کیا شہر دیہات کو کھا جائیں گے؟ 

Ashraf Javed Malik اشرف جاوید ملک

کیا شہر دیہات کو کھا جائیں گے؟

ہمارے آبائی گاؤں کی زندگی کبھی اوج پر ہوا کرتی تھی ہرطرف گھنے درخت اور چند گھرانوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں، دور تک لہلہاتی فصلیں اور کچھ غیر کاشتہ میدان جہاں کانٹے دار گھاس (دربھ اگا کرتی جس کی سبز اور پیلی تیلیوں سے عورتیں گھر کی صفائی کے لیے جھاڑو بنایا کرتیں۔) شام سے کچھ دیر پہلے ہم سب لڑکے بالے گلی ڈنڈے کا میچ کھیلتے۔ جانوروں کا چارہ کاٹتے۔ سائیکل پر شہر جاتے اور وہاں چاچے نورے اور اکبر کے ہوٹل پر کرکٹ میچ یا پھر ڈرامے۔ آخری چٹان کی اگلی قسط یا، انکل سرگم دیکھا کرتے۔

بعض اوقات ماسی مصیبتے کی نوک جھونک ہمیں بھی اس مصیبت ڈال دیتی کہ ہم گھر دیر سے پہنچتے اور سزا کے طور پر مرغا بننا پڑتا۔ ہمارے گاؤں میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی اگر بجلی منظور ہوتی تو اس وقت کے رکن اسمبلی یا ممبر ضلع کونسل کو کہہ کر ہمارے کچھ خیر خواہ، ہمارے گاؤں کے کوٹے والی بجلی کی منظوری نہ ہونے دیتے۔

ہم بڑے بزرگوں سے سنا کرتے کہ فلاں وڈیرے نے یہ کہہ کر بجلی منظور نہیں ہونے دی کہ یہ غریب لوگوں کا گاؤں ہے یہ لوگ بِل ادا نہیں کر پائیں گے۔

مجھے یاد ہے کہ ہم کوڑکے لگا کر برسات کے دنوں میں دائروی ولئی دے کر تیتریوں اور گھگھیوں (فاختاؤں) کو کوڑکے کے قریب کرتے اور پھر پھڑپھڑاتے ہوئے پنچھی کو کوڑکے کے تاؤ سے نکال کر اس کی گردن پر چاقو پھیر دیتے۔ شکار سالن کو مزے دار بنا دیتا۔ برائلر کا نام و نشان تک نہ تھا۔ دیسی مرغ اور مرغیاں گھروں میں موجود ہوتیں۔ جب جی کرے مرغی پکڑو اور ذبح کرلو طاقت ور دیسی مرغ پکڑنے کے لیے ہمیں آدھ آدھ گھنٹہ مرغیوں کے پیچھے بھاگنا پڑتا۔

بعض اوقات ذبح کی ہوئی مرغی بھی اتنی زور آور ہوتی کہ ذبح ہو کر بھی اڑ جاتی۔ لوگ ایک دن چھوڑ کر روٹی سالن بناتے۔ ہر دوسرے دن میٹھے چاول یا گائے اور بھینس کے دودھ والے چاول کھائے جاتے۔

صبح دیر سے جاگنے کا کوئی تصور نہیں تھا اس لیے سب لوگ رات دس بجے ہی سو جایا کرتے۔ کوئی طالب علم ہوتا تو دیا یا لالٹین جلا کر دیر گئے تک پڑھا کرتا۔ گھر میں نیم ٹاہلی یا کیکر کے درخت کی کوئی شاخ اپنا سینہ گھر کی پالتو مرغیوں کے لیے وقف کر دیتی اور آگے تک جھکتی چلی جاتی جس پر مرغیاں اپنے مرغ بادشاہ کے ساتھ رات کو آرام فرماتیں۔

گھروں سے دور فصلوں میں سے رات گئے تک گیدڑوں کا کوئی خاندان چاندنی رات میں باہر نکلتا اور ایک دو نر گیدڑ ان کے رزق کے اہتمام کے لیے مرغیوں والے کسی گھر کا رخ کرتے اور عین اس درخت کے نیچے جا کر ہوا خارج کرتے جس درخت پر مرغیاں بیٹھی ہوتیں۔

بد بو دار ہوا سے انسانوں کے سر بھی چکرا جاتے۔ اور کوئی ایک آدھ مرغی بے ہوش ہو کر درخت سے نیچے آن گرتی تو گیدڑ اسے مُنھ میں دبوچ کر کھیتوں کا رخ کرتے۔ مرغیوں کے شور اور گیدڑوں کے رونے چلانے کی آوازیں سن کر کتے گیدڑوں کا تعاقب کرتے اور یوں پورا گاؤں جاگ پڑتا۔

بعض اوقات کسی گاؤں میں جب کوئی مال دولت جمع رکھتا اور اسے بینک کے نظام کا شعور نہ ہوتا تو چور ان کے گھر کی بیرونی جانب نقب لگاتے۔ اگر گھر والے ہوشیار ہوتے تو ہر طرف شور کی آوازیں بلند ہوتیں۔ چور اوئے… اگو ولیں اوئے … اور پھر ہر گاؤں سے آوازیں آتیں کہ ایوسے اوئے …

گھروں سے کچھ دور مالٹے اور آموں کے کئی مربع اراضی پر باغات ہوتے۔ نہروں کا بہ غیر سیوریج کا شفاف پانی ان باغات میں سے کھالیوں میں سفر کرتا ہوا گاؤں میں داخل ہوا کرتا۔ جس سے فصلیں اور تازہ سبزیاں کاشت ہوتیں۔ تازہ پانیوں میں اچھلتی کودتی سنکارہ اور سانپ نما ملی مچھلیاں کھیتوں تک سفر کرتیں۔

شہر کی ڈسپنسری میں موجود لال دوائی شیشے کے جار میں سے نکلتی تو ہر مرض کی مریض کی دوا بن جایا کرتی۔

لوگ گوبر کے اپلوں یا درختوں سے حاصل کردہ خشک ٹہنیوں یا خشک کی گئی سبز ٹہنیوں کی لکڑی چولہوں میں جلاتے۔ سوہانجنے کے پھول (باٹا، پھلیاں، کچنار کے پھول، کیکر کی پھلیاں، تازہ پکنے والے سِٹوں کو بھون کرنکالے گئے کنک دانوں (آبھو یا تندولے) کے ساگ، سرسوں کے ساگ، ڈیلہوں، گنگیریوں یا پھر کھمبیوں سے سالن بنایا جاتا یا پھر آم ٹماٹر اور سبز مرچ یا مرچ اور پودینے کی چٹنی بنا کر روٹی کھائی جاتی۔

کچے آم، لسوڑے یا پھر گاجر کا اچار ڈال کر رکھ لیا جاتا۔ گنے کے رس سے ککوں، دیسی شکر اور گُڑ بنا کر گھر میں رکھا جاتا۔ گھڑاؤنج پر مٹی کے گھڑے پانی سے بھر کر رکھے ہوئے ہوتے۔ صبح مکھن اور لسی یا دہی سے تندوری روٹی کھا کر ناشتہ کیا جاتا۔

خالص شہد آدھ سیر سے ایک سیر تک ہر گھر میں موجود ہوتا۔ درخت اور پھول دار والے پودے گاؤں میں ہر طرف بہت زیادہ اگا کرتے اس لیے جہاں جانوروں کے باڑے مرغیوں کی کھڈیاں یا دڑبے موجود ہوتے وہیں پر ہر دسویں یا بیسویں درخت پر شہد کا چھتہ ضرور ہوتا۔

لوگوں کے ہاتھوں شہد بھرے یا پھل دار درختوں کو نقصان پہنچنے سے بچاؤ کے لیے ہر دوسرے یا تیسرے درخت پر بھڑوں کے مومی چھتے ہوا کرتے۔ گھر کے پالتو کتے بہترین چوکی دار اور پالتو جانوروں کے اچھے نگران کہلائے جا سکتے تھے۔ بزرگوں کے بہ قول تقسیم ملک سے پہلے یہاں ہر گاؤں میں کسی نہ کسی ہندو گھرانے کی چودھراہٹ بھی ہوا کرتی اور ان چودھریوں کے سر پر پَگ یا مشہدی ہوا  کرتی اور وہ گھوڑوں پر سفر کیا کرتے تھے۔

یہ ہندو مقامی سرائیکی زبان بولا کرتے تھے۔ تقسیم سے پہلے وسیب کی سو فیصد آبادی سرائیکی بولا کرتی تھی۔ کل آبادی میں سے تیس فیصد ہندو اور چند ایک گھرانے سکھوں کے بھی ہوتے جو رانا کہلواتے تھے۔ تقسیم کے بعد جہاں مسلمان قتل ہوئے وہاں ہمارے وسیب میں ہجرت کرتے ہوئے ہندو بھی قتل ہوئے۔

سکندر آباد، شجاع آباد اور مٹوٹلی میں امیر کبیر ہندو چودھریوں کی حویلیاں تھیں اور مضافات میں کئی مربع اراضی۔ باباجان بتاتے ہیں کہ شجاع آباد میں قصبہ مڑل کے علاقے چاہ ٹھل والا پر پہلا ہندو قتل ہوا اور پھر مٹوٹلی سکندر آباد اور شجاع آباد سے رات کے اندھیرے میں ہندو برادری ہجرت کر گئی۔ بدھی (لڑائی)  پڑ گئی جس میں مقامی آبادیوں نے ہندوؤں کی دکانوں کے مال پر ہاتھ صاف کیا۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ زیادہ تر مقامیوں نے جاتے ہوئے ہندوؤں کے مال کو سرکاری خزانے کا حساب سمجھ کر اس کی حفاظت بھی کی۔

ان ہجرت کر کے بھارت جانے والوں کے بدلے میں شیخ، قریشی، راؤ، شاہ، میوات اور چودھری ارائیں بھارت سے وسیب میں منتقل ہوئے اور شہری آبادیوں سے جانے والے ہندوؤں کی املاک انہیں الاٹ کر دی گئیں۔ ایک طویل عرصہ تک کا تہذیبی اور ثقافتی خلا موجود رہا اور پھر یہ سب لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ گھلتے ملتے چلے گئے۔

آبادیاں بڑھیں اور دیسی ثقافت جدت پذیری سے آشنا ہونے لگی۔ شہر میں بہت کچھ بدلا۔ صنعت آئی کار و بار ہوا۔ کارخانے لگائے گئے۔ کار و باری اور سودا بازی کے رجحانات تبدیل ہوئے مگر دیہات جوں کے توں رہے۔

دیہی آبادی بڑھی، بیل رہٹ، کنواں، دیسی ہل اور پنجالی کی جگہ ٹریکٹر اور جدید زرعی آلات نے لے لی۔ آٹا پیسنے کے لیے بجلی سے چلنے والی چکیاں آ گئیں۔ مصالحے پیسنے اور گندم اور دھان چھڑنے کی مشینیں کپاس سے روئی بنانے اور بنولہ الگ کرنے کی مشینیں، ڈیری مصنوعات، اور دودھ سے کریم نکالنے کے لیے جدید آلات سب کچھ ہی بدل گیا۔

گویا دیہات کی زندگی سہل ہوئی لیکن تیز رفتار نہ ہو پائی مگر اب اتنا عرصہ بعد ہمارے بچپن تک بہت کچھ نیا تھا۔ موٹر سائیکل اور موٹر گاڑیاں، ٹی وی اور برف بنانے کی فیکٹریاں مگر زرعی دواوں اور سیوریج کے پانی نے دیہات اور زراعت کا حسن گَہنا دیا۔

باغات کاٹ کر کپاس اگانے کا رجحان پیدا ہوا۔ گلی ڈنڈے کی جگہ کرکٹ آ گئی اور تھیئٹر کی جگہ سینما اور وی سی آرز۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا تھا۔ ابھی سادگی تھی فصلیں ہری بھری تھیں۔ کپاس کے ساتھ ساتھ باغات بھی تھے۔ مویشی تازہ دم اور گھاس زہر والی سپرے سے پاک تھی۔

دیسی کشتی، پہلوانی، اکھاڑے اور سوہن حلوے یا خالص برفی کا رواج تھا۔ ہندو مسلم اور ایرانی اور عربی ثقافت ملی جلی تھی۔ درگاہیں محکمہ اوقاف کے ہاتھوں میں نہیں تھیں۔ میلے اور عرس ہوتے تھے۔ اور ہر آئی جمعرات کو درگاہوں پر دِیے جلائے جاتے تھے۔ چِلّہ کَشی ہوتی تھی۔ جھنڈ اور اٹے گھٹے کی رسمیں بھی تازہ تھیں۔

سندھی سندھ سے پیدل بنا جوتے کے ننگے پاؤں سکھر، اوچ شریف، جلال پور پیروالا  شجاع آباد، سکندر آباد اور کھوکھراں سے ہوتے ہوئے ملتان کے درباروں پر حاضر ہوا کرتے تھے۔ ملتان اب بھی سندھ کی مقدس دھرتی (شمالی وادیِ سندھ تھا۔ اب جب کہ نئی صدی ایک چوتھائی سفر کر چکی ہے، زرعی رقبے اور زراعت تباہ کر دی گئی ہے، مکئی گنا اور کپاس کی فصلیں نفع بخش نہیں رہیں۔ ہر ایک لاکھ کے زرعی کاشت کاری کے خرچ پر حاصل کردہ آمدنی ساٹھ ہزار روپے تک ہے۔ مزدوری نہ ہونے کے برابر اور مزدور زیادہ۔ اوسط آمدنی بہت کم، آبادی میں تیز تر اضافہ نئے اور عمدہ گھر بنانے اور گاڑی لینے کا رواج مگر مستقل آمدنی نہ ہونے کے برابر، زیادہ لوگ معاش کی خاطر لاہور فیصل آباد کراچی یا پھر خلیجی ممالک کے مسافر۔

گاؤں اعلیٰ تعلیم کی کمی اور پس ماندگی کا شکار، طبقاتی نظام، شہر کی طرف مراجعت کا عمل تیز تر، اور نفسا نفسی کا ماحول، اچھے رشتوں کی تلاش اور سماجی خود ساختہ خوش حالی کے نظریے کے تحت اپنے خون کے رشتے داروں اور رشتوں سے مغائرت جیسا برتاؤ۔ منافقت، تعصب، تنگ نظری، جہالت اور منفی مقابلہ سازی کا رجحان۔

چھوٹے چھوٹے مفاداتی گروہ اور غلط اطلاعات کے ذریعے اپنے طے کردہ ذاتی اور خود غرضانہ و خود اختیارانہ مفادات اور ان کے تحفظ کے لیے بھائیوں کو بھائیوں سے دور کرنے اور گھروں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے بھابھیوں کی منفی منصوبہ سازیاں، گھر گھر تعصب اور دوری، اور ان سب کو ہوا دینے اور سکھانے کا کام کرنے والے ٹی وی ڈرامے۔ منفی سوچ اور ذاتی منفعت کے لیے منصوبہ ساز وڈیرے، دیہاتی مولوی، پٹواری اور ان کے ہاتھوں استعمال کردہ پولیس کلچر ان سب نے اب دیہات اور دیہات کے سماج کو بدل  کر رکھ دیا ہے۔ نہ وہ درخت نہ بیج نہ جانور نہ فصلیں نہ موسم نہ انسان۔

دیہات کا حسن اور مزاج تیزی سے شہر آمیز ہوتا جا رہا ہے۔ فصلوں کا رقبہ سکڑ رہا ہے جب کہ بڑھتی ہوئی آبادی نا کافی سہولیات کے حامل تیزی سے پھیل کر وسیع ہوتے ہوئے گھر اور گاؤں اور مشکل در مشکل یہ کہ روز گار کے نا کافی اسباب اور کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے اینٹوں کے بھٹوں کی زرعی علاقوں میں افراط۔

کوئلے کی کالک اور دھوئیں سے آلودہ ماحولیات، دَمہ اور سانس کی بیماریاں، متاثرہ ہوا اور فضا۔ اور زیر زمین خراب پانی جس کی وجہ سےایک وسیع دیہی اور شہری آبادی کو ہیپا ٹائٹس زدہ قرار دیا جا چکا ہے۔

ماحولیاتی جرائم مجبوری کیوں بن رہے ہیں؟ ہر طرف گندہ پانی سیوریج سے اگائی جانے والی سبزیاں اور اینٹوں کے بھٹے، زرعی رقبوں کی تباہی، فصلوں کی آلودگی، مٹی اور اینٹیں ڈھونے والی ٹرالیوں کی بہتات سے سڑکوں کی تباہی اور گرد ہی گرد، نہ وہ پرندے نہ کوئل، نہ فاختائیں، نہ طوطے، نہ چڑیاں نہ نیل کنٹھ، نہ ٹٹیہریاں، نہ اُلّو، نہ تیتریاں اور نہ ہی جنگلی خرگوش، یا گیدڑ۔ بس دو چار مَریَل کتے، کچھ بیمار بلیاں، اداس اور مرجھائے ہوئے بالوں والی گلہریاں، ہر ایک طرف دُھول اور مٹی۔

کچے اور ادھورے گھر، زنگالے ہوئے درخت، دھواں اگلتے ہوئے اینٹوں کے بھٹوں کی چمنیاں، نہ کھیل کے میدان نہ تفریح کے لیے کلب، نہ ریڈنگ رومز نہ کوئی قصباتی لائبریری، سگریٹ کے کَش لگاتے اور گالیاں بَکتے مَریل جوان۔ سیل فون کی سکرین پر آنکھیں جمائے ہوئے بے زار لوگ، اور مہنگائی سے پریشان عورتیں۔ تعلیم، روز گار اور رشتوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے ساٹھ سے ستر سالہ بوڑھے اور کل کی مزدوری کی منصوبہ بندی کرتے اور آج کی مزدوری کی چالاکیاں بیان کرتے ہوئے مزدور۔ یہ کیا سماں تھا جس نے مجھے دل گرفتہ اور بے زار کر دیا تھا؟ کیا مستقبل ہے اس  ماحولیات کا؟ یہ ایک سوال تھا جو ذہن میں جگہ بنا کر جم گیا ہے۔