت کو اپنے تمام تر حقوق حاصل ہو جائیں گے۔ اس کے امکانات بہت کم ہیں۔

معاشرے میں عورت ہو یا مرد اس کی صنفی اور طبقاتی تفریق و امتیاز کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک معاشی سطح پر عدل اجتماعی قائم نہیں ہو جاتا؛ اور حکومت انقلابی سطح پر کم از کم ٹیکس کے نظام کو مؤثر بنا کر متاثرہ محروم طبقات تک معاشی ثمرات نہیں پہنچاتی۔ کیوں کہ معاشی آزادی کے بَہ غیر ارادے شعور اور وجود کی آزادی کا احساس نہیں پیدا ہوتا اور کسی بھی، معاشرے میں یہ آزادی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک وسیع طبقاتی خلیج کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔